قیدی سے حاکم بننے تک

ہر انسان کی زندگی میں اونچ نیچ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں‘ تاہم جس زنداں میں آپ کے شب و روز ایک بے بس قیدی کی حیثیت سے گزرے ہوں وہاں چند برس کے بعد ایک حاکمِ اعلیٰ کی حیثیت سے جانا یقینا ایک جذباتی تجربہ ہے۔ ایسا تجربہ انسان کو رُلا بھی دیتا ہے اور سوچ کے کئی دریچے بھی وا کر دیتا ہے۔
جس قید خانے میں مریم نواز ایک قیدی کی حیثیت سے قیدِ تنہائی میں مقید تھیں وہاں چند ہی قدم کے فاصلے پر اُن کا شفیق باپ پابندِ سلاسل تھا۔ مگر باپ کو بیٹی سے اور بیٹی کو باپ سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ مریم نواز نے اتوار کے روز سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کا دورہ کیا۔ وہ بطورِ خاص اُس سیل میں گئیں جہاں اُن کے والد میاں نواز شریف کو قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ جیل وہ جگہ ہے کہ جہاں وقت تھم تھم کے چلتا ہے‘ جہاں انسان اپنی مرضی سے اپنی کال کوٹھڑی کا کواڑ تک نہیں کھول سکتا۔ وہاں اگر وہ ایک حاکم بن کر اس طرح جلوہ افروز ہو کہ اس کے اشارۂ ابرو پر احکامات کی تعمیل ہو رہی ہو تو ایسی شان کو دیکھ کر 'قیدی‘ کا جذباتی ہو جانا اور اس کے قلب و روح کا اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو جانا عین فطری عمل ہے۔ ایسا لمحہ یقینا مقامِ شکر بھی ہے اور مقامِ فکر بھی۔
پیاروں کی جدائی اور جیل کی کال کوٹھڑی میں انسان پر کیا گزرتی ہے‘ اس کا محترمہ مریم نواز سے بڑھ کر کسے علم ہوگا کیونکہ وہ خود ان سب مراحل سے گزر چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس وزٹ کے دوران بہت سے قیدیوں کو تین ماہ کی قید میں چھوٹ دی اور رہا ہونے والوں کو نقدی اور دوسری اشیا کا تحفہ پیش کیا۔ انہوں نے قیدیوں کے لیے وڈیو کال کی سہولت کا بھی افتتاح کیا۔ مخیر حضرات کے تعاون سے پندرہ کروڑ روپے جمع کیے گئے جن سے 155قیدیوں کی دیت ادا کی گئی اور یوں موت کے دروازے پر پہنچے ہوئے انسانوں کو ایک بار پھر زندگی نصیب ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے دباؤ کے زیر اثر نظامِ عدل کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح میاں نواز شریف کو ایک پیشی پر کسی نے بتایا کہ بسترِ علالت پر زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا اُن کی شریک حیات کی طبیعت بہت ناساز ہے۔ بے بسی کا عالم دیکھئے کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے قائد کو دنیا سے رخصت ہوتی ہوئی غمخوار بیوی سے بات کرانے سے بھی انکار کر دیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے محترمہ مریم نواز لاہور کی جیلوں میں موجود تمام سیاسی قیدیوں سے بھی ملاقات کرتیں‘ خواتین قیدیوں کی دل جوئی کرتیں۔ بالخصوص ''مدرلی فگر‘‘ ڈاکٹر یاسمین راشد سے تمام تر سیاست بالائے طاق رکھتے ہوئے ملاقات کرتیں۔ مگر ایسا کیوں نہ ہو سکا یہ مقامِ حیرت بھی ہے اور مقامِ افسوس بھی۔ خواتین سیاسی قیدیوں کے لیے تو اس وقت تک انہیں ضرور کوئی جرأت مندانہ فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔ وہ انہیں کم از کم ضمانت کا حق تو دلواتیں پھر اُن کے بارے میں قانون جو بھی فیصلہ کرتا اس کا وہ سامنا کرتیں۔ انہیں اس بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے کہ یہ کیا سیاسی کلچر ہے کہ جب 2018ء کے انتخاب کا موقع آیا تو اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو پسِ دیوار زنداں پہنچا دیا گیا اور جب 2024ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت کے بانی چیئرمین جیل میں مقید تھے اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
مقبول سیاستدانوں کو انتخابی اکھاڑے سے دور رکھنے کا یہ طریقہ نیا نہیں‘ بہت پرانا ہے۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی زندگانی ایک اعتبار سے جیل کہانی ہے۔ انہیں جرمِ بے گناہی کی پاداش میں ایک بار نہیں‘ بار بار شاہی قلعہ لاہور سے لے کر پنجاب کی کئی جیلوں میں قید کیا گیا۔ 1964ء میں انہیں مولانا مودودیؒ اور دیگر اکابرِ جماعت کے ساتھ جیل جانا پڑا۔ سات فروری 1964ء کو والد گرامی نے زنداں کی بیرک سے اپنی ڈائری میں لکھا کہ مشرقی و مغربی پاکستان سے جماعت اسلامی کے زعما کو اس لیے گرفتار کرکے زندانوں میں ڈال دیا گیا تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ ان انتخابات میں اُس وقت کے آمرِ مطلق ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی صدارتی امیدوار تھیں۔ البتہ ان دنوں آمریت اور مطلق العنانیت کے باوجود کلچر بہت مختلف تھا۔ فیصل آباد جیل میں والدِ گرامی اپنے تین سینئر قائدینِ جماعت کے ساتھ پابندِ سلاسل تھے۔ ایک روز آئی جی جیل خانہ جات جیل کے معائنے پر آئے۔ آئی جی والد صاحب والی بیرک میں ان ممتاز سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے آئے اور ایک گھنٹے تک ان کے احاطے میں کرسیوں پر براجمان ہو کر گپ شپ لگاتے رہے اور ملکی سیاست پر دوطرفہ سیر حاصل تبصرہ ہوتا رہا۔
یہاں محترمہ مریم نواز کے لیے مقامِ فکر یہ ہے کہ وہ ایسی سیاسی‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کریں کہ جیسی بے بسی کا انہیں کل سامنا تھا آج کے قیدیوں کو ویسی مجبوری کا سامنا نہ ہو۔ محترمہ مریم نواز نے یقینا چند اچھے اقدامات کیے ہیں مگر جیلوں کی بدترین صورتحال کے مقابلے میں ان تبدیلیوں کی حیثیت سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی دو تین سال قبل کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی 99 جیلیں قیدیوں سے آباد ہیں۔ ان جیلوں میں 45 ہزار 210 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر وہاں 80 ہزار 159 قیدی ٹھسے ہوئے ہیں۔ ان جیلوں میں قیدیوں کو شفٹوں میں سونا پڑتا ہے۔ جان لیوا گرمی میں پنکھوں کے بغیر اور شدید سردی میں سوراخوں والے نام نہاد کمبلوں میں بیچارے قیدی سونے کی بس رسم ہی پوری کرتے ہیں۔ پچھلی حکومت میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرف سے جاری کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ ہوشربا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ اس رپورٹ کے مطابق جیلوں میں موجود 60 فیصد قیدی سزا یافتہ نہیں بلکہ برسوں سے زیر التوا مقدموں کے انتظار میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ایڈز اور ہزاروں کی تعداد میں ہیپاٹائٹس اور ٹی بی وغیرہ جیسے موذی امراض کے مریض ہیں‘ مگر کسی کو اس کی پروا نہیں۔
ہماری جیلیں گزشتہ 70 سال سے قیدیوں کی اخلاقی تربیت گاہیں نہیں بلکہ جرائم کی آماجگاہیں رہی ہیں۔ اسی طرح ہماری جیلوں میں ہنر سکھانے اور لاکھوں روپے کمانے والے آئی ٹی پروگراموں کی ٹریننگ کا بھی کوئی بندوست نہیں جہاں تک جیل میں ذرا ذرا سی بات پر قیدی کی عزتِ نفس کو خاک میں ملایا جاتا ہے اور جلادوں کے ہاتھوں ان کی چمڑی ادھیڑ دینے والے انگریز کے زمانے کے کلچر کا تعلق ہے‘ وہ جوں کا توں برقرار ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک شدت کے ساتھ برقرار ہے۔
محترمہ مریم نواز محض چند قیدیوں کی رہائی اور وڈیو کالز تک محدود نہ رہیں بلکہ جیلوں میں حقیقی تبدیلی لائیں اور سیاسی قیدیوں کو حوالۂ زنداں کرنے کے کلچر کا خاتمہ کروانے کی کوشش کریں۔ ادلے کا بدلہ والا لامتناہی سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟رحمتِ خداوندی سے قیدی سے حاکم بننے والی مریم نواز کے لیے یہ مقامِ شکر بھی ہے‘ مقامِ فکر بھی‘ مقامِ عفو و درگزر بھی اور روا داری والے ایک نئے سیاسی دور کا نقطہ آغاز بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ربِّ ذوالجلال کے اس احسانِ عظیم کا وہ کیسے شکر ادا کرتی ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں