خوشی کا راز

خوشی کا راز دریافت کر لینا آبِ حیات دریافت کرنے سے کم نہیں۔ میرے خیال میں خوش دو ہی انسان ہوتے ہیں؛ ایک وہ جو خدا مست ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو حال مست ہو۔
عربی زبان کی ایک مثل ہے کہ الجار قبل الدار۔ مطلب یہ کہ گھر بنانے سے پہلے یہ دیکھو کہ پڑوسی کون ہے۔ پڑوسیوں کے اعتبار سے ہم بڑے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں ۔ سانجھی دیوار والے ہمارے پڑوسی عاشق بٹ صاحب ہیں۔ کئی دہائیوں تک دبئی میں اچھی ملازمت کرتے رہے‘ اب وہ لاہور میں اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ وہ خدا مست ہیں‘ پانچوں نمازیں باجماعت مسجد میں پڑھتے ہیں، خلقِ خدا کی مدد کرتے ہیں اور ہر وقت خوش رہتے ہیں۔
ہر سال یو این او کی سرپرستی میں دنیا بھر کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اس کی سالانہ رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برس سے یورپ کا ایک چھوٹا ملک فن لینڈ خوش ترین ملک کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں فن لینڈ کی خوشی کا راز کیا ہے؟
یو این او کے سروے کے تحت جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اُن میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں اوسط عمر کیا ہے۔ خوشحالی اور سوشل سکیورٹی کتنی ہے۔ لوگوں کو کتنی فریڈم حاصل ہے۔ اس فریڈم میں سیاسی‘ صحافتی‘ سماجی اور ذاتی آزادی سب شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک میں گورننس کیسی ہے اور کرپشن کتنی ہے۔فن لینڈ خوشحال ہے مگر دنیا کے پہلے بیس امیر ترین ممالک میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ فن لینڈ ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 56 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں کے باسیوں کی خوشی کا ایک نہیں‘ کئی رازہیں۔ فن لینڈ میں کسی شہری کو بے بسی کا ہرگز کوئی احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی آمدنی اور قیمتوں کے درمیان کوئی بڑا تفاوت نہیں۔ یہ نہیں کہ راتوں رات گیس چھ سو فیصد بڑھا دی جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنے شعبے کا کام نہیں ملتا تو حکومت اسے نہایت معقول وظیفہ دیتی ہے۔ یو این او کے مقرر کردہ خوشحالی اور خوشی کے تمام معیارات پر فن لینڈپورا اترتا ہے۔ اس ملک کے خوش ترین ہونے کے رازوں تک رسائی حاصل کرتے کرتے بعض دلچسپ انکشافات بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ فن لینڈ میں مقبولِ عام 'سونا باتھ‘ وہاں کے شہریوں کی خوشی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ فن لینڈ میں جھیلیں اور جنگل بہت ہیں۔ یہاں 40 نیشنل پارک ہیں۔ لوگ سیرو سیاحت اور قدرتی مناظر کے دلدادہ ہیں۔ ٹمبر ہی یہاں کی سب سے بڑی ایکسپورٹ اور یہی اُن کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔
فن لینڈ میں فضائی آلودگی نام کو نہیں۔ دیانتداری کا اعلیٰ معیار ایسا کہ شاید دنیا میں کہیں نہ ہو۔ایک شخص نے یہاں کی دیانتداری کا اندازہ لگانے کیلئے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلنسکی میں مختلف مقامات پر 12 پرس گرائے جن میں سے 11 واپس آ گئے ۔ ایسا ہونا کوئی خبر نہیں ہوتا۔یہ وہاں کی روٹین ہے۔ یہ محیر العقول راز سن کر میں نے فیصلہ کیا کہ انہیں زمینی حقائق کے مطابق چیک کیا جائے ۔ اوپر میں نے اپنے جن پڑوسی کا ذکرِ خیر کیا ہے اُن کا صاحبزادہ عمر بٹ فن لینڈ میں مقیم ہے۔اُن سے میں نے فون پر ہیلنسکی رابطہ کیا تو اس نے نہ صرف اوپر بیان کردہ دل خوش کن حقائق کی تصدیق کی بلکہ اپنے تجربے اور مشاہدے کے مطابق اس سے کہیں بڑھ کر بتایا۔ وہ گزشتہ 13 برس سے اس خوش ترین ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے اس نے پہلے فن لینڈ کی یونیورسٹی سے ایم ایس‘ پھر پی ایچ ڈی اور اب کینسر میں وہ عالمی معیار کی پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ کر رہا ہے۔ اس تعلیم کے تمام تر اخراجات یونیورسٹی برداشت کر رہی ہے۔ ڈاکٹریٹ پروگرام یہاں باقاعدہ ملازمت سمجھی جاتی ہے اور اسی حساب سے اس کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے ۔
عمر نے بتایا کہ فن لینڈ جس طرح سے دنیا کا خوش ترین ملک ہے اسی طرح سکول کی سطح پر اس کا اسلوب و معیارِ تعلیم دنیا میں بلند ترین ہے۔ ذرا سنتے جائیے: ہر بچہ ایک طرح کے سکولوں میں پڑھتا ہے۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کی فیس اس کے والدین کی آمدنی کے مطابق لی جاتی ہے۔ جن والدین کی آمدنی کم ہوتی ہے اُن کی فیس بس واجبی ہوگی اور جن کے والدین کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے اُن سے فیسیں بھی بہت زیادہ لی جاتی ہیں۔ مگر امیر اور غریب والدین کے بچوں کیلئے سکول ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں دورانِ نماز تو محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں مگر امیروں کا جہاں اور ہے ‘غریبوں کا جہاں اور ہے۔
میں نے عمر سے پوچھا کہ قیمتوں اور آمدنی میں کتنا تفاوت ہے؟ اس نے بتایا کہ قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود آمدنی کے حساب سے قابلِ برداشت ہیں۔ یہاں جتنی آمدنی بڑھتی جاتی ہے اسی حسا ب سے ٹیکس بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں کے ہسپتالوں میں علاج نہایت معیاری اور مفت ہے۔
میں نے پوچھا کہ یہاں کاروبارِ زندگی کس زبان میں چلتا ہے؟ نوجوان ریسرچ سکالر کا جواب تھا: انکل! یہ آپ نے کیا سوال پوچھا‘ یہاں کی سرکاری زبان فِنش ہے اور سو فیصد ہر ادارے میں رائج ہے۔ ہائی سکولوں تک فنش میں تعلیم دی جاتی ہے اور انگلش سیکنڈ لینگوئج کے طور پر ساتھ پڑھاتی جاتی ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ بابائے قوم کا فرمان اُردو‘ دستورِ پاکستان میں درج اُردو‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ اُردو مگر ایک مختصر ایلیٹ کلاس کی امتیازی شان اور غلبہ قائم رکھنے کیلئے سب فیصلے نصف صدی سے پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں ۔ انگریزی کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر عملاً وطن عزیز میں سرکاری زبان یہی ہے۔کمال دیکھئے کہ یورپ کے ہر چھوٹے بڑے چھوٹے ملک کی اپنی زبان ہے اور اسی پروہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس خوش ترین ویلفیئر ملک کے انداز دیکھئے کہ تین سالہ بچے کیلئے بہترین سرکاری ڈے کیئر سنٹر موجود ہیں جہاں بچوں کی کیئر اُن کی ماؤں سے بڑھ کر کی جاتی ہے۔ فن لینڈ میں کئی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ سوشل ڈیمو کریٹ پارٹیاں بھی شامل ہیں؛ تاہم ان جماعتوں میں ایک دوسرے پر تنقید تو کی جاتی ہے مگر سب کچھ تہذیب و شائستگی کے دائرے میںہوتا ہے؛ اوّل تو وہاں پگڑیاں نہیں ہوتیں‘ اگر ہوں بھی تو اچھالی نہیں جاتیں۔
قارئین کرام! کہاں تک سنیں گے‘ کہاں تک سناؤں۔ ایسی داستانوں سے ہماری محرومیوں کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ بچوں سے پیار بہت کرتے ہیں مگر اُن کے بچے کم ہی نہیں‘ بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لیے فنش شہری تھائی لینڈ سے لے پالک بچے لا کر گھروں کی رونقوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اب آخری بات سن لیجئے کہ فن لینڈ میں منافقت بالکل نہیں۔ البتہ خوش دلی اور خوش طبعی بہت ہے مگر دلیل سے گفتگو کرنے اور سننے کا کلچر رائج ہے۔
یہاں لوگ اپنی ریاست پربے حد اعتماد کرتے ہیں اور اس سے بے پناہ محبت بھی۔ اسی لیے تو فن لینڈ دنیا کا خوش ترین ملک گردانا جاتا ہے۔ اس ملک میں خوشی کے بہت سے رازوں سے ہم نے پردہ اٹھا دیا ہے، کبھی موقع ملا تو اور بھی بہت سے رازوں کی نقاب کشائی کی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں