کرنے کیا آئے تھے‘ کر کیا رہے ہیں

جب کوئی نئی حکومت وجود میں آتی ہے تو عوام اس کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے سارے دکھوں کا مداوا ہو یا نہ ہو مگر انہیں تھوڑا بہت ریلیف تو ضرور ملے گا۔ اس حکومت کی دونوں بڑی جماعتوں کی نوجوان قیادتوں نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں کو بہت سے سنہری سپنے دکھائے تھے۔بظاہر دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس ملک کی مالک و مختار ہیں۔ حکومت کی سربراہی جناب شہباز شریف کے پاس اور ریاست کی سربراہی بحیثیت صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دونوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اُن کے برسراقتدار آنے کے فوری طور پر غریبوں کیلئے تین سو یونٹ بجلی فی گھرانہ مفت کر دی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ہاتھوں میں بجلی کے نئے اور پرانے بل لہرا کر عوام کے سروں سے بوجھ کم کرنے کی نوید سنائی تھی۔ میاں صاحب نے لوگوں کو اپنا دور یاد دلا کر یہ وعدہ کیا تھا کہ ان شاء اللہ بتدریج ہم 2017ء والا دور واپس لائیں گے۔ انہوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھانے کا خوش رنگ وعدہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ بہترین امن و امان کا قیام‘ صحت و تعلیم کے شاندار منصوبے مسلم لیگ(ن) کے ایجنڈے کی ترجیحات میں شامل تھے‘ مگر عملاً ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ معیشت کی کشتی بھنور میں ڈانواں ڈول ہے۔ مہنگائی کے نامہرباں تھپیڑے شب و روز عوام الناس کی تواضع کر رہے ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔مسکراہٹوں کی کہکشائیں بکھیرتے ہوئے عوام سے خوبصورت وعدے کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نئی حکومت کے برسراقتدار آنے اور ایوانِ صدر میں اُن کے والدِ محترم آصف علی زرداری کے جلوہ فگن ہونے سے لے کر اب تک سیاسی بلکہ سماجی منظر سے بھی غائب ہیں۔ انہوں نے عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ تم جانو‘ تمہارا حال جانے۔جہاں تک مریم بی بی کا تعلق ہے وہ مختلف ہولناک حادثوں میں لقمۂ اجل بننے والے جوانوں اور بچوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے میں مصروف ہیں جو ایک اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ شجرکاری کو فروغ دینے اور اس کی ترغیب دینے میں بھی مگن ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ وہ عوام سے آنکھیں چرا رہی ہیں کہ کہیں وہ انہیں انتخابی وعدے نہ یاد دلا دیں۔ اس دوران ان کی نظروں کے سامنے صاحبِ وسیلہ اور کم وسیلہ سب کیلئے بجلی کے ریٹس یکساں ہو گئے ہیں۔ نیپرا نے بجلی دو روپے 75پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کردی ہے۔ اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب چپ ہیں۔ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بھی قابلِ رشک نہیں۔بدھ کے روز لاہور کے نواح میں پھول نگر اور نارنگ منڈی وغیرہ کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ایک گینگ نے ایک بڑے فارم ہاؤس پر حملہ کر کے وہاں سے لاکھوں روپے نقد اور قیمتی سامان لوٹا اور مالکان میں سے ایک کو اغوا کر کے لے گئے۔ اس کے بعد ڈاکوؤں نے باقاعدہ گاڑیوں اور موٹر بائیکس والوں کو لوٹا اور پھر اطمینان سے فرار ہو گئے۔ جی ہاں! یہ واقعہ کچے کے علاقے میں نہیں‘ لاہور کے نواح میں پیش آیا۔
جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے وہاں موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں کا راج ہے جو نہ صرف شہریوں سے اُن کی نقدی اور موبائل چھین لیتے ہیں بلکہ جاتے جاتے گولی مار کر اُن کی زندگیوں کے چراغ بھی گُل کر دیتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں مسلح عناصر نے کراچی میں کئی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ جہاں تک کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں اور گوٹھوں میں مہنگائی کا حال ہے اس کے بارے میں بھی صرف الحفیظ والامان ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں جن سے چارہ سازی کی توقع تھی اُن کا حال بھی بقول اسد اللہ خاں غالبؔ
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
جناب احسن اقبال ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر منصوبہ بندی اور ترقی و اصلاحات ہیں۔ ہمارا اندازہ تھا کہ احسن اقبال صاحب منصوبہ بندی کی کوئی طلسماتی چھڑی گھما کر کوئی ایسا مژدۂ جانفزا سنائیں گے کہ پژمردہ و بے حال عوام جی اٹھیں گے‘ مگر بدھ کے روز انہوں نے شہرِ اقتدار اسلام آباد سے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کے اعداد و شمار نہایت ہولناک ہیں۔ احسن اقبال نے خاصاں دی گل عاماں اگے کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج زرِمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں برآمدات بڑھانے کیلئے تمام وسائل مہیا کرنے اور صنعتی پیداوار بڑھانا ہوگی۔
جناب احسن اقبال کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ پیداوار کیسے بڑھائی جائے؟ مجموعۂ تضادات ملاحظہ کیجئے۔ جب بینکوں کی کم از کم شرح سود 22 فیصد ہو گی اور گیس کے نرخوں میں 600 فیصد اضافے کے بعد 145فیصد مزید اضافہ کیا جا ئے گا تو برآمدات کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہو گی کہ وہ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔صارفین کے سروں پر پٹرول بم گرائے جانے کے تمام تر خطرات موجود ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں ایک روپے کا اضافہ بھی مہنگائی کا نیا بھونچال اپنے ساتھ لے کر آئے گا جس سے ہر پاکستانی ناقابلِ بیان مصائب کا شکار ہو جائے گا۔ خدا خیر کرے۔
جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے وہ ابھی تک کوئی عوامی مسئلہ تو حل نہیں کر سکی مگر اسے نت نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیال یہ تھا کہ ایک منتخب سیاسی حکومت برسراقتدار آ کر پارلیمنٹ کے اندر وسیع تر افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ دونوں بڑی جماعتوں نے ابھی تک پی ٹی آئی کو اپنے قریب لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی بلکہ دونوں حکمرانوں کے دیرینہ حلیف جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمن 25اپریل سے بلوچستان سے انتخابی نتائج کے خلاف ایک زور دار تحریک کا آغاز کرنے والے ہیں‘ اس حکومت کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کتنا ضروری ہوتا ہے۔دہشت گردی کا عفریت پوری شدت کے ساتھ بے زنجیر ہو چکا ہے۔ بشام میں پانچ چینی معماروں کی لرزہ خیز ہلاکتیں جہاں ہمارے لیے باعثِ افسوس ہیں وہاں باعث ِندامت بھی ہیں۔ اس عفریت کو بلاتاخیر پایہ زنجیر کرنے کے لیے سویلین و عسکری قوتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔
دو تین روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام لکھے گئے خط میں اپنے اوپر ڈالے گئے دباؤ کا ذکر کیا ہے۔ حکومت اور عوام کو درپیش معاشی و سیاسی اور عدالتی چیلنجز کا تمام سیاسی قوتوں کی مکمل ہم آہنگی سے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔ اتحاد ہی کی برکت سے ان شاء اللہ دہشت گردی کے عذاب سے بھی نجات ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں