عدالتی ہی نہیں تاریخی موڑ

قدرت جب کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے تو اسے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور اپنے احتساب کی توفیق عطا کرتی ہے۔ نئی منزلوں کی طرف گامزن باہمت اقوام کے ہاں یہ احتسابی عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اسی لیے تو مرشد اقبال نے فرمایا تھا:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
آج ہم حالات کے جس موڑ پر کھڑے ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ عدالتیں ہی نہیں‘ سیاستدان اور مقتدرہ بھی ماضی کے آئینے میں اپنا اپنا جائزہ لیں۔ 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مخصوص فیصلے کیلئے اپنے اوپر ڈالے جانے والے دباؤ کا ذکر کیا تھا۔ اس وقت کے حالات میں جسٹس صدیقی کی شنوائی یا داد رسی تو نہ ہوئی اُلٹا انہیں اس حرفِ شکایت کا خمیازہ ملازمت سے فراغت کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ اب حالات نے نئی کروٹ لی۔ نامہرباں موسموں کی جگہ مہرباں موسموں نے لے لی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کلی نہ سہی جزوی طور پر یہ اقرار کر لیا کہ جسٹس صدیقی کے خلاف کارروائی غیرمنصفانہ تھی۔ اُن کی ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے حقوق تو انہیں واپس مل گئے مگر اُن کے منصب کے بحالی نہ ہو سکی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک رمزی مدّت کے طور پر ہی سہی انہیں اپنی قبائے انصاف زیبِ تن کرکے اپنا منصبِ انصاف واپس ملتا۔ اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان نے متعین تو نہیں مگر عمومی طور پر دباؤ کے مختلف واقعات کا تذکرہ کرکے چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک خط کی صورت میں استدعا کی ہے کہ وہ دباؤ کا تدارک کرائیں اور اُن کیلئے ایک ایسی آزاد فضا یقینی بنائیں جس میں وہ انصاف تقسیم کرنے کا فریضہ بطریقِ احسن انجام دے سکیں۔
وفاقی کابینہ کے مشورے سے ایک نہایت نیک نام سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کمیشن کو قانونی اور عوامی حلقوں کی طرف سے کوئی خاص پذیرائی نہ ملی اور انہوں نے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر کسی بھی قسم کے قانونی اُلجھاؤ کا شکار ہوئے بغیر عدالتِ عظمیٰ نے سوموٹو ایکشن لے لیا۔ اس موقع پر قاضی فائز عیسیٰ نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہم عدلیہ کے کام میں کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ نے درست سمت میں مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اعلیٰ عدالتوں کی کارکردگی اور اُن کے آزادانہ فیصلوں کا جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے کہ اُن پر دباؤ کی نوعیت کیا تھی اور آئندہ کیلئے ایسے کسی دباؤ کا مستقلاً انسداد کیسے ہو سکتا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوشل میڈیا پر سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بارے میں ناروا باتوں پر اظہارِ افسوس کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ باتیں سن اور پڑھ کر مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسے ہوتا ہے؟ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
اگر کوئی معزز شخصیت سوشل میڈیا کو تہذیب کے دائرے میں ادب و استدلال سے بات کرنے کی تلقین کرتی ہے تو اس پر دشنام و الزام کی صورت میں یلغار کر دی جاتی ہے۔ مین سٹریم میڈیا اپنی تحریروں اور ٹی وی تجزیوں و تبصروں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی قسم کی قدغن تو نہیں ہونی چاہیے مگر مین سٹریم میڈیا کی طرح اس کے صارفین کو اپنے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق تو وضع کرنا چاہیے۔ اس ضابطے کا اہم ترین نقطہ تصدیق ہونا چاہیے کہ تصدیق کیے بغیر کسی پر کوئی الزام نہ لگایا جائے اور نہ ہی کسی کی پگڑی اچھالی جائے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے تقدس اور اس کی آزادی کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔ اس بحرانی صورتحال میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عدالتوں کی آزادی کے ساتھ ہی جمہوریت کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔ عدلیہ آزاد ہو گی تو سیاست و جمہوریت کے پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں پہنائی جائیں گی۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ جب عمران خان برسراقتدار تھے تو میاں نواز شریف اور اُن کے اہلِ خانہ اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی بھرمار تھی اور آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اب عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے سے اجتناب کریں گے تو پھر خود بخود مقتدرہ کی عدالت و سیاست میں مداخلت کم ہو جائے گی۔
ایک بات تحریک انصاف اور اس کے سپورٹرز کو سمجھ لینی چاہیے کہ ہر طرح کے دباؤ سے آزاد عدلیہ صرف ان کی ضرورت ہی نہیں‘ یہ پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ عدلیہ کے لیے اپنا احتساب کرنے کا بھی یہ ایک اچھا موقع ہے۔ اپنی 40‘ 45سال کی شعوری عمر میں ہم سنتے چلے آ رہے ہیں کہ سستا اور فوری انصاف آپ کے گھر کی دہلیز پر ہوگا مگر تاحال تھانے کچہری میں لوگ خوار و زبوں پھرتے ہیں مگر انہیں انصاف نہیں ملتا۔ سستے اور تیز رفتار انصاف کی راہ تکتے تکتے ہمارے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں مگر ابھی تک انصاف ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
انصاف کے بنیادی تقاضوں کی ایک جھلک ہم آپ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ صرف ''انصاف‘‘ نہیں منصفانہ انصاف ہونا چاہیے۔ غیرجانبداری تو اسلامی و مغربی عدالتوں کا بنیادی جزو ہے۔ ججوں میں کسی قسم کی تقسیم کا نہ صرف تاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ عملاً ایسی کوئی تقسیم انصاف کے بنیادی تقاضوں کی نفی اور پامالی کرنے کے مترادف ہے۔ انصاف کی عالمی ریٹنگ میں ہمارا نمبر 142ملکوں کی فہرست میں 130واں ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے چھ ممالک میں بھی ہم پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے نظام عدل و سیاست کے لیے بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔ نیپال جیسے کم وسیلہ ملک کا اس فہرست میں 71واں نمبر ہے۔ گویا وہاں پر عدل و انصاف کی بڑی حد تک عملداری ہے۔
ہمارے نظامِ انصاف کی سست رفتاری میں تاخیری حربوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ فوجداری و دیوانی مقدمات کے فیصلے بسا اوقات برسوں میں نہیں دہائیوں میں جا کر ہوتے ہیں۔ جون 2023ء میں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 54 ہزار 287 تھی۔ دسمبر 2023ء میں مقدمات کی تعداد بڑھ کر 57 ہزار 766 ہو گئی۔ اسی لیے دو تہائی قیدی زیر التوا مقدمات کے انتظار میں برسوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ کچھ اور بھی تشویشناک خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ عید کے بعد انتخابی نتائج کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ گورنر راج جیسے کسی بھی اقدام سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔ اس وقت گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں ملک کے سبھی سٹیک ہولڈرز شامل ہوں اس وقت ملک کی بنیادی ضرورت مستحکم معاشی نظام ہے؛ تاہم پُرامن سیاست کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں۔
جہاں تک عدالتی بحران کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی کسی نتیجے پر پہنچ کر سپریم کورٹ کو تمام سٹیک ہولڈرز کو طلب کرکے ایک متفقہ قومی حلف نامے کا پابند بنانا چاہیے اور آئندہ کے لیے عدالتوں میں کسی بیرونی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے۔ اس تاریخی موڑ پر قومی مفاہمت کی دستاویز پر تمام سٹیک ہولڈرز کے دستخط ہو جاتے ہیں تو قوم کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں