غمناک و نمناک عید

عید نام ہے خوشیوں کا‘ اپنے پیاروں کی دید کا‘ میل ملاقاتوں کا‘ رنگ برنگے پیرہنوں کا۔ عید کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر طرف خوشیوں کا سماں ہو گا‘ گھروں کو خوب سجایا گیا ہوگا۔ بظاہر عید اور موسمِ بہار‘ دونوں ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ ہر طرف نیلے پیلے‘ سرخ و سفید‘ بنفشی‘ نارنجی اور نہ جانے کس کس رنگ کے پھول کھلے ہیں۔ ایسے میں تو جشنِ عید دو آتشہ ہو جانا چاہیے لیکن دلِ حزیں کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ کچھ بھی تو اچھا نہیں لگتا ۔ اسی لیے تو غالب نے کہا تھا کہ
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
دل دو وجوہات کی بنا پر غمزدہ ہے۔ ایک تو اپنے اردگرد خوشیوں سے چہچہاتے گھروں سے کچھ ہی فاصلے پر ایسے لاکھوں گھرانے بھی ہیں جہاں عید کے موسمِ بہار میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اربوں کی چیرٹی فراخدلی سے تقسیم کرنے والے ملک میں ایسے غریب اور سفید پوش لاتعداد گھرانے ہیں کہ جہاں سے یہ خبریں ملتی ہیں کہ اس بار بچوں کے نئے کپڑے اور نئے جوتے اس لیے نہیں خرید سکے کہ بجلی اور گیس کے ہوشربا بل ادا کرتے کرتے جیب میں کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر عوام الناس کی خبر گیری کرنے والی مقامی حکومتوں کا کوئی ویلفیئر نیٹ ورک ہوتا تو علاقے کے وارڈ ناظم کو گھر گھر کی جملہ ضروریات کا مکمل ادراک ہوتا۔ ہماری صوبائی حکومتوں نے لوگوں کی خبر گیری کا ایسا کوئی جھنجھٹ پالا ہی نہیں۔ ترکیہ میں بہترین شہری حکومتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے مقامی حکومتوں کا الیکشن ہو جاتا ہے یہ مقامی حکومتیں تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی کے انتظامات کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ خلقِ خدا کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھنے والی ان شہری حکومتوں کے پاس خوراک‘ تعلیم‘ علاج معالجہ اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ مگر یہاں ہم فلاحی کاموں کو انتہائی غیرضروری تصور کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں ملکی اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوئی اور دلوں کو تڑپا گئی ہیں کہ کئی بچوں نے نئے کپڑے اور نئے جوتے نہ ملنے پر دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرکے اپنا اور اپنی خوشیوں کا گلاگھونٹ ڈالا۔ کراچی میں تو ایک اور ہی قیامت برپا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے وہاں ڈاکو راج قائم ہے‘ کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں کسی نہ کسی شہری سے نقدی اور موبائل چھینتے ہوئے اسے گولی مار کر موت کے گھاٹ نہ اتار دیا جاتا ہو‘ رواں برس اب تک تقریباً ساٹھ افراد قتل ہو چکے ہیں یعنی درجنوں گھروں کے چراغ اور چولھے بجھ چکے ہیں۔ کراچی کی گلیاں ایک بار پھر قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ ان حالات میں ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف‘ جو اپنی تقریروں میں غریبوں کا دم بھرتے ہیں‘ نے غریبوں کی دلجوئی اور اشک شوئی کرنے کے بجائے کراچی میں پیپلز پارٹی کے اصرار پر ایک ''بے جان‘‘ پولیس افسر کو تعینات کر دیا ہے۔ سینیٹ سے ریٹائر ہونے والے اراکین کے اعزاز میں ریاست کے 98 لاکھ روپے خرچ کرکے نہایت پُرتکلف عشائیہ دیا گیا۔ ایسے موقع پر شکیب جلالی یاد آ گئے ہیں۔
بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خدا وندِ کوثر و تسنیم
کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
دوسرے جس منظر نے میرے دل کو ہی نہیں عالمِ اسلام کے ہر صاحبِ احساس کے سینے کو غم کدہ بنا دیا ہے وہ زخموں سے چُور ہمارے اسلامی و انسانی بھائیوں کی غزہ میں المناک ٹریجڈی کا منظر ہے۔ زندگی کی جملہ ضرورتوں سے آراستہ اس شہری ریاست پر گزشتہ چھ ماہ سے شب و روز جہازوں سے بمباری اور ٹینکوں سے گولہ باری کی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو مقتل اور غزہ کی خوبصورت رہائش گاہوں اور کئی کئی منزلہ عمارتوں کو کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اب تک 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں 13 ہزار پھول سے بچے بھی شامل ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں شہادتوں کے علاوہ تقریباً 76 ہزار شدید زخمی اور انتہائی مہلک بیماریوں کے امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکہ ابتدائے رمضان سے عالمِ اسلام کو سیز فائر کی نوید سناتا اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو ٹنوں کے حساب سے بحری اور فضائی راستے سے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھیجتا رہا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کو چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ اس دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ سلامتی کونسل اور دیگر کئی فورسز سے جنگ بندی کی قرار دادیں پاس ہونے کے باوجود اسرائیل نے کسی کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی۔ 70 فیصد مکانات کھنڈرات بن گئے‘ اُن کے مکینوں پر کیا گزری ہو گی اس کا اندازہ تباہ حال در و دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔ 36 ہسپتالوں میں سے صرف دس جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف مغربی طاقتوں کی بے حسی آخری انتہاؤں کو چھو رہی ہے تو دوسری طرف اسی مغرب کی انسان دوستی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ ایک میڈیکل ٹیم برستے بموں میں ہسپتالوں میں دو تین ہفتے کام کرتی ہے تو امریکی و یورپی ڈاکٹروں پر مشتمل دوسری ٹیم اس کی جگہ لینے کو غزہ پہنچ چکی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی و یورپی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم میں دو پاکستانی نژاد امریکی طبیب بھی شامل تھے۔ ایک ایمرجنسی سپیشلسٹ ڈاکٹر بلال حسین پراچہ اور دوسری گائنالوجسٹ حنا چیمہ تھیں۔ ان دونوں نے دیر البلاح کے الاقصیٰ ہسپتال میں دو ہفتوں تک کام کیا اور بعد ازاں اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ ہسپتال میں دل دہلا دینے والے مناظر تھے۔ دیر البلاح کے اسی ہسپتال کے علاقے میں چند روز قبل اسرائیل نے یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ یہ فوڈ ورکرز کا ٹرک ہے‘ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور سات افراد کو نہایت بے دردی سے ہلاک کر دیا۔ ان سات میں تین برطانوی‘ ایک امریکی‘ ایک پولش‘ ایک آسٹریلوی اور ایک فلسطینی تھا ۔
ورلڈ سینٹرل کچن کے بانی جوز اینڈرز ایک حیران کن اور نہایت باکمال امریکی شہری ہے۔ اس ورلڈ کلاس شیف نے اپنی جان پر کھیل کر جنگ زدہ علاقے میں خوراک پہنچانا اپنا ماٹو بنا لیا ہے۔ اینڈرز نے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کی شدید مذمت کی ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا ہے کہ اسرائیلی سفاکیت صرف فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں کر رہی بلکہ اس کی مجرمانہ جنگ ساری انسانیت کے خلاف ہے۔ انہوں نے فوڈ ورکرز کی ہلاکتوں کی کسی غیرجانبدار اتھارٹی کے ذریعے تفتیش کروا کے اسرائیل کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
فلسطینی بڑے مہمان نواز لوگ ہیں۔ اہلِ غزہ میں میرے کئی ایسے دوست ہیں جو طائف کے کالجوں میں میرے رفیقِ کار تھے۔ ہمیں رمضان المبارک اور عید کے مواقع پر اُن کے تیار کردہ پکوانوں کی خوشبو اور ذائقہ آج تک نہیں بھولا۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ 17 لاکھ بے گھر فلسطینی اس بے کسی کے عالم میں اپنے پیاروں کی جدائی کا زخم اپنے سینوں سے لگائے کیسے عید منا رہے ہوں گے۔ اور یہ سوال تو اور بھی تڑپا جاتا ہے کہ دنیا کے ایک ارب اسی کروڑ مسلمان اور 57 مسلم ممالک کے بے حس حکمران اپنے بھائیوں کے دکھ درد کو بھلاکر کیسے عید کی خوشیاں کیسے منا رہے ہیں؟ روزِ عید اپنے آپ سے اس سوال کا جواب ضرور طلب کیجئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں