جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے

ڈاکٹر فاروق عادل کی تازہ کتاب کا ٹائٹل ''جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ نہایت پُرکشش ہے‘ تاہم اس پہلو دار ٹائٹل کا بین السطور پیغام یہ ہے کہ کب مورخ کے ہاتھ بندھے ہوئے نہ تھے؟ عالمِ اسلام کی تاریخ‘ ہندوستان کی تاریخ‘ یورپ و امریکہ کی تاریخ اور پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بیچارے مورخ کے ہاتھ بندھے ہی ہوتے ہیں۔ بقول اسد اللہ غالب
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
البتہ اردو دان قارئین بالعموم اور اہلِ پاکستان بالخصوص ڈاکٹر صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے تاریخ کے ریگزاروں اور حقائق کے اُلجھے ہوئے خارزاروں میں پہلے آبلہ پائی اور پھر نہایت ذمہ داری کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے۔ انہوں نے ہماری خونچکاں اور پابجولاں تاریخ کے حقائق کو کئی ذرائع سے چھان پھٹک کر وہ واقعات ہمارے سامنے پیش کیے ہیں جن کی حقیقت سے ہم ابھی تک کماحقہٗ آگاہ نہ تھے۔ کالج کے زمانے سے ہی فاروق عادل اخبار و کتاب بینی کے دیوانے تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی انہوں نے اخبارات و جرائد میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ''کھوج‘‘ اور خبروں کے مصادر تک پہنچنا اُن کی شخصیت کا ایک مستقل مشغلہ تھا۔ مورخ کے ہاتھ چاہے بندھے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں مگر وہ اظہار کا کوئی نہ کوئی قرینہ یا پیرایہ تلاش کر ہی لیتا ہے۔ اساتذہ میں سے کسی شاعر نے کہا تھا:
پتھر تو نہ ہو جاؤں اس جبر کے موسم میں
گو سر نہیں اُٹھ سکتا آواز اٹھا دیکھوں
ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں شامل ایک مضمون کا عنوان ہے: ''جب بھارتی شہری وزیراعظم بنتے بنتے رہ گیا‘‘۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ 1956ء کا ماہِ جولائی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں موجود حکمران نئی نئی ترکیبیں آزمانے لگے۔ ان میں ایک حربہ انتخابات کا التوا تھا۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ بے چینی اس وقت کے صدر اسکندر مرزا محسوس کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر 1956ء کے دستور کے مطابق نئے انتخابات ہو جاتے ہیں تب اُن کی ''آل پاور فل صدارت‘‘ کا کیا بنے گا کیونکہ پارلیمانی دستور کے مطابق تو صدر کے پاس محض رسمی اختیارات ہی ہوتے ہیں۔ آل پاور فل بننا اور اپنی من مانی کرنا ہمارے حکمرانوں کی نئی نہیں بڑی پرانی خواہش ہے۔ زیرِ نظر کتاب کے مطابق اسکندر مرزا نے دل ہی دل میں اپنے بلاشرکت غیرے مستقل اقتدار کا شیش محل تعمیر کر لیا تھا۔ سب سے پہلے اپنے دوست سابق ریاست قلات کے حکمران میر احمد یار خان کو اعتماد میں لیا۔ اسکندر مرزا صاحب کا کلام بزبانِ شاعر سنیے۔ ''میں نے بھوپال کے نواب کو بلا لیا ہے۔ وہ وزیراعظم بن جائیں گے۔ میں تو صدر ہی رہوں گا۔ ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے گا۔ جس کا نفاذ اس وقت تک رہے گا جب تک انتخابی نتائج میری مرضی کے نہیں آ جاتے‘‘۔ خان آف قلات نے لکھا ہے کہ یہ بات سن کر وہ سخت حیرت زدہ ہو گئے۔سابق والیٔ ریاست نے اسکندر مرزا سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو اعتماد میں لے لیا ہے؟ اس پر اسکندر مرزا نے کہا کہ اگر ایوب خان نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو انہیں وقت ضائع کیے بغیر راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔ جب خان آف قلات نے ایوب خان کو یہ خبر سنائی تو غصے سے اُن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ بعد ازاں خان آف قلات اور نواب آف بھوپال دونوں اس ''بچگانہ استقلالِ اقتدار‘‘ میں شرکت سے بالکل دستبردار ہو گئے۔ یوں ایک بھارتی ہمارا وزیراعظم بنتے بنتے رہ گیا۔
اسکندر مرزا نے واقعی آٹھ اکتوبر 1958ء کو مارشل نافذ کر دیا اور پھر اس وقت کے کمانڈر انچیف ایوب خان نے صرف اٹھارہ‘ انیس روز کے بعد اسکندر مرزا کوایوانِ صدر سے نکال کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تب سے لے کر اب تک یوں سمجھیے کہ ہماری سیاست 1956ء کی تاریخ کو بار بار دہرا رہی ہے۔ صدر ایوب بعد از خرابیٔ بسیار قصرِ صدارت کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے تو جاتے جاتے زمامِ اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے جنہوں نے انتخابی نتائج کے مطابق اقتدار مجیب الرحمن کے حوالے کرنے کے بجائے وہاں آپریشن کر ڈالا اور برصغیر کے مسلمانوں کو سقوطِ ڈھاکہ کے المیے سے دوچار ہونا پڑا۔یوں تو کتاب میں شامل ہر موضوع کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے اور ڈاکٹر فاروق عادل کی محققانہ شگفتہ بیانی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے مگر کالم کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ فاضل مصنف کی محققانہ کاوش ایک کتاب نہیں ہماری تاریخ کے خوں ناب ابواب کا عبرت کدہ ہے۔
ایک اور نہایت اہم مضمون کتاب میں شامل ہے ''اگرتلہ سازش کیس، حقیقت یا افسانہ‘‘۔ فاضل مصنف نے اس اُلجھے ہوئے تاریخی واقعے کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے مختلف تاریخی مصادر اور 1968ء سے لے کر 1970ء تک ایوب خان کے اردگرد موجود ایس ایم ظفر‘ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی کتب اور ان کی تقاریر سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیا یہ کیس اس وقت کے اصحابِ اقتدار نے اپنی ضروریات کے مطابق بنایا تھا یا واقعی مجیب الرحمن کا یہ مقدمہ بنتا تھا۔ غالباً یہ 1968-69ء کا زمانہ ہوگا۔ مصنف و محقق ڈاکٹر فاروق عادل اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 134پر لکھتے ہیں: مجیب کو اس مقدمے میں ملوث کرنے کی وجہ سے حکومت کا اعتبار نہیں‘ اس کا اعتماد بھی جاتا رہا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ عوام کو نہ حکومت کی نیت پر اعتماد تھا اور نہ اس کی غیر جانبداری پر۔ اس وقت کے برطانوی اخبار ٹائمز کا یہ تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیے ''شیخ مجیب کو ایک ایسے مقدمے میں ملوث کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو مبینہ طور پر اس وقت تیار ہوا جب وہ جیل میں تھے‘‘۔ کتاب میں شامل چند ابواب کے عنوانات دیکھیے ''جب پہلی بار اسمبلی توڑی گئی‘‘، ''سرداری نظام‘‘، ''ایٹمی چھکا‘‘ اور ''انکوائری رپورٹ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے برعکس کئی محققین و مصنفین نے مختلف شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرتلہ سازش کیس حقیقت تھی‘ افسانہ نہیں۔
ڈاکٹر فاروق عادل ممتاز صحافی کے طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے اہم اخبارات و جرائد میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ 2013ء میں صدر ممنون حسین کے دورِ صدارت میں ان کے معاونِ خصوصی بھی رہے۔ بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی دور کی تاریخ کوئی معروضی نوشتہ نہیں ہوتی کیونکہ مصنف ''آزاد‘‘ بھی ہو تو بھی وہ اپنے ذاتی میلانات و تعصبات کا اسیر ہوتا ہے۔ تاہم کسی بھی دورکا ادب‘ اس کی شاعری‘ اس کے ڈرامے اور ناول و افسانے وغیرہ ان ادوار کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے پہلے دو ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے‘ ہماری ادنیٰ رائے کے مطابق فاضل مصنف اگلے ایڈیشن میں زیر بحث ادوار کے ادب کا مختصر جائزہ بھی شامل کر لیں تو ان کی کتاب کو مزید چار چاند لگ جائیں گے۔
ڈاکٹر فاروق عادل نے شب و روز کی محنتِ شاقہ سے ایک آئینہ تیار کر دیا ہے۔ اگر قوم چشمِ بینا سے کام لے تو وہ اس آئینے میں اپنا ماضی‘ حال حتیٰ کہ مستقبل بھی دیکھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر موصوف کی کتاب پاکستان سے محبت کرنے والے ہر شخص اور تاریخ و سیاست کے ہر طالب علم کے لیے ایک گراں قدر اثاثہ ہے۔ لاہور کے ایک پبلشر نے اس کتاب کو دیدہ زیب انداز میں شائع کیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں