پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد نریندر مودی اور بھارتی حکومت جنونی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یہ بھلا چکے ہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بھارتی میڈیا مسلسل آگ اُگل رہا اور شعلے بھڑکا رہا ہے۔ پہلگام واقعے کے محض چند منٹ بعد ہی لائن آف کنٹرول سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہمالیہ کی چوٹیوں پر ہونیوالی دہشت گردی کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر دھر دیا گیا۔ بھارتی حکومت پاکستان کو طرح طرح کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ متعصب بھارتی سرکار کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کا پانی بند کر دیں گے۔ جواب میں پاکستانی قائدین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے حصے کے پانی کی حفاظت اپنے خون سے کریں گے۔ بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ منسوخ کر دیں گے اور پاکستانی دریاؤں میں بہنے والے پانی کو روک لیں گے۔ بھارت ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ یہ محض گیدڑ بھبکیاں ہیں۔ سندھ طاس ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی ضمانت ورلڈ بینک نے دی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین چھ دریاؤں کے پانیوں کی منصفانہ تقسیم کیلئے 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس‘ راوی اور ستلج کا پانی ملے گا جبکہ جموں وکشمیر سے نکلنے والے مغربی دریا چناب‘ جہلم اور سندھ پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ اگر بھارت نے پاکستانی دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کی یا اس میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی تو پاکستان اسے اپنے خلاف اعلانِ جنگ سمجھے گا۔ معاہدے کے مطابق اس تقسیم میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔بھارت بغیر سوچے سمجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ شاید 1965ء کی جنگ کے دوران پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کے جذبوں کو بھول چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنے بڑبولے پڑوسی کو وہ جذبے یاد دلائے جائیں جب بھارت نے لاہور کے محاذ پر بین الاقوامی سرحد عبور کر کے طبلِ جنگ بجا دیا تھا تو دفاع وطن کیلئے فرزندانِ پاکستان نے وہ کارنامے انجام دیے کہ جن کی جنگی تاریخ میں کوئی نظیر یا مثال نہیں ملتی۔
بھارت 1965ء کی جنگ میں چونڈہ کا محاذ تو نہ بھولا ہوگا جہاں آٹھ روز تک پاک‘ بھارت ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔ یہاں بھارتی ٹینکوں کی تعداد پاکستانی ٹینکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی مگر پاکستانی جذبہ یہ تھا کہ آخری گولہ اور آخری سپاہی تک ہم لڑیں گے۔ بالآخر جذبے کی شدت ٹینکوں کی کثرت پر غالب آئی اور چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔ یہ معرکہ آج تک اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لاہور کی بی آر بی نہر پر میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ جنگی تاریخ کا حیران کن واقعہ ہے۔ 7 ستمبر 1965ء کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ بھارتی سرحد اور لاہور کے درمیان حدِفاصل بی آر بی نہر پر حملہ کر دیا۔ بھارتی فوجیوں کا خیال تھا کہ اس محاذ سے بے خبر پاکستانی فوجیوں کو وہ چند گھنٹوں میں پیچھے دھکیلتے ہوئے شام تک جم خانہ کلب لاہور میں پہنچ کر جشن منائیں گے۔ مگر ان انڈین فوجیوں کو کیا خبر تھی کہ وہاں میجر عزیز بھٹی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجود ہیں۔ عزیز بھٹی نے صرف 110 سپاہیوں کے ساتھ بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا۔ شہید بھٹی پانچ روز تک اس اعصاب شکن معرکے میں فولادی دیوار بن کر ڈٹے رہے۔ یہیں اس جانباز سپاہی نے جامِ شہادت نوش کیا اور دشمن کے خوابوں کو خاک میں ملا دیا۔ میجر عزیز بھٹی نے دفاعِ وطن کی داستانوں میں ایک محیر العقول باب کا اضافہ کیا۔
1965ء ہمارے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ ہم نے سینکڑوں دوسرے نوجوانوں کیساتھ شاہینوں کے شہر سرگودھا کی سڑکوں پر کھڑے ہو کر اپنے شاہین صفت ہوا بازوں کو نہایت مہارت کیساتھ بھارتی جنگی طیاروں کو گراتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے بچشمِ خود اس تاریخی فضائی معرے کا نظارہ کیا جس میں فخرِ پاکستان ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے کم وقت میں پانچ بھارتی فائٹر جہازوں کو سرگودھا کی فضاؤں میں گرایا تھا۔ بھارتی عوام اور افواج کو پاکستانی جانبازوں کے جذبوں کی تاریخ پر ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے۔
دہشت گردی کے ذریعے ناحق کسی کا خون بہانا انسانی ہی نہیں‘ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی ایک نہایت قابلِ مذمت فعل ہے۔ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں پہلگام واقعے سے کسی بھی طرح کے تعلق کی بھرپور تردید کی ہے اور اس کارروائی کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے ترجمان نے کہا ہے کہ بے قصور غیر متعلقہ لوگوں کے خلاف دہشت گردی ایک قابلِ مذمت عمل ہے‘ بھارتی خفیہ ایجنسیاں کشمیریوں کی آزادی کی مقدس جدوجہد کو بدنام کرنے کیلئے خود اسی طرح کی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ حریت کانفرنس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب کوئی امریکی مہمان بھارت آتا ہے تو بھارتی ایجنسیاں اس طرح کی کارروائیاں کر کے اُن کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتی ہیں تاکہ تحریک آزادیٔ کشمیر کو بدنام کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔ ان کی بھارت میں موجودگی کے دوران یہ کارروائی آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کیلئے کی گئی۔ حریت کانفرنس کے نمائندے نے دنیا کو یاد دلایا کہ 20مارچ 2000ء کو اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورئہ بھارت کے موقع پر بھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے چٹھی سنگھ پورہ میں دہشت گردی کی ایسی ہی کارروائی میں 35 سکھوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بعد میں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کارستانی تھی۔
میں نے آزاد کشمیر کی اہم سیاسی شخصیت سے 27 اپریل کے روز رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت کا وتیرہ یہی ہے کہ وہ کسی طرح کے ثبوت و شواہد کے بغیر پاکستان پر الزامات عائد کر دیتا ہے۔14فروری 2019ء کو پلوامہ میں آر پی ایف کے قافلے پر حملے کے بعد 26 فروری 2019ء کو رات کے اندھیرے میں بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کر دیا۔ اس کارروائی میں بھارت کو خفت اٹھانے کے علاوہ اور کچھ نہ ملا۔ بھارت اس بار بھی ایسے ہی کسی ایڈونچر کا سہارا لے سکتا ہے۔ نریندر مودی حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ دو ایٹمی قوتوں کی جنگ کھیل تماشے کا نام نہیں۔ عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ کے ذریعے پہلگام دہشت گردی کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرانے کے بجائے متعصب بھارتی حکومت نے کھسیانی بلی بن کر کھمبا نوچنا شروع کر دیا ہے اور وادیٔ کشمیر کے معصوم و مظلوم کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارتی فوجی بے قصور شہریوں کے گھروں کو تباہ کر رہے ہیں۔ بھارت بھی اسرائیل کی طرح انسانی حقوق کے عالمی قواعد و ضوابط کو پاؤں تلے روندتے ہوئے تذلیلِ آدمیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ نریندر مودی سمجھتا ہے کہ 'عالمی کوتوال‘ اُن کا حامی ہے اس لیے انہیں ڈر کاہے کا۔
27اپریل کو مینارِ پاکستان لاہور پر قومی یکجہتی فلسطین کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن‘ حافظ نعیم الرحمن‘ مفتی منیب الرحمن اور دیگر نے جہاں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی وہاں بھارت کی جارحانہ دھمکیوں پر بھی شدید الفاظ میں تنقید کی۔ کانفرنس میں بھارت کو شدید الفاظ میں پیغام دیا گیا کہ غیر ملکی جارحیت کے خلاف ہم سب ایک ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانی بھی سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی پرچم کے سا ئے تلے ایک ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت بھی قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات کرے اور قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے تاکہ دشمن پر واضح ہو جائے کہ ہم اندرونی سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر یک جان سو قالب ہیں۔ بھارت بھی اپنے دیرینہ منفی رویوں پر نظرثانی کرے۔ اگر بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس بار پاکستانی 1965ء سے کہیں بڑھ کر منہ توڑ جواب دیں گے۔