شی جن پنگ کاچین

چین میں کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں نیشنل کانگریس‘ جو تئیس سو سے زائد مندوبین پر مشتمل ہوتی ہے‘ 16 اکتوبر کو شروع ہو کر 22 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو گئی۔ نیشنل کانگریس کمیونسٹ پارٹی کی انتہائی اہم بیٹھک ہے اور ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ اس گانگریس میں گزشتہ کارکردگی کا عمیق جائزہ لیا جاتا ہے اور مستقبل سے متعلق اہداف پر غور کیا جاتا ہے۔ چین میں اِس اہم فورم کو ملک اور پارٹی کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے اسی لیے اس فورم میں موجود مندوبین کا چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت پر کُلی اعتماد کا اظہار‘ اُن کے چینی خواص کے ساتھ سوشل ازم کا اُس کی روح کے مطابق نفاذ اور چین کے روشن مستقبل کے حوالے سے اُن کے وژن پر اعتماد اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ نے کانگریس کے اختتام پر اِس بات پر زور دیا کہ پارٹی‘ افواج اور عوام پارٹی کی مرکزی کمیٹی‘ جس کے سربراہ صدر شی جن پنگ ہیں‘ کے ساتھ یکجا رہیں۔ محض بات چیت چین کے لیے کچھ نہیں کر سکتی اور ہر ایک فرد کا ٹھوس کام ہی چین کی ترقی اور خوش حالی کا ضامن ہو سکتا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ باہمی اعتماد کی بنیاد پر ترقی کا سفر جاری رکھا جائے اور چین کی ایک جدید سوشلسٹ ریاست کے طور پر تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔ کانگریس میں جن خاص امور پر زور دیا گیا اُن میں زیادہ تر چین کی ملکی سیاست اور گورننس سے متعلق ہیں۔ اِس بات کا اعادہ کیا گیا کہ 2035ء تک چین کو مضبوط، خوش حال ، ثقافتی طور پر ترقی یافتہ اور ہم آہنگ عظیم سوشلسٹ ریاست بنایا جائے گا اور اِن مقاصد کے حصول کے لیے جو اہم اُصول طے کیے گئے ہیں اُن میں چینی قیادت کو مضبوط کرنا، لوگوں کی فلاح، اصلاحات کا یقینی نفاذ اور دُنیا کے ساتھ معاشی تعلقات کا فروغ اہم ہیں۔
بیسویں نیشنل کانگریس کے نتیجے میں صدر شی جن پنگ تیسری مدت کے لیے متفقہ طور پر چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ 2012ء میں جب صدر شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کا سب سے بڑا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے چند بڑے اقدامات کیے جن میں چین کے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ اور عدلیہ کا انتہائی پیشہ ورانہ کردار شامل تھے۔ صدر شی جن نے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر چین کے اثر و رسوخ پر بھی خصوصی توجہ دی۔ گزشتہ دہائی‘ جو بلاشبہ چین کے لیے شی جن پنگ کی دہائی تھی‘ میں چین نے غیر معمولی ترقی کی۔ صدر شی جن نے چین کو مثالی قیادت فراہم کی جس کا نتیجہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ملکی سطح پر غربت کا خاتمہ، قومی دولت میں اضافہ، کامیاب خلائی پروگرام، کرپشن کا خاتمہ، انفراسٹرکچر اور ماحولیات کے حوالے سے انقلابی اقدامات ہوئے جن کا سہرا بلاشبہ صدر شی جن پنگ کے سر جاتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین شاید جدید تاریخ کا واحد ملک ہے جس نے صرف چار دہائیوں میں ملک بھر میں انتہائی غربت کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں 230 بلین ڈالر غربت کے خاتمے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کیے گئے۔ صدر شی جن کے گزشتہ دس سالہ دور میں چین نے جی ڈی پی میں 8 کھرب ڈالر سے 17 کھرب ڈالر تک کا اضافہ کیا۔ چین میں اوسط آمدنی میں 66 فیصد سے 82 فیصد تک اضافہ ہوا جو دنیا بھر کے لیے ایک نظیر ہے۔ چین میں متعدد اقتصادی اصلاحات ہوئیں جن میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کو بہت فروغ ملا اور اِس وقت دنیا کی مینوفیکچرنگ میں چین کا 30 فیصد حصہ ہے۔ چین اِس وقت دُنیا کا سب سے بڑا تجارتی نیٹ ورک بن چکا ہے‘ مثال کے طور پر چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے میں 149 ممالک حصہ دار بن چکے ہیں اور یہ منصوبہ دنیا کی 60 فیصد آبادی کا احاطہ کرتا ہے جو دنیا کی 35 فیصد معیشت پر مشتمل ہے۔
چین کا خلائی پروگرام نہ صرف امریکہ اور روس کے مقابل آ چکا ہے بلکہ چین آنے والے چند سالوں میں خلا کا بے تاج بادشاہ بننے کی صلاحیت بھی حاصل کرنے جا رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ کرپشن کو ترقی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ خیال کرتے ہیں اور وہ اِ س کو کسی بھی معاشرے کے لیے ناسور سے بڑھ کر مہلک سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِقتدار میں آتے ہی اُنہوں نے کرپشن کے خاتمے کے لیے انتہائی مؤثر اقدامات کیے اور اس دوران 15 لاکھ کے قریب لوگوں کو چھوٹے بڑے جرائم میں سزائیں سنائی گئیں۔ چین میں رابطوں کے لیے سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کا ایک جال بچھایا گیا ہے۔ صرف چند سالوں میں نو ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ اس وقت چین کی تیز ترین ٹرین کی رفتار 430 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ 600 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتا ر سے چلنے والی ٹرین پر بھی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اِس کے علاوہ چین میں 82 نئے ہوائی اڈے تعمیر کیے گئے ہیں جو چین کے اندرونِ ملک اور باہر کی دُنیا کے ساتھ رابطوں میں اضافے کا ذریعہ بنے ہیں۔ آلودگی اور ماحولیاتی نقصان کے حوالے سے چین دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے ماحولیات کے حوالے سے ایسے اقدامات کیے کہ اب دنیا چین میں موسمیاتی تبدیلی، انسدادِ آلودگی اور ماحولیات پر کیے گئے کام کو سراہنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ یوں چین دنیا بھر میں آلودگی کے مسائل کے حل کے لیے ایک لیڈر کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ امسال فروری میں بیجنگ سرمائی اولمپکس میں بیجنگ‘ جو کسی دور میں دنیا کا آلودہ ترین شہر تھا‘ کا صاف شفاف آسمان سبھی کے لیے حیرانی کا باعث بنا تھا۔ کووڈ کی عالمی وبا بھی ایک بڑا چیلنج تھی اور چین نے کووڈ پر قابو پانے کے لیے مثالی اقدامات کیے۔
یہ ہے صدر شی جن پنگ کا چین جہاں سیاسی استحکام، نظام پر غیر متزلزل یقین، درست سمت اور پالیسی کا تسلسل ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راز ہے۔ صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دس سال تک جانفشانی، انتھک محنت اور یقین کے ساتھ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر چین کی سیاسی اور معاشی طاقت کا لوہا منوایا ہے لیکن چین کی بین الاقوامی اور علاقائی طاقت کا منبع درحقیقت چین میں ہونے والی تبدیلی اور ترقی ہے۔ جوں جوں چین ایک ناقابلِ تسخیر معاشی طاقت بنتا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر چین کے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر صدر شی جن نے بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن اختیار کیا اور ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ معاشی تعاون کو فروغ دیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گلوبل گورننس میں چین کا کردار بامعنی بنایا اور نئے بین الاقوامی آرڈر میں چین کی اہم حیثیت منوائی۔ صدر شی جن پنگ کے اس وژنری کردار کی وجہ سے اُن کو ماؤزے تنگ کے بعد چین کا سب سے بڑا رہنما سمجھا جانے لگا ہے۔
اب صدر شی جن پنگ کی تیسری مدت شروع ہو رہی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ ان کا چین ترقی اور خوش حالی کی صف میں اُونچے مقام پر کھڑا ہے۔ لیکن آنے والے پانچ سالوں میں چین کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ بڑی عمر کے افراد کی تعداد میں اضافہ اور شرحِ پیدائش میں کمی، گرتا ہوا پراپرٹی سیکٹر، زیرو کووڈ اور معاشی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا چین کے بڑے چیلنجز ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین مقابلہ اب تناؤ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تائیوان کا ایشو بھی اب سلگنے لگا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہو گا کہ وہ اس تناؤ کو سرد جنگ یا گرم جنگ میں ڈھلنے سے روکیں۔ اِن تمام مسائل سے قطع نظر چین کی سیاست اور معیشت کے طالب علم سمجھتے ہیں کہ صدر شی جن پنگ کی رہبری میں چین تمام چیلنجز کو اپنے بہترین مفاد میں تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور صدر شی کے چین میں ترقی اور خوش حالی کا سفر جاری رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں