بابا! آپ یہ ملک چھوڑکیوں نہیں سکتے ؟

بابا! آپ یہ ملک چھوڑ کیوں نہیں سکتے؟ عمر شبیر شاید اب تلخ اور برمحل سوال کرنے کی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ وہ اب عمر کے اُس حصے سے نکل چکا ہے جب دیومالائی کہانیاں سنا کر اُسے گہری نیند سلایا جا سکتا تھا۔ اب سولہ سال کا عمر شبیر بھی دلیل مانگتا ہے۔ اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ میں ملک کے حوالے سے سوالات پر بہت جزبز ہوتا ہوں لیکن پھر بھی وہ دلیل کی بنیاد پر جاننا چاہتا ہے کہ میں نے برسوں سے اگر ایک خاص مؤقف اختیار کیے رکھا ہے تو اُس کی عقلی و منطقی وجہ کیا ہے۔ وہ زمانے کے ساتھ چل رہا ہے‘ اپنے اردگرد کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مختلف قسم کے معاملات پر بہتر معلومات رکھتا ہے۔ وہ اس ''عالمی گائوں‘‘ کے ساتھ مکمل جُڑا ہوا ہے اور دُنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ بھی کرتا رہتا ہے۔ وہ شاید میری نسل سے زیادہ حقیقت پسند اور منطق پر یقین رکھنے والا ہے اس لیے وہ سوالوں کے جواب دلیل اور منطق کی رُو سے چاہتا ہے۔ دوسری جانب‘ محسوس ہوتا ہے کہ میری نسل کے لوگوں کی دلیلیں ہوا کے جھونکوں سے اُڑتے پتوں کی طرح ہلکی ہو تی جا رہی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور صرف خوابوں اور خیالوں کی بنیاد پر بنائے گئے مفروضوں پر عمر شبیر اور اُس کے عہد کے لوگوں کو قائل کرنا بتدریج مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کوئی بھی شخص اپنا ملک کیوں نہیں چھوڑ سکتا؟ اس سوال کو حقیقت اور محبت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں اس کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جبکہ میرے خیال میں عمر اس سوال کو حقیقت کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ اس کا زاویہ حقیقت پر مبنی ہے جبکہ میرا زاویہ دہائیوں سے پروان چڑھائی گئی محبت کا زاویہ ہے۔ میری ملک سے اور اس مٹی سے محبت اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ میری عمر۔ میرا رشتہ وطن کی مٹی سے اُس وقت شروع ہوا جب میں نے اس وطن کی فضائوں میں آنکھ کھولی تھی، جب ہم اس مٹی میں کھیلتے تھے۔ راولپنڈی سے پچاس کلومیٹر دُور میرا گائوں ٹکال واقع ہے۔میں اُس وقت کی بات کر رہا ہوں جب ابھی تک گائوں میں بجلی بھی نہیں پہنچی تھی۔اُس وقت بھی مجھے اپنا گائوں آسودہ دکھائی دیتا تھا۔ میں آج ماضی کے دریچوں سے جھانکتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ جیسے گائوں میں رہنے والے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ غریب ہیں یا امیر!یا شایداُن کی معاشرت پر اس کا اتنا شدید اثر نہیں پڑتا تھا۔ امیری‘ غریبی سے قطع نظر لوگ آسودہ حال دکھائی دیتے تھے یا جو اُن کے پاس تھا اُس پر راضی اور شاکر دکھائی دیتے تھے۔ اس کے برعکس آج شاید لوگ آسودہ حال توہیں لیکن خوش دکھائی نہیں دیتے۔
مٹی سے محبت کا پہلا زینہ میرا گائوں تھا جہاں صبح صبح ہی زندگی کی ریل پیل شروع ہو جایا کرتی تھی اور شام تک زندگی طرح طرح کے رنگوں میں ڈھل جاتی تھی۔ ہر کوئی دن بھر اپنے کام میں مگن رہتا تھا۔ کھیتی باڑی، مال مویشی اور مختلف نوعیت کے کام کا ج ہی سب کے روز مرہ کے مشاغل ہوا کرتے تھے۔ دن بھر کے تھکے ہارے لوگ سرِشام اگر گرمی کا موسم ہے تو صحن میں رکھی چارپائیوں پر اور اگر سردی کا موسم ہے تو کسی بڑے کمرے میں دہکتے کوئلوں سے بھری انگیٹھی کے ارد گرد بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہو جایا کرتے تھے۔ہر ایک کے پاس سنانے کو ایک کہانی ہوتی تھی۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات اور ہلکے پھلکے تجزیے جاننے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا لیکن دیکھنے میں آیا تھا کہ لوگ اپنے حال میں مگن رہتے تھے اور گائوں کے لوگوں کی اکثریت ریڈیو سے بھی لا تعلق رہتی تھی اورملکی اور بین الاقوامی حالات سے بھی!
اس وقت سبھی لوگ انسان دوست تھے۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو میں نے سکول جانا شروع کیا۔ سکول کیا تھا‘ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو رکھنے والے بچوں کا ایک اکٹھ دو کیکر کے درختوں کی چھائوں میں ہوتا تھا۔ پچھلے دنوں جب میں عمر شبیر کے ہمراہ گائوں گیا تو میں نے ایک اُونچی پگڈنڈی پر کھڑے ہو کر دو درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس کو بتایا کہ ہمارا سکول وہاں ہوا کرتا تھا۔ عمر نے حیرت سے پوچھا : وہاں تو صرف درخت ہیں۔ میں نے بتایا: ہماراسکول انہی دو درختوں کے سائے میں ہوتا تھا۔اُس وقت تک سکول کی کوئی باقاعدہ عمارت نہیں تھی۔ سکول کا کُل اثاثہ ایک بلیک بورڈ، چاک کا ایک ڈبہ، سٹیل کا ایک کولر اورایک گلاس تھے، جو صبح سکول جاتے ہوئے ساتھ لے کرجاتے اور چھٹی کے وقت یہ اثاثے قریب کے ایک گھر میں امانت کے طور پر رکھوا دیے جاتے تھے۔ ہم سب اکثر بارش کے لیے دعائیں کیاکرتے تھے کیونکہ بارش والے دن سکول میں عام تعطیل کا اعلان کرنے کا اختیار طلبہ کے پاس ہوتا تھا۔
جب میں گائوں سے نکلا تو محبت کا یہ دائرہ رفتہ رفتہ ا س ملک کے طول وعرض تک محیط ہوتا چلا گیا۔ پھر اس ملک نے مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو گود لے لیا۔ مٹی سے اُٹھنے والے لوگوں کو آسمان کی طرف پرواز کرنے میں مدد دی۔ عقل اور شعور دیا۔ اعلیٰ مقام پر بٹھایا۔ عزت و تکریم سے نوازا۔ اہلیت سے زیادہ حیثیت کے مناصب عطا کیے۔ دُنیا بھر میں اسی ملک کی نسبت سے ہمیں شناخت ملی۔ اور پھر ابدی ضرورت کی دو گز زمین دی اور اسی نسبت سے اس سر زمین میں‘ میرے گائوں میں ایک قبر ہے اور اُس ایک قبر کے ارد گرد چند مزید قبریں ہیں۔ یہاں کچھ لوگ آسودۂ خاک ہیں‘ وہ لوگ جن کی اُنگلی پکڑ کر میں نے چلنا سیکھا‘ وہ لوگ جنہوں نے مجھ سے ٹوٹ کر محبت کی‘ جو میر ی کامیابیوں پر کھل اُٹھتے تھے اور میری ناکامیوں پر میرے ساتھ کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
جن لوگوں پر قسمت مہربان ہوئی اور اُنہیں ملک کے طول وعرض میں جانے کا موقع ملا‘ اُنہیں معلوم ہوا کہ یہ ملک عبداللہ شاہ غازی، بہاء الدین زکریا، فرید الدین گنج شکر، لعل شہباز قلندر، سلطان باہو، بابا بلھے شاہ، پیر مہر علی شاہ، شاہ سچل، رحمان بابا، میاں محمد بخش اور خوشحال خان خٹک جیسے ولیوں اور صوفیوں کی سرزمین ہے۔اُنہیں یہ جان کر فخر ہوا کہ یہ سر زمین موہنجو دڑو، ٹیکسلا، تخت بائی، مکلی، روہتاس، ہرن مینار اور ہڑپہ جیسے دُنیا کے معتبر ورثوں کی سرزمین ہے۔ اس ملک میں دُنیا کے بلند ترین اور خوبصورت پہاڑ کے ٹو،نانگا پربت اور براڈ پیک فخر سے ایستادہ ہیں جو دُنیا بھر کے لوگوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ اس ملک میں دلفریب قدرتی خوبصورتی کی حامل سیف الملوک جیسی حیرت انگیز جھیلیں اور سوات اور ہنزہ جیسی متعدد خوبصورت وادیاں ہیں۔ اس ملک میں تھر اور چولستان جیسے صحرا ہیں اور ایک ہزار کلو میٹر سے زائد خوبصورت ساحلی پٹی ہے۔ یہ ملک مختلف علاقائی روایات، زبانوں اور رسوم کا حسین تنوع ہے اور یہی اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
''بابا! آپ یہ ملک چھوڑکیوں نہیں سکتے ؟‘‘۔ محبت سے محبت کی دلکش کہانی کے باوجود عمر شبیر کے سوال میں وزن ہے۔اُس کو آئینے میں حقیقت دکھائی دیتی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اُس کا زاویہ بہت حد تک منطقی اور عملی ہے۔ مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ عمر شبیر کی جنریشن کے لوگ ہمارا بھرم تو رکھتے ہیں مگر دل ہی دل میں ہمیں ایک ناکام جنریشن سمجھتے ہیں۔ ہماری اگلی نسل مخمصے میں ہے اور مخمصہ یہ ہے کہ اُن کو اس ملک میں اپنا مستقبل روشن دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ خواب دیکھتے ہیں لیکن اُن کی تعبیریں اس ملک سے جُڑی دکھائی نہیں دے رہیں۔میری اور عمر شبیر کی نسل کشمکش کے دوراہے پر ہے جہاں محبتوں کا امتحان ہے اور تلخ حقیقتوں کا سامنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں