سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے

میری اور اُس کی کئی برسوں سے شناسائی ہے۔ وہ ایک خوبصورت اور درد مند دل کا حامل انسان ہے۔ اس فرسودہ اور پیچیدہ نظام میں کام کرنے والا ایک بہت ہی شفاف اور صاف ستھراآدمی ہے۔ وہ دل کی گہرائیوں سے بہت خوبصورت انداز میں وطن سے اپنی بے پناہ محبت کی کہانی سناتا ہے۔ ''میں نے اپنے ملک کی خدمت کا انتخاب کیا بلکہ میں خوش نصیب تھا کہ مجھے وطن کی خدمت کے لیے چنا گیا۔ میں نے ہمیشہ اس ملک کے لیے جینا چاہا اور اسی ملک کے لیے مرنا پسند کروں گا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں یا زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کر سکا ہوں وہ میرے ملک کی طرف سے ملا ہے۔ مجھے میرے ملک نے نام دیا، میری حیثیت سے زیادہ مجھے پہچان دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے اپنے ہم وطنوں کے درمیان عزت سے نوازا۔ کوئی اپنے اُس ملک کے ساتھ بے وفائی کا کیسے سوچ سکتا ہے جس نے اُس کو مان دیا ہو جس نے اس کو عزت دی ہو‘‘۔ ان خیالات کا حامل شخص اس فرسودہ اور پیچیدہ نظام کا ایک اہم رکن ہے اور پیشے کے لحاظ سے بیوروکریٹ ہے۔ جب وہ اپنے ملک کی بات کرتا ہے تو اُس کی آواز میں مایوسی در آتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کو ان حالات تک لائے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ مثبت سوچ، فیصلہ سازی اور عملداری سے بہت کچھ بہتر کیا جا سکتا تھا‘ جو نہیں کیا جا سکا۔
وہ ملک کی تاریخ کے سارے اتار چڑھائو پر عمیق نگاہ رکھتا ہے۔ وہ قومی ناکامیوں کو بہت دکھ کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ وہ قوم کی تنزلی کو کرب کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں قائداعظم کی وفات پاکستان کا پہلا بڑا قومی سانحہ تھا جس کے بعد ملک کو سنبھالا نہ جا سکا۔ وہ سقوطِ ڈھاکہ کو بہت عظیم قومی حادثہ قرار دیتا ہے کہ اس حادثے نے پاکستان کے تصور کو دُھندلا کردیا۔ لیکن وہ مستقبل سے مایوس نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں جو ذہین ہیں، محنتی ہیں اور وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہیں۔ وہ راشد منہاس اور اُس جیسے ہزاروں شہدا کی قربانیوں کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے اس ملک کو اپنے خون سے سینچا اور اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان بھی وطن پر نچھاور کردی۔ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر بہت اُنسیت اور احترام سے کرتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر نے مسلسل لگن اور محنت سے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ وہ عبدالستار ایدھی سے محبت کرتا ہے کہ اُن کے انسانی خدمت کے لافانی جذبے کی وجہ سے دُنیا میں ہمارا سر فخر سے اُونچا ہوتا ہے۔ وہ اس سرزمین میں پیدا ہونے والے اور ملک کا نام روشن کرنے والوں کا ذکر عقیدت سے کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک ہر وہ شخص محبت اور احترام کے لائق ہے جس نے اس ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
میں اتنے اچھے الفاظ میں اپنے ایک بیوروکریٹ دوست کو یاد کر رہا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان میں بیوروکریسی کا عمومی تاثر اچھا نہیں ہے۔ لوگ پاکستان میں بیورو کریسی کو زیادہ تر مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں اور اُس کو معاشی اور ملکی ترقی کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ بیورو کریسی کے بارے میں یہ تاثر کافی حد تک درست بھی ہے کہ وہ خود کو عوام کا خادم تصور نہیں کرتی بلکہ ان کو محکوم سمجھتی ہے اور کچھ لوگوں کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیورو کریسی ابھی تک سامراجی مائنڈ سیٹ کے زیرِ اثر کام کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی کا متکبر ہونے کا تاثر بھی عام ہوا۔ ملک کے ابتدائی چند سالوں میں پیدا ہونے والے آئینی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے تانے بانے بھی اُس وقت کی بیوروکریسی کے چند ارکان سے ملتے ہیں جن کے ذاتی مفادات قومی مفادات سے ٹکراتے تھے۔ یہ شاید ایک اچھی شروعات نہیں تھی اور بعد میں بیورو کریسی ملک میں اچھی حکمرانی کے فقدان کے ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آئی۔ تاریخی پس منظر میں بیورو کریسی کا ایک مسخ شدہ تاثر اُبھرا جو آج تک ٹھیک نہیں ہوسکا۔
اس کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی تمام خرابیوں کو بیورو کریسی کے پلڑے میں ڈالنا ٹھیک ہے؟ میری رائے میں ملک میں تیزی سے نمو پانے والی تمام خرابیوں کو صرف بیورو کریسی یا کسی ایک شعبے سے منسوب کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اگرچہ بیورو کریسی پالیسیوں کی تشکیل اور گورننس میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ اس فرسودہ اور پیچیدہ نظام کا صرف ایک جُز ہے جو ملک کی ترقی اورخوشحالی کو متاثر کرتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، سماجی واقتصادی تفاوت، علاقائی تنازعات، دہشت گردی اور ناکافی انفراسٹرکچرسمیت متعدد عوامل پاکستان کے مسائل میں حصہ ڈالتے ہیں۔بیوروکریسی‘ حکومتی نظم و نسق کے ایک نظام کے طور پر‘ مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ایک طرف ایک مؤثر اور قابل بیورو کریسی مؤثر گورننس، استحکام، معاشی ترقی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا سکتی ہے اور دوسری طرف نا اہلی، سرخ فیتہ کلچر، بدعنوانی اور احتساب کے فقدان سے دوچار بیورو کریٹک نظام ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت سے اہم معاملات پر ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں اداروں کی مضبوطی،انسدادِ بدعنوانی، شفافیت، احتساب، تعلیم اور صحت، اقتصادی ترقی، علاقائی تفاوت کا خاتمہ اور سیاسی اصلاحات شامل ہیں۔ بیورو کریسی کا ان کثیر جہتی مسائل کو حل کرکے پاکستان کوپائیدار ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اہم کردار ہے۔ بیورو کریسی نے اپنی بہت سی خامیوں اور چیلنجز کے باوجود ملک کی گورننس اور ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی سعی کی ہے۔وہ ایسے منصوبے تیار کرنے کے لیے اور اُن پر عمل درآمد کے لیے پالیسی سازوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے جن کا مقصد گورننس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ چیلنجز کے باوجودبیورو کریسی انتظامی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اسی لیے بیورو کریسی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نااہلی، بدعنوانی اور سرخ فیتہ کلچر نے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جہاں میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر بیورو کریسی کا مثبت کردار رہا ہے۔ بیورو کریسی کے اندر ایسے افراد ہر دور میں موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں جواپنی ایمانداری، عزم، دیانت، پیشہ ورانہ مہارت، انصاف کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی، عوامی خدمت کی لگن اور گورننس میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے پُرعزم رہے اور اُن کا نام آج بھی حکومتی اور سیاسی حلقوں میں عزت و احترام سے لیا جا تا ہے۔
سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ باوقار لوگ اپنے نام، کام اور کردار کے بارے میں انتہائی محتاط ہوتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیچھے دیانت، جرأت اور اٹل اصولوں پر مبنی میراث چھوڑ کر جا ئیں اور ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے جب آپ حقیقی اخلاقی اقدارپر ثابت قدم رہیں۔ ایک باوقار آدمی اپنی ذات سے بہت اُونچا ہوتا ہے۔باعزت شخص ذاتی فائدے کے لیے پہچان نہیں چاہتا بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی سعی کرتا ہے۔ اُس کی اُصولوں کے لیے لگن غیر متزلزل ہوتی ہے کیونکہ وہ اگلی نسل کے لیے ایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کو ا س بات کی فکر نہیں ہوتی کہ وہ حاصل کیا کرے گا، اُس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر کیا جائے گا۔ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہی رول ماڈل بن جاتے ہیں اور اُن کی خوبیاں تاریخ کے صفحات پہ نقش ہو جاتی ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ میرے بیورو کریٹ دوست نے بھی وقار اور اُصول کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں