حامد سراج! ایک عظیم نقش گر

سچ کے راستے پر سفر کرنے والے حامد سراج سے میری آخری ملاقات اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں ہوئی تھی۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے اس شخص کو بستر پر دیکھ کر میں حوصلہ ہار گیا لیکن وہ ہمیشہ کی طرح صابر و شاکر اور زندگی سے مطمئن نظر آئے۔ پھر دو دن بعد مجھے اطلاع ملی کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے ساتھ کئی برسوں پر محیط یادوں کی ایک طویل فلم میرے تخیل کے پردے پر چل پڑی۔ نرم خوئی‘ متانت اور برد باری کی تصویر حامد سراج کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ برسوں پہلے جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ہم دونوں محبت و احترام کے انمول رشتے میں بندھ گئے۔ ہوا یوں کہ 2008ء میں میرے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا تو میں نے ملک کے نامی گرامی افسانہ نگاروں کو تلاش کیا تاکہ میں کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل اپنا اولین مجموعہ ان کو پیش کر سکوں اور ان سے مناسب رہنمائی بھی حاصل کر سکوں۔ مجھے کسی نے بتایا کہ میانوالی سے ملحقہ کندیاں نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے وہاں ایک بڑا نثر نگار رہتا ہے۔ میں نے حامد سراج کو تلاش کیا تاکہ انہیں اپنی کتاب بھجوا سکوں۔ ان سے فون پر رابطہ ہوا تو کہنے لگے آپ اپنی کتاب جلدی بھیج دیں کیونکہ میں بھی تو پڑھنا چاہتا ہوں کہ پیشے کے لحاظ سے ایک فوجی افسر نے کیا افسانہ لکھ مارا ہے۔ میں نے کتاب بھیج دی۔ چند دن بعد ان کا فون آیا تو مجھے کہنے لگے کہ کہانی تو آپ بہت خوب لکھتے ہیں لیکن آپ مجھے بہت اَکھڑ مزاج لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے کسی شخص سے نہ تو کتاب پہ مضمون لکھوایا اور نہ ہی کسی سے فلیپ لکھوانا گوارا کیا۔ میں نے کہا: حامد بھائی میری کتاب پر اگر افلاطون جیسا شخص مضمون لکھ دے اور ارسطو جیسا شخص فلیپ لکھ دے لیکن اگر کتاب میں جان نہ ہوئی تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ آپ نے میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے فون پہ بھرپور قہقہہ لگایا۔
پھر کچھ دنوں کے بعد حامد سراج کی محبت مجھے کھنچ کر کندیاں لے گئی۔ کندیاں میں ان کا گھر میرے جیسے ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے تخلیقی پناہ گاہ کا درجہ رکھتا تھا۔ سادہ‘ خوبصورت مگر پُر شکوہ گھر جو کسی بھی تخلیق کار کا حقیقی مسکن ہونے کے تمام تقاضے پورے کرتا تھا۔ گھر میں جگہ جگہ سبزے کی بہار تھی اور پھول تھے کہ جگہ جگہ جھانک رہے تھے۔ بکھری بکھری کیاریاں بنی ہوئی تھی اور چند بیلیں گھر کی دیواروں سے بھی لپٹی ہوئی تھیں۔ گھر کے ایک طرف لائبریری تھی اور لائبریری میں رکھی کلاسیکی اور عصری موضوعات پر لکھی گئی بہت سی نایاب کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا جو ان کی متنوع موضوعات میں دلچسپی اور ان کے ذوق کا آئینہ دار تھا۔ میں جب بھی حامد سراج کے ہاں کندیاں گیا مجھے لگا کہ وہ خیال اور تخلیق کا خوبصورت امتزاج ہیں۔ اکثر فکر انگیز گفتگو رات گئے تک جاری رہتی اور صحن میں بچھی چارپائیوں پر رکھے تکیوں سے ٹیک لگائے تاروں بھرے آسمان پر نظریں جمائے رات کی خاموشی میں ہم حامد سراج کی کہانیوں کی کیفیت میں الجھ کر رہ جاتے۔ وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گزرے‘ احساس کی کیفیت میں رہے اور پھر تخلیق کے ساتھ ایک اٹوٹ بندھن قائم کیا جو اُن کی گفتگو اور تحریر میں جھلکتا تھا۔ اسی لیے اُن سے کی گئی گفتگو کی یادیں میرے ذہن میں ایسے نقش ہیں جیسے بالکل تازہ ہوں۔
وقت کی فصیل‘ نقش گر‘ میا‘ برائے فروخت‘ چوب دار‘ آشوب گاہ‘ بخیہ گری‘ ہمارے بابا جی‘ مجموعہ محمد حامد سراج‘ عالمی سب رنگ افسانے‘ نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں‘ برادہ‘ مشاہیرِ علم و دانش کی آپ بیتیاں اور بادشاہوں کی آپ بیتیاں جیسا تخلیقی اور تالیفی سفر کرنے والے حامد سراج ایک غیرمعمولی تخلیق کار تھے۔ میں ان کی ذہانت‘ زندگی کے اتار چڑھاؤ پر ان کے گہرے مشاہدے اور تخلیقی صلاحیتوں کا پہلی ملاقات میں ہی قائل ہوگیا۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں

 دنیا میں زندگی کی بھول بھلیوں اور بے اَنت پیچیدگیوں کا کھوج لگانے کی سعی کی۔ وہ عصری ادب‘ فلسفہ‘ سائنس اور تاریخ کا وسیع علم اور ہر موضوع پر مدلل نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ میں نے ان سے گفتگو کی تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ مکالمہ صحیح معنوں میں ایک حقیقی فکری مہم جوئی ہے اور وہ دھیمے دھیمے لہجے میں اپنا مؤقف ایسے جادوئی انداز میں منوا تے چلے جاتے کہ سامنے بیٹھے شخص کو احساس بھی نہ ہوتا کہ در حقیقت گفتگو میں آخری بات ان کی ہی مستند ہے۔ بطور مصنف ان کے لکھے ہوئے الفاظ قارئین کو ایک نئی دنیا سے متعارف کرواتے ہیں۔ ان کی حزنی تحریریں پانی میں آگ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ گہرے معانی اور سچائیوں کو جانتے اور استعاروں اور تشبیہات کا استعمال کرتے ہوئے ایسی داستان باندھتے کہ پڑھنے والا لفظوں کے گہرے سمندر میں ڈوب کر رہ جاتا۔ میں نے جب ان کی کتاب ''میا‘‘ پڑھنا شروع کی تو ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ماں کے ساتھ گہری اُنسیت کو جس طرح کے الفاظ میں حامد سراج نے پرویا وہ انہی کا خاصا ہو سکتا ہے۔ میں نے جب ہسپتال میں ان سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ میں ''میا‘‘ کے انداز میں اپنے والد گرامی کے ساتھ بیتی زندگی کی یاد داشتوں پر کتاب لکھ رہا ہوں تو مجھے کہنے لگے کہ آپ کی کتاب کا عنوان میں تجویز کروں گا۔ میں نے کہا: حامد بھائی مجھے بہت خوشی ہوگی کہ آپ میری کتاب کا عنوان تجویز کریںگے۔ لیکن شومئی قسمت کہ زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور وہ میری کتاب کا عنوان تجویز کیے بغیر سفرِ آخرت پر رخصت ہو گئے۔

کبھی کبھی حساس طبیعت کے حامل لکھاری دو متوازی دنیاؤں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایک عام دنیا ہوتی ہے جس میں سب کچھ عام اور سطحی سا دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور ایک خاص دنیا ہوتی ہے جس میں لکھاری کی حساسیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اس پر زندگی کے راز کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ایسا شخص گفتگو کرنا شروع کرتا ہے تو آگہی کے بہت سے گوشے منور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے حامد سراج کی گفتگو اور تحریر میں ایک کمال ربط تھا۔ ایک بار میں نے ان سے کہا: حامد بھائی میری شاعری اور افسانوں میں کہیں سے دکھ در آتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ میں بہت دکھی ہوں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مجھ پر دکھ لکھنے کی چھاپ نہ لگے۔ مجھے کہنے لگے آپ خود کہاں لکھتے ہیں! آپ سے تو لکھوایا جاتا ہے۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولے‘ آپ لکھتے رہیں۔ دکھ لکھتے رہیں کیونکہ حزنی ادب کی زندگی عام ادب سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حزنی ادب تادیر زندہ رہتا ہے۔
حامد سراج ایسا ستارہ تھے جو نثری ادب کے آسمان پر ہمشیہ چمکتا رہے گا۔ حامد سراج خوشبو تھے جو دہائیوںتک ان کی تحریروں کی صورت مہکتی رہے گی۔ حامد سراج خوبصورت بیل کی مانند تھے جو دِیواروں سے لپٹی دیکھنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بنتی رہے گی۔ چند الفاظ ان کی شہرہ آفاق کتاب سے کچھ ردوبدل کے بعد ان کے لیے نقل کرتا ہوں۔ حامد سراج! یہ شام‘ اُداسی اور تنہائی کا لا متناہی صحرا اور آپ وقت کی قید سے ورے جا آباد ہوئے اور ہم سب آپ سے محبت کرنے والے لوگ ہجر کے گھنے پیڑتلے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں