بولتی تصاویر

میری ایک پرانی گرد آلود فائل میں پانچ تصاویررکھی ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ یہ تصاویر میں نے کیوں اتنے اہتمام سے فائل میں محفوظ کر رکھ ہیں لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ میں جب بھی ان تصاویر کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں بلکہ کچھ تو چیختی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ تصاویر زندگی کے کینوس پر اُبھرتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے غیرمعمولی نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ عمومی طور پر یہ تصاویر کسی محرومی یا دکھ کی عکاسی کرتی ہیں لیکن کئی تصویریں ماضی میں‘ کرب میں گزرے لمحوں کی گواہی بھی دیتی ہیں۔ فائل میں رکھی یہ تصاویر تاریخی بوجھ ہیں جو ہم اُٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ تصاویر کسی خاص دکھ کا استعارہ ہیں جس کی ہر کڑی معاشرتی بے حسی سے جا ملتی ہے۔ اکثر اوقات یہ تصاویر استعمار کے عزائم اور بے رحمی کی غمازی بھی کرتی ہیں۔ یہ تصاویر تاریخی لمحے ہیں جو یادوں کی تختی پر ایسے نقش ہوتے کہ مٹنے کو نہیں آتے۔
پہلی تصویر 1947ء کی ہولناک تقسیم کی ہے۔ 14اگست 1947ء کی شام کو جیسے ہی سورج اُفق میں ڈوب گیا تو ہندوستان کی سرزمین پر ظلم و ستم کی سائے ڈیرے ڈالنے کو آ دوڑے اور صدیوں سے باہم شیر و شکر رہنے والے لوگوں کا باہم تناؤ یکایک گہرا ہو گیا۔ آزادی کی شام تو آ چکی تھی لیکن اُس شام ایک ایسا المیہ ہونے جا رہا تھا جس کا بوجھ دہائیوں تک اُٹھایا جانا تھا۔ ایسا المیہ جو آنے والی نسلوں کو داغ دار کرنے کے لیے کافی تھا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ اس سانحے کا شکار وہ لوگ ہونے جا رہے تھے جو کبھی موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جو ایک ہی گلی میں کھیلتے تھے‘ ایک ہی سکول‘ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے اور ایک ساتھ ہنستے اور روتے تھے۔ وہ سب اچانک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ مذہب‘ جوکبھی بھی اُن کے درمیان تقسیم پیدا کرنے والا عنصر نہیں تھا‘ اچانک ایک اہم عنصر بن کر اُبھرا۔ جیسے ہی گھڑی آدھی رات کو ٹکرائی‘ دو نئے آزاد ہونے والے ممالک کی فضاؤں میں ایک عجیب ڈر اور خوف معلق ہو گیا۔ سرحدیں عجلت میں کھینچی گئیں اور ہم آہنگی سے رہنے والے لوگوں نے خود کو خون میں بھیگی ہوئی لکیروں کے اطراف موجود پایا۔ یہ تقسیم آزادی کے ساتھ ساتھ تشدد اور دشمنی بھی لے کر آئی اور لوگ نفرت کے جنون میں پھنس کر رہ گئے اور یوں وہ قتل و غارت گری ہوئی کہ اُس غارت گردی کے تصاویر میں معلق لمحات بھی آج تک دکھی ہیں۔ میری فائل میں رکھی تصویر اُس وقت کی ہے جب یہ خطہ تاریخ کی انتہائی تکلیف دہ تقسیم کے دور سے گزر رہا تھا۔ مذکورہ تصویر میں ٹرین کے ڈبے کے اوپر کئی لاشیں پڑی ہیں۔ ان لاشوں کی حالت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کس بے دردی کے ساتھ ان لوگوں کو نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تصویر خود بولتی ہے کہ آزاد ملک حاصل کرنے کے لیے کتنی بڑی قیمت ادا کی گئی ہے۔
دوسری تصویر سقوطِ ڈھاکہ کی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں۔ تاریخ میں ایسے لمحات ہمیشہ گونجتے رہتے ہیں۔ یہ لمحہ تاریخ کے صفحات میں اُس وقت محفوظ ہوا جب 16دسمبر 1971ء کو ایک پاکستانی مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس تصویر نے اس لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ہمیشہ کے لیے ہماری اجتماعی یاداشت میں درج کر دیا۔ یہ تصویر ایک تلخ یاد ہے۔ فریم میں لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی میز کے ایک طرف کھڑے ہیں اور ان کا سپاٹ چہرہ ساری صورتحال کا پتا دے رہا ہے۔ ان کے ساتھ ہندوستانی فوج کی مشرقی کمان کا کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہوا کھڑا ہے۔ یہ تصویر ڈھاکہ ریس کورس کی ہے۔ دونوں کمان داروں کے چہروں کے تاثرات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ جنرل نیازی نے بھاری دل کے ساتھ اس دستاویز پر دستخط کیے اور دوسری طرف جنرل اروڑہ مسرور کھڑا رہا۔ سقوطِ ڈھاکہ کی یہ نمائندہ تصویر آج تک ہر پاکستانی کے دِل پر ثبت ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس عظیم قومی سانحے کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے‘ وہ بھی اس تصویر کا بوجھ تسلسل سے اٹھائے ہوئے ہیں۔
تیسری تصویر چند برس پہلے بحیرۂ روم کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ایک معصوم شامی بچے کی لاش کی ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتی چلی گئی۔ صرف چند گھنٹوں میں دنیا بھر سے رنج اور صدمے کے ساتھ ردِ عمل کا اظہار کیا گیا۔ تین سالہ بچہ ایلان کُردی اپنے خاندان کے 11دیگر افراد کے ساتھ بحیرۂ روم میں اُس وقت ڈوب گیا جب لوگ شامی پناہ گزینوں کے ہمراہ دو کمزور کشتیوں میں سوار ہوئے تاکہ ایک محفوظ جزیرے تک پہنچ سکیں۔ ساحل پر پڑی معصوم بچے کی لاش ایسی چیختی تصویر تھی جس میں دُنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے ایک پیغام تھا۔ اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے انقرہ میں ایک اجلاس میں کہا تھا کہ بحیرۂ روم میں صرف مہاجرین ہی نہیں ڈوبے بلکہ بحیرۂ روم میں انسانیت بھی ڈوب گئی ہے۔ ایلان کُردی کی تصویر نے دنیا بھر کے کروڑوں دلوں کو چھوا اور دنیا کے امیر اور خوشحال ملکوں کی انسانیت سوزی کو سب کے سامنے عیاں کر دیا۔
بین الاقوامی استعمار کی بے حسی پر مبنی چوتھی تصویر ایک 10سالہ جاپانی بچے کی ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے مردہ بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر اٹھائے اس کی آخری رسومات کے لیے کھڑا ہے۔اسے اپنے معصوم بھائی‘ جو شاید جو کسی اندھی گولی کا نشانہ بن چکا ہے‘ کی تدفین کرنی ہے۔ اپنے بھائی کی لاش کو اٹھائے اس لڑکے کے چہرے پر سختی اور کرختگی کے آثار ہیں۔ وہ لڑکا تصویر میں سیدھا کھڑا ہے اور بہادر بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا بہادر کہ دیکھنے والوں کا دل ٹوٹ جائے۔ یہ تصویر جنگ کی ہولناکیوں کی ایک خوفناک کہانی ہے اور ایک شکست خوردہ قوم کے جذبے کا مکمل اظہار ہے۔
پانچویں تصویر ایک بارہ سالہ بچے کی ہے جو اپنی ماں کی خون میں لت پت لاش کے پاس اس کا ہاتھ تھامے بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ اس کی ماں کو کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں دِن کی روشنی میں چھریوں کے پے در پے وار کرکے قتل کر دیا گیا اور اب وہ ماں کی لاش کے پاس بیٹھا کسی مدد کا منتظر ہے۔ بے حسوں کے اس معاشرے میں اور سماجی ناانصافی کے راج میں یہ معصوم بچہ اب تک ہر روز جنم لیتی ایسی ہی ہزاروں کہانیوں میں کسی ایک کہانی کی طرح کہیں کھو گیا ہو گا۔
یہ پانچوں تصاویر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر تصویر کا اپنا دور ہے‘ اپنا زاویہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر تصویر کا اپنا پسِ منظر ہے۔ لیکن پانچوں تصاویر میں جو قدر مشترک ہے وہ ہر تصویر میں چھپا ایک انتہائی اہم پیغام ہے جس میں ابلاغ ہے‘ کاٹ ہے اور دل میں اتر جانے کی طاقت ہے۔ ہر تصویر بولتی ہے کیوں کہ ہر تصویرکا پسِ منظر ایک کہانی ہے اور ہر کہانی میں ایک اہم تاریخی سبق موجود ہے۔ میری رائے ہے کہ ہمیں کبھی کبھی ایسی بولتی تصاویر کی کہانیوں پر بھی کان دھرلینے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں