روشنیوں کا سفر

چند روز قبل میں چین کے شہر شنگھائی میں تھا اور تاحدِ نظر حیرتوں کے کئی سلسلے وا ہو رہے تھے یوں لگتا تھا کہ جیسے دُور دُور تک فلک شگاف عمارتیں اُگ رہی ہیں۔شہر میں گھومتے پھرتے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چین ترقی کی دوڑ میں دنیا کو تیزی سے پیچھے دھکیلتا جا رہا ہے۔اگر آپ کا چین تواتر سے آنا جانا رہتا ہے‘ تو بھی آپ کو چین ہر بار حیران کرتا چلا جائے گا۔ پچھلی چند دہائیوں میں دنیا کا اہم ترین واقعہ چین کی بے مثال ترقی اور ترقی یافتہ قوموں میں چین کا سرعت سے نمایاں ہونا ہے۔ اس وقت دنیا میں خوشحالی کی حیرت انگیز کہانی چین کی کہانی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ بحث عام ہے کہ ہمارے لیے اس حیرت انگیز کہانی میں کیا سبق ہے اور ہم چین کی اس بے مثال ترقی اور تیز رفتار کامیابی سے کیاسیکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں چین کی خوشحالی ایک کرشمہ ہے۔ اسّی کی دہائی کے آغاز میں چین کی قیادت نے پالیسی اصلاحات کا جامع نظام وضع کیا اور ان اصلاحات کا مرکز چین کا معاشی نظام تھا۔دُور اندیش چینی قیادت کو احساس ہوا کہ تنہا رہ کر عظیم تر چین کا خواب حاصل کرنا ممکن نہ ہو گا‘ بالخصوص معیشت کو باقی دنیا سے جوڑے بغیر معاشی ترقی نہ ہو سکے گی۔ چینی سیاسی قیادت اور ماہرینِ اقتصادیات کی وسیع تر مشاورت کے بعد ایسی پالیسیاں بنائی گئیں اور ان پر عملدرآمد کیا گیا جن سے چین کو باقی دنیا کے معاشی نظام کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔جیسے ہی چین نے اصلاحات پر عمل کا آغاز کیا تو چین کے معاشی اشاریے بہتر ہونے لگے اور یوں اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے چین چار دہائیوں کے مختصر عرصے میں دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بن کر اُبھرا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چین کی کامیابی اُس کی اقتصادی صلاحیت میں مضمر ہے اور اقتصادیات کے ماہرین کے مطابق چین دنیا بھر میں سب سے مضبوط اقتصادی طاقت کے منصب پر پہنچ چکا ہے جس کا اب صرف رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔
چین کی غیر معمولی کامیابی کا پہلا راز اُس کی دور اندیشی اور تدبر میں مضمر ہے۔ چینی دانشمندی اور سفارت کاری اس کے علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات میں جھلکتی ہے۔ کئی دہائیوں سے چین کے بہت سے ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری رہی لیکن چینی قیادت نے نہ صرف اُن ممالک سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو برقرار رکھا بلکہ ایسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی کوشش بھی کی جن سے اُن کے تنازعات اور مسائل تھے۔ مثال کے طور پر چین کے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں اور ان تنازعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کی مسلح افواج میں متعدد بار سرحدی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ آج بھی دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی بلکہ دونوں ملکوں کا آپس کا تجارتی حجم بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ چین اپنے سیاسی حریفوں سے بڑی حکمت، تدبر اور احتیاط سے نمٹتا ہے۔ چین کے بین الاقوامی تعلقات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں چین کے لیے معیشت اہم ترین ترجیح ہے۔
چین کا انتہائی مختصر عرصے میں اندرونِ ملک غربت کا خاتمہ کرنا دنیا بھر کے لیے ایک روشن اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ چین شاید جدید تاریخ کا واحد ملک ہے جس نے چار دہائیوں میں انتہائی غربت کے خاتمے کو ممکن بنایا اور اُس کا باضابطہ اعلان بھی کیا اور غربت کے خلاف جنگ میں کامیابی چین کی مستقل مزاجی اور استقامت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چین نے نہ صرف 80 کروڑ افراد کو انتہائی غربت سے نکالا بلکہ عالمی سطح پر بھی تین چوتھائی غربت کے خاتمے میں مدد کی۔ اس کا مطلب ہے کہ چین کی غربت کے خاتمے کی کوششیں عالمی سطح پر غربت میں کمی میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ چین کی غربت کے خلاف جنگ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
چین نے غربت کے خاتمے کے لیے وسیع تر اقتصادی پالیسی کے اقدامات کیے اور ایسے معاشی مواقع پیدا کیے جن کے نتیجے میں اوسط آمدنی میں اضافہ ہوا۔ سب سے پہلے چین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا اور پھر تندہی سے اپنی توجہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں پر مرکوز کر لی۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس پالیسی کو مستقل بنیادوں پر استوار کیا۔ زراعت کے شعبے نے غربت میں کمی میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ غربت میں کمی کے پروگرام کا مرکز مکمل طور پر زراعت، کسانوں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی پر تھا۔ چونکہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا (اب بھارت آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے) اسی وجہ سے چین کے لیے اتنی بڑی آبادی کو انتہائی غربت سے نکالنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
گورننس میں بھی چین نے شاندار کامیابی حاصل کی جس میں مرکزی کردار چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ہے۔کمیونسٹ پارٹی پالیسی اصلاحات پر پوری طرح متحد اور یکسو ہے۔ پارٹی مختلف ریاستی اداروں کی اصلاحات اور اقدامات کی بھرپور معاونت کرتی ہے اور چین کا آئین پارٹی کے کردار کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پارٹی کا ریاست کے اندر سیاسی استحکام اور گورننس کو بہتر سے بہتر بنانے میں اہم کردار ہے۔ چین کے نظام میں مسلسل اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں چین کے مخالفین چینی گورننس ماڈل پر تنقید کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ چین کے پاس گورننس کے لیے ایک غیر معمولی اورقابلِ عمل ماڈل ہے جس کی وجہ سے چین مسلسل خوشحالی اور کامیابی کے راستے پر گامزن ہے۔
چند روز قبل مجھے پہلی بار شنگھائی جانے کا اتفاق ہوا۔مجھے شنگھائی میں فلک بوس عمارتوں میں چین کی گزشتہ چند دہائیوں میں کی گئی اقتصادی ترقی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ شنگھائی ایک ایسا عالمی مالیاتی مرکز دکھائی دیتا ہے جو دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور بین الاقوامی کاروبار کو اپنی جانب مائل کر رہا ہے۔ شنگھائی میں بڑی تعداد میں تعمیر کی گئی بلند عمارتیں اس بات کی بھی غمازی کرتی ہیں کہ چین تیزی سے شہری ترقی کے تجربے سے گزرا اور بڑی آبادی نے مواقع کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کی۔ شنگھائی کی فلک بوس عمارتیں شہر کی اُمنگوں کی علامت دکھائی دیتی ہیں جو چینی روایت اور جدیدیت کے امتزاج کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔ شنگھائی کی بلند و بالا عمارتیں چین کی اقتصادی ترقی، فن ِتعمیر کی برتری، عالمی اثر و رسوخ اور تیز رفتار ترقی کی عکاس بھی ہیں۔
شنگھائی میں دن چین کی ترقی کی کہانی سنتے گزرا جبکہ رات کاکچھ وقت دریائے ہوانگپو کی مسحور کن کروز کے رومان میں گزرا۔ شنگھائی اپنی بھرپور شاموں اور راتوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ کروز میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کی دلیل تھی کی شنگھائی شہر کے طور پر کبھی نہیں سوتا اور سورج غروب ہونے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ آپ واٹر فرنٹ کے ساتھ چہل قدمی کریں، نانجنگ روڈ پر اعلیٰ درجے کے سٹورز، ریستوران اور سٹریٹ پرفارمرز کا امتزاج دیکھیں، اولڈ ٹائون میں روایتی فنِ تعمیر اور لالٹین سے روشن سڑکوں پر رومانویت کا تجربہ کریں یا پھر کروز سے لطف اندوز ہوں‘ جہاں اُونچی اُونچی عمارتوں کی روشنیاں پانی پر جھلکتی اور رقص کرتی نظر آتی ہیں اور دھنک رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں تو آپ ہر صورت شنگھائی کے سحر میں مبتلا ہو رہیں گے۔ اور اگر آپ پاکستان جیسے کسی ترقی پذیر ملک سے ہیں تو آپ دل ہی دل میں حسرت لیے سوچتے رہ جائیں گے کہ ہماری خوشحالی کا خواب کب پورا ہو گا اور ہمارا روشنیوں کا سفر کب شروع ہو گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں