اولاد کا دُکھ

سات سال ہوتے ہیں ایک ایسے شخص کی آنکھوں کی شرارت ماند پڑ چکی ہے جو ہر گھڑی ہنستا مسکراتا رہتا تھا۔ زخم ایسا ہے کہ وقت بھی بھر نہیں پا رہا۔ صدمہ ایسا ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ رہا اور خلا ایسا ہے جو کسی طور پُر نہیں ہو رہا۔ میری اور راجہ عمر یونس کی شناسائی تین دہائیوں پر محیط ہے۔ ہم دونوں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے دِنوں سے بے تکلف دوست ہیں۔ شروع دن سے ہی راجہ عمر کی آنکھوں سے شرارت جھلکتی تھی اور وہ تربیت کے کٹھن مراحل کے دوران بھی خوش باش رہتا تھا۔ اکیڈمی کے بعد کئی سال تک ہم گاہے گاہے ملتے رہے اور راجہ بالکل ویسا ہی رہا جیسا ملٹری اکیڈمی میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر اکتوبر 2016ء کی ایک شام راجہ عمر یونس کی ہنستی مسکراتی زندگی نے ایک دلخراش موڑ لیا اور گجرات سے خبر آئی کہ راجہ کا جواں سال بیٹا راجہ عمیر ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گیا ہے اور اُس کو انتہائی نازک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ راجہ کے قریبی دوستوں کو فوری خبر ہوئی اور ہم سب بھی اس کے بیٹے کے لیے فکرمند ہو گئے لیکن چند گھنٹوں میں ہی خبر آگئی کہ راجہ کا اٹھارہ سالہ بیٹا زندگی کی بازی ہار گیا ہے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ہے۔
اگلی صبح ہم سب عمیر کے جسدِ خاکی کو کندھا دینے اسلام آباد سے چالیس کلومیٹر دُور واقع راجہ کے گائوں کرور روانہ ہو گئے۔ جواں سال بیٹے کی اچانک موت بلاشبہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ جب ہم کرور پہنچے تو پورا گائوں اُداسی کی لپیٹ میں نظر آیا۔ ہر کوئی اس اچانک اور جواں موت پر سوگوار تھا۔ اس حادثے نے ساری فضا کو غم زدہ کر رکھا تھا۔ لوگ جوق در جوق جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے آ رہے تھے اور راجہ کو ا س نا قابلِ تلافی نقصان پر دلاسا اور پرسہ دے رہے تھے۔ راجہ کمال حوصلے کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ وہ رو نہیں رہا تھا یا شاید وہ اب رو رو کر تھک چکا تھا۔ وہ صبر و ہمت کا ایک پہاڑ لگ رہا تھا۔ اُس وقت میں بھی راجہ کے حوصلے پر حیران رہ گیا کہ جوان بیٹا ایسا دُکھ دے کر چلا گیا اور راجہ بہادری سے اس دُکھ کو سہہ گیا۔ مہینوں بعد جب میں نے راجہ سے پوچھا کہ اُس دن جب تم اپنی پہلی اولاد کو منوں مٹی کے حوالے کر رہے تھے تو تم رو کیوں نہیں رہے تھے‘ جواں سال بیٹے کی اچانک وفات پر بھی تمہارے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوا؟ اس پر راجہ نے اپنا احوال بتانا شروع کیا:
اُس رات کو بے جان، خاموش اور اچانک داغِ مفارقت دے جانے والے عمیرکے لاشے کے پاس کھڑے ہو کر میں نے اور میری اہلیہ نے عزم کیا تھا کہ ہم اللہ کی رضا پر سرِ تسلیم خم کر دیں گے اور رضائے ربی پر صابر و شاکر رہیں گے۔ رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ ہمارے اردگرد سب کے لیے زندگی نارمل ہوتی چلی گئی لیکن میرے اور میری اہلیہ کے لیے زندگی کبھی بھی نارمل نہ ہو پائی۔ زندگی ویسی بالکل نہ رہ پائی جیسی عمیر کے ہوتے ہوئے ہوا کرتی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ ہمارا احساسِ غم بھی بڑھتا چلا گیا۔ اب یوں ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سانحہ گزر چکا ہے‘ وقت بیت گیا ہے اور زخم بھرنے لگا ہے لیکن درحقیقت یہ سانحہ ہم دو لوگوں کی زندگی کو صحرا بنا گیا ہے، ہمارے لیے وقت وہیں ٹھہر چکا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں کو اب اس کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہے۔ ہمارے پاس عمیر کے ساتھ گزاری زندگی کی یادوں کا ماضی ہے جس میں ہم مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ اٹھارہ سال کی حسین یادیں ہیں اور غم کا طویل سفر ہے جو اب ہم نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات ہمیں پل پل اُس کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ کسی کی سالگرہ آتی ہے تو اُس کی سالگرہ کی تقریبات کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ عید کا دن آتا ہے تو ہم اُس کے ساتھ گزاری عیدوں کے لمحات میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اولاد کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں‘ اُس نے کب بولنا شروع کیا، پہلا لفظ کیا بولا تھا، کب کیا مانگا تھا، کب دھیرے دھیرے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کیا، کب چلنا شروع کیا، یہ سب واقعات ایک مکمل فلم کی طرح چلتے رہتے ہیں۔
ہماری یادوں کی پٹاری میں پہلی اولاد کا قیمتی وجود تھا جو بہت جلد ہم سے چھن گیا۔ اس زمین پر اُس کا وقت شاید کم تھا، لیکن اُس نے ہماری زندگیوں پر جو اثر چھوڑا‘ وہ بے حد گہرا ہے۔ جب کبھی ہم ماضی کی یادوں کو کریدتے ہیں تو اُس کے ساتھ گزری ہر ایک یاد زندہ ہو جاتی ہے اور یوں خوشی اور محبت سے بھری زندگی کی ایک واضح تصویر اُبھر آتی ہے۔شروع دن سے ہی اُس کی موجودگی نے ہماری دنیا کو روشن رکھا۔ پہلی بار جب میں نے اُسے اپنی بانہوں میں لیا تھا تو اُس کی معصوم آنکھوں میں میرے لیے بے پناہ محبت تھی وہ مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا۔اُس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میرے اور اُس کے درمیان انتہائی غیر معمولی قسم کا تعلق ہے۔ اُس کی ہنسی موسیقی کی طرح لگتی تھی اور اُس کا بے ساختہ کھلکھلانا ہمارے لیے ایک ایسا راگ تھا جو ہماری تاریک راتوں کو روشن کر سکتا تھا۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوا، اُس نے اپنے شوق اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ظاہر کیا۔ وہ فٹ بال کھیلتا تھا اور خوب کھیلتا تھا۔ اُسے فٹ بال کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی کا بھی جنون تھا۔ وہ جو بھی کام کرتا تھا اُس کی روح اُس میں جھلکتی تھی۔ وہ سب سے پیار کرتا تھا اور اُس کے اندر لوگوں میں مقبول ہونے کی فطری صلاحیت تھی۔ وہ بہنوں کا محافظ‘ دادا کا لاڈلا اور خاندان میں ہردل عزیز بچہ تھا۔ وہ ہماری پہلی اولاد اور پہلا بیٹا تھا۔ ہر کوئی پہلی اولاد کا دم اس لیے بھرتا ہے کہ پہلا بچہ مرد اور عورت کی زندگی میں گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ پہلا بچہ عورت اور مرد میں والدین ہونے کا احساس جگاتا ہے۔ پہلی اولاد والدین کی تمام خوشیوں اور اُمیدوں کی محور ہوتی ہے۔
ہمارے پاس اُس کی جو یادیں ہیں وہ خوبصورت لمحوں کا ایک موزیک (Mosaic) ہیں۔ جب ہم ہنسی بانٹتے تھے تو وہ مسکراتا تھا۔ جب ہم پریشان ہوتے تھے تو ہماری پریشانی بھانپ لیتا تھا۔ سونے سے پہلے وہ اپنی ماں کے ساتھ سرگوشی میں گفتگو کرتا تھا اور اپنے خواب بانٹتا چلا جاتا تھا۔ وہ میرا بیٹا نہیں‘ دوست تھا جو اب نہیں رہا۔ اب زندگی ایک عجب موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر ہماری ڈھارس بندھ جاتی ہے کہ روشن ترین ستارے مختصر وقت کے لیے چمکتے ہیں۔ وہ بھی ایک انتہائی روشن ستارہ تھا جس کا وقت بہت مختصر تھا۔ وہ رخصت ہوا تو ہماری دنیا بالکل مختلف ہو کر رہ گئی۔ وہ ہماری زندگی میں کبھی نہ پُر ہونے والا خلا ہے مگر وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے شعور اور لاشعور میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔ مستقبل جو کبھی بہت اُمید افزا ہوا کرتا تھا‘ اب ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔ زندگی ایک ایسا کینوس ہو کر رہ گئی ہے جس پر بننے والی تصویر میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جائے۔ ہماری زندگی کی یہ تصویر شاید اب کبھی مکمل نہ ہو پائے گی۔
سات سال ہوتے ہیں‘ راجہ عمر کی آنکھوں کی شرارت اور آواز کی کھنک گم ہو چکی ہے۔ اس کی آنکھیں اور اس کی آواز اب ویسے نہیں رہی‘ جو شاید کبھی ہوا کرتی تھی۔ گو زندگی کا پہیہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے اور زندگی کے معمولات بھی اپنی ڈگر پر لوٹ جاتے ہیں مگر اولاد کا دُکھ محرومی کے دائمی احساس کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یہ ایک کربِ مسلسل ہے جو تسلسل کے جاری ساتھ رہتا ہے۔ راجہ کے دُکھ کا مداوا اس لیے ممکن نہیں کہ اب اس کی زندگی دوبارہ ویسی نہیں ہو سکتی جیسی اکتوبر 2016ء سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ راجہ عمر کے دُکھ کا مداوا اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کہ زندگی ایک حقیقت ہے اور موت اُس سے بڑی حقیقت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں