جہاں ہر پتھر کہانی سناتا ہے

پاکستان میں چین، کمبوڈیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، نیپال، سری لنکا، میانمار اور ویتنام کے انتہائی قابلِ احترام مذہبی رہنمائوں اور روحانی پیشوائوں کی بڑی تعداد میں موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان میں موجود گندھار ا تہذیب کے مقامات کتنی اہمیت کے حامل ہیں اور بدھ مت کے پیروکار پاکستان میں موجود بدھ مت کے قدیمی آثار میں کتنی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں بدھ مت کے مذہبی رہنمائوں کا احترام اور ان کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کی حکمت، دانش اور بصیرت سے استفادہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہ نہایت اہم اور قابلِ احترام لوگ دنیا بھر میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت ورثے کے سفیر گردانے جا سکتے ہیں۔ بڑی تعداد میں بدھ مت کے پیروکار، روحانی پیشوا، دانشور اور محققین تین روزہ گندھار سمپوزیم 2023ء میں موجود تھے جو گندھارا سیاحت کے لیے قائم وزیراعظم ٹاسک فورس، انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد اور ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم، خیبر پختونخوا کے اشتراک سے اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سمپوزیم کا مقصد پاکستان میں موجود گراں قدر گندھارا تہذیب اور بدھ مت مذہب ورثے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے کوشش کرنا تھا۔
گندھارا تہذیب‘ تہذیبوں کے کسی بھی متلاشی کے لیے حیرت کی ایک نئی دنیا کے دروازے کھولتی ہے۔ گندھارا تہذیب بدھ مت آرٹ اور فلسفے کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے جانی جاتی ہے۔ بدھ مت کی تعلیمات بھائی چارے کے فروغ، امن، سماجی ہم آہنگی اور روشن خیالی کی دعوت پر مبنی ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ پاکستان میں گندھارا تہذیب ایک دلفریب دنیا ہے جو وقت اور تاریخ کی حدود سے ماورا ہے۔ گندھارا تہذیب اپنے شاندار فنِ تعمیر کے ساتھ دریافت ہوئی اور آج پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔ یہ تہذیب صدیوں پرانے عظیم ثقافتی اور مذہبی پہلوئوں کی عکاس ہے۔ گندھارا تہذیب وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر خوبصورت روایات کے امتزاج کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی اور ہمیں مختلف ثقافتوں اور روایتوں کی تحقیق اور تفہیم کی دعوت دیتی ہے۔ گندھارا اپنے دورِ عروج میں علمی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا ہے اور ٹیکسلا جیسی مشہور اور قدیم ترین یونیورسٹی کی میزبانی کرتا رہا ہے جہاں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے محقق اور دانشور علم و دانش کے حصول کے لیے جمع ہوتے تھے۔
سمپوزیم جیسے پلیٹ فارم کے ذریعے‘ جس میں دنیا بھر سے روحانی پیشوا، پیروکار اور محققین شریک ہوں‘ ہم گندھارا تہذیب کے ثقافتی ورثے، قدیم ایشیائی متنوع تہذیبوں اور گندھارا کو بدھ مت کے ایک بڑے مرکز کے طور پر اجاگر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجود ان کے قدیمی آثار کو بھی بڑے پیمانے پر متعارف کرا سکتے ہیں جو بدھ مت کی ثقافت کی صیح معنوں میں عکاسی کرتے ہیں۔ ایسی فکری نشستوں کی بدولت ہم گندھارا کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے احسن اقدامات کو بھی اجاگر کر سکتے ہیں اور ان کی تاریخی اہمیت کے بارے میں آگاہی کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ گندھارا تہذیب پر علمی تحقیق جاری ہے۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے لیے آج بھی ان تہذیبوں کو دریافت کرنا اور ان کو محفوظ کرنا انتہائی اہم ہے۔
اس ضمن میں ماہرین میں خیالات کا تبادلہ، تہذیبوں کی دنیا سے وابستہ لوگوں سے جڑنے، گندھارا کے ورثے کو اپنانے، اس کے چیلنجز سے نمٹنے اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے جدوجہد بہت اہم ہے جہاں گندھارا تہذیب کی عکاسی ہوتی ہو۔ ہماری آنے والی نسل کے لیے بھی یہ اہم ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ ان کے ملک میں کیسے کیسے انمول اور گراں قدر تہذیبی ورثے موجود ہیں جن سے نہ صرف ہماری تہذیب، ثقافت اور روایات منسلک ہیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے ہماری معیشت بھی ان سے جڑ سکتی ہے۔ ایسی تقریبات محض علمی اجتماع نہیں ہوتیں بلکہ غیر معمولی تہذیبی اثاثوں کی اہمیت اجاگر کرنے اور ان کو فروغ دینے کا ایک موقع بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے متنوع ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے کوشش کریں اور پاکستان کی ثقافتی سفارتکاری کو تقویت دیں جو پاکستان میں سیاحت بالخصوص مذہبی سیاحت کو فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔
گندھارا تہذیب کا ایک نمایاں پہلو اس کی فنکارانہ تخلیقی صلاحیت ہے۔ گندھارا تہذیب کے دریافت ہونے والے بدھ مت سے نسبت رکھنے والے شہروں میں پینٹنگز، مجسمہ سازی، سکے، مٹی کے برتنوں پر نقش نگاری جیسی صنعتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ٹیکسلا شہر‘ جو گندھارا تہذیب کا اہم مرکز ہے‘ ایسی ہی صنعت کے مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ گندھارا کے مقدس مقامات، مجسمے اور نمونے صرف ماضی کے آثار ہی نہیں بلکہ وہ دنیا بھر سے آنے والے پیروکاروں کے لیے روحانی آسودگی کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں اور سیاحوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
سمپوزیم میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ پاکستان میں گندھارا تہذیب کے بدھ مت ورثے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا ذرائع کو بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گندھارا تہذیب کے حوالے سے ایک جامع اور آن لائن موجودگی کی ضرورت ہے جو اس تہذیب اور بدھ مت کے ورثے کی مکمل عکاس ہو جس سے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہماری ثقافتی میراث کو دریافت کرنے اور جاننے کا موقع ملے۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا تہذیبی ورثہ محض ماضی کے آثار کی صورت میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو ایک پُرامن روشن مستقبل کی جانب ہمارے راستے کو روشن کر سکتی ہے۔ اپنے ورثے کی حفاظت اور اسے فروغ دے کر ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل کے پاس تعمیر کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد موجود ہے۔ گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے ورثے کو اجاگر کرنا ایک ایسی ہی کوشش ہے جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی اشتراک کی ضرورت ہے۔ اپنے ورثے کو محفوظ رکھنا، اپنے ملک میں سیاحت اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا، جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا، اور عالمی برادری کے ساتھ ربط برقرار رکھنا ایسے اقدامات ہیں جن سے ہم اپنی تہذیبی روح کو زندہ کر سکتے ہیں اور اپنے ثقافتی ورثے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یہ ثقافتی سفارتکاری امن اور افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے ہمارے عزم کا ثبوت بھی ہے۔
پاکستان میں حکومتی سطح پر گندھارا تہذیب سے متعلق کام تندہی سے ہو رہا ہے جس سے متعلق عمومی آگاہی بہت ضروری ہے۔ گندھارا تہذیب کے آثار بڑے پیمانے پر خیبر پختونخوا میں موجود ہیں اور اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالصمد کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ ڈاکٹر عبدالصمد ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم خیبر پختونخوا کے بہت محنتی ڈائریکٹر اور زیرک محقق ہیں۔ خیبر پختونخوا میں موجود تمام آثارِ قدیمہ کی منظم دیکھ بھال ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تین روزہ سمپوزیم اختتام پذیر ہو گیا لیکن ہمارے لیے سوچنے اور کرنے کو بہت کچھ چھوڑ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اکٹھ مستقبل قریب میں کیے جانے والے کچھ سنجیدہ اور اہم اقدامات کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک گندھارا سیاحت فورم تشکیل دینا چاہیے جو فوری، درمیانی مدت اور طویل مدت کے لیے اقدامات تجویز کرے اور یہ تجاویز گندھارا سے جڑے مذہبی، معاشی، ثقافتی اور معاشی پہلوئوں سے متعلق ہوں۔ میں گندھارا سمپوزیم کا حصہ رہا ہوں اور کئی ہفتوں سے ایک خوبصورت جملہ پڑھ اور سن رہا ہوں۔ گندھارا: جہاںہر پتھر کہانی سناتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب ہر پتھر کہانی سنا رہا ہے‘ سنانا چاہتا ہے تو ہم یہ کہانی سنتے کیوں نہیں ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں