فرض

دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن یادوں کے دریچے سے واقعات بالکل تازہ دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئٹہ سے چمن جاتے ہوئے ہم کھوجک ٹنل کے دہانے پر کھڑے تھے۔ کھوجک ٹنل کوئٹہ سے 100 کلومیٹر دور اور پاک افغان سرحدی شہر چمن سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر شیلا باغ کے مقام پر واقع ہے۔ یہ وہی کھوجک ٹنل ہے جس کے ساتھ میری عمر کے لوگوں کی یادیں اس طرح بھی وابستہ ہیں کہ اِس ٹنل کی تصویر پانچ روپے کے کرنسی نوٹ پر ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت تک کھوجک ٹنل ہی پاکستان میں سب سے لمبی سرنگ تھی۔ کھوجک ٹنل برطانوی دور میں تعمیر کیے گئے بہت سے منصوبوں میں ایک اچھوتا منصوبہ تھا اور بلاشبہ یہ ٹنل آج بھی انجینئرنگ کا ایک شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے انجینئرنگ کے اِس عظیم شاہکار کی حقیقت کو تسلیم کیا اور 1976ء میں کھوجک ٹنل کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر چھپنا شروع ہو گئی جو 2005 ء تک رائج رہا۔
کھوجک ٹنل کی تاریخ ا نگریز سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کی تائید کرتی ہے کہ جب انگریز سامراج کو انیسویں صدی عیسوی میں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ روس افغانستان سے قندھار کے راستے خطے میں داخل ہو سکتا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ قندھار تک ریل کی پٹڑی بچھائی جائے تاکہ افواج کی نقل وحرکت کے لیے ریلوے کو استعمال میں لایا جا سکے۔ افغانستان تک رسائی کے لیے انگریزوں کو 2290 میٹر بلند درۂ کھوجک کو عبور کرکے جانا پڑتا تھا‘ اس لیے انہوں نے افغانستان کو ریل سے منسلک کرنے کے لیے 1888ء میں 3.9 کلومیٹر طویل سرنگ کی تعمیر شروع کی۔ یہ سرنگ 1891ء میں مکمل ہوئی‘ یوں تین سال کے عرصے میں اِس پر دن رات کام ہوتا رہا۔ درے کی مناسبت سے سرنگ کا نام بھی کھوجک ٹنل رکھا گیا جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔ اس سرنگ کی تعمیر کے بعد شیلا باغ سٹیشن تعمیر ہوا جہاں ریل کی پٹڑی کوئٹہ سے آتے ہوئے کھوجک ٹنل کو پار کرتی ہے اور چمن تک جاتی ہے۔ لیکن حالات یا قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ انگریز سرکار کے افغانستان تک پہنچنے کے توسیعی عزائم کے باوجود ریل کی پٹڑی چمن سے آگے نہیں بچھائی جا سکی۔
دو دہائیاں ہوتی ہیں‘ میں اپنے ایک دوست کی دعوت پر شیلا باغ میں تھا اور پھر اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کھوجک ٹنل کے دہانے پر کھڑا تھا۔ سخت سرد موسم میں یخ بستہ ہوائیں جسم کے آر پار ہو رہی تھیں۔ ٹنل کے اندر سے بھی ایسی سرد ہوا آ رہی تھی کہ اس کے دہانے پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا لیکن ٹنل کا سحر و دبدبہ ایسا تھا کہ ہم اس کے دہانے پر دم بخود کھڑے تھے۔ ہمارا گائیڈ جمال خان بہت باتونی آدمی تھا۔ وہ مسلسل بولے جا رہا تھا، اُس کے پاس شیلا باغ اور کھوجک ٹنل سے متعلق سنانے کو درجنوں دیومالائی کہانیاں تھیں۔ ایسی دیو مالائی کہانیاں‘ جن کا عقل کی بنیاد پر تسلیم کیا جانا بہت مشکل تھا۔ اُس کی باتوں میں عجیب سوال تھے اور پھر خود ساختہ جواب تھے۔ شیلا کون تھی؟ شیلا واقعی ایک رقاصہ تھی؟ وہ کہاں سے آئی تھی؟ وہ یہاں کیوں آئی؟ اُس نے رقص کہاں سے سیکھا؟ وہ کس کے حکم پر رقص کرتی تھی؟ شیلا رقص کرنے کا کیا معاوضہ لیتی تھی؟ سرنگ کی تعمیر میں جنوں کا کیا کردار تھا؟ جن کس کے حکم پر کام کرتے تھے؟ انگریز انجینئرکون تھا؟ اُس کے روز و شب کے کیا معمولات تھے؟ جمال خان کی سب متاثر کن اور دل کو چھو جانے والی کہانی انجینئر کی ٹنل کے مکمل ہونے سے ایک دِن قبل کی جانے والی اچانک خود کشی سے متعلق تھی۔ یہ واحد کہانی تھی جو حقیقت کے قریب محسوس ہوتی تھی اور دوسری کہانیوں سے کم دیو مالائی لگتی تھی۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ کھوجک ٹنل کی کھدائی کا کام ایک برطانوی انجینئر کو تفویض ہوا۔ وہ ایک منجھا ہوا پیشہ ور انجینئر تھا۔ اس کے پلان کے مطابق ٹنل کو دونوں اطراف سے بیک وقت کھودنا شروع کیا جانا تھا تاکہ کھدائی کا کام سرعت سے انجام پا سکے۔ یوں اس کے منصوبے کے تحت ٹنل پر دونوں اَطراف سے بیک وقت کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ ماہ و سال گزرتے گئے اور وہ شب و روز کام کرنے والے مزدوروں کے درمیان رہا اور کھدائی کے کام کی نگرانی کرتا رہا۔ کام انتہائی مشکل نوعیت کا تھا کیونکہ اُس وقت تک انجینئرنگ کے شعبے میں جدید مشینری متعارف نہیں ہوئی تھی اور مزدوروں کو زیادہ تر کام اپنے ہاتھ سے کرنا پڑتے تھے۔ لوگ پتھر کے پہاڑ کو کھودنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ سینکڑوں جانیں ضائع ہو رہی تھیں۔ تین سال بعد جب لوگ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ کسی وقت بھی ٹنل دونوں اَطراف سے مل جائے گی تو انجینئر کو سنگین غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے اور اب ٹنل دونوں اطراف سے مل نہیں پائے گی اور یوں اُس کی تین سال کی ان تھک محنت اور اتنے مزدوروں کی جانوں کی قربانی کے باوجود اُس کا عظیم منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔ انگریز انجینئر کی متوقع ناکامی نے اُسے کرب اور تذبذب کی کیفیت سے دوچار کر دیا۔ ایک رات انجینئر نے نوٹ لکھا ''میں نے اتنے بڑے کام کے لیے ہزاروں لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا‘ سینکڑوں لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ دونوں اطراف سے ٹنل کے ملنے کا میرا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور میں ایک سنگین جرم کا مرتکب ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے جینے کا کوئی حق نہیں‘‘ اور یوں اس نے زندگی کا اچانک خاتمہ کر لیا۔
انگریز انجینئر نے اپنے مشن میں ناکامی پر شرمندگی کے ساتھ جینے کے بجائے خودکشی کا راستہ چن لیا مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ انجینئر کی موت کے اگلے دن مخالف سمتوں سے کھودی جانے والی دونوں سرنگیں حیرت انگیز طور پر آپس میں مل گئیں۔ کھوجک ٹنل کی تعمیر مکمل ہو گئی اور ایک بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا مشن مکمل ہو گیا۔ اگرچہ انگریز انجینئر اپنا خواب پورا ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکا لیکن اُس کی ٹنل آنے والی دہائیوں تک کے لیے ایک شاہکار قرار پائی۔ کھوجک ٹنل کے انجینئرکی کہانی نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی اور سو سال گزر جانے کے بعد اب ہمارا گائیڈ جمال خان اُس کی کہانی ایسے سنا رہا تھا جیسے یہ سب اُس کا آنکھوں دیکھا حال ہو۔
اگلے دِن جب ہم لوٹ کر کوئٹہ آ رہے تھے تو انگریز انجینئر کی کہانی ہر ایک کی سوچ کا محور تھی۔ انگریز انجینئر اپنے گھر سے ہزاروں میل دُور پرائے دیس میں ایک اجنبی تھا۔ وہ ایک عجیب شخص تھا کہ اُس وطن سے وفا کی جو درحقیقت اُس کا وطن ہی نہیں تھا اور اُن لوگوں سے محبت کی جو اُس کے اپنے لوگ ہی نہیں تھے۔ اُس نے فرض میں کوتاہی جیسی ندامت کو گوارا نہ کیا اور شرمندگی کے ساتھ جینے پر موت کو ترجیح دی۔ اس عظیم انجینئر نے فرض شناسی اور اپنے عظیم مقصد سے دِلی وابستگی کی اعلیٰ مثال چھوڑی اور ہم جیسے لوگ جو بددیانتی، بدعہدی، بدانتظامی اور بدنیتی جیسے خصائل کے حامل ہیں‘ انہیں اس انجینئر نے واضح پیغام دیا کہ قوموں کی تعمیر کے لیے مثالی کردار کا حامل ایک شخص بھی بہت ہوتا ہے۔ انگریز انجینئر نے اپنی ذات سے زیادہ اپنے مشن کو ترجیح دی اور اپنے فرض کے ساتھ والہانہ محبت کی۔ یہی وجہ ہے کہ سو سال بعد بھی اُس کے نام کی گونج شیلا باغ میں واضح سنائی دیتی ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کھوجک ٹنل کے انجینئر نے اپنے مقصد اور فرض سے وابستگی کی ایک ایسی نظیر چھوڑی ہے جو ہماری سطحی سوچ سے بہت بلند ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ فرض سے بے انتہا محبت کے اعتبار سے انگریز انجینئر ہمارے لیے ایک قابلِ تقلید مثال چھوڑ گیا ہے۔ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ معروضی حالات میں ہمیں انگریز انجینئر کی سطح پر پہنچنے کے لیے کئی سال بلکہ دہائیاں درکار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں