تحقیقی و تخلیقی زاویے

یہ شاید ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کتاب سے کوسوں دُور ہوتے جا رہے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جدید دور کی بہت سی قباحتوں کے زیرِ اثر کتاب کے ساتھ بھی ہمارا رشتہ آخری دَموں پر ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کتاب سے دوری ہمارے علمی، اخلاقی اور تہذیبی زوال اور تباہی کی ایک بڑی اور نمایاں وجہ ہے۔ مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ ہمیں اِس علمی، اخلاقی اور تہذیبی تنزلی کو فوری طور پر روکنے کے لیے کوئی حل بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک بات بہرحال اُمید افزا ہے کہ کتاب سے قومی سطح کی لاتعلقی اور بیزاری کے باوجود پاکستان میں لکھنے والے ادیب اور شاعر اپنے حصے کا چراغ جلا رہے ہیں۔ بھلے ایک چھوٹا سا طبقہ ہی اِس میں کردار ادا کر رہا ہے لیکن بہرحال ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ ایسا ادب‘ جو کسی نہ کسی طور ہمارے معاشرے کے تغیرات، ارتقا اور قومی زندگی کی بہت سی جہتوں پر محیط ہے اور کتابوں کی صورت میں ایک دستاویز کے طور پر محفوظ بھی ہو رہا ہے۔
''تحقیقی و تخلیقی زاویے‘‘ ڈاکٹر نثار ترابی کی تصنیف ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی یہ کتاب اسّی کی دہائی میں لکھے جانے والے ادبی فن پاروں پر تحقیقی اور تخلیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو اپنے وقت کے مستند و معتبر علمی و ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے جن میں فنون، افکار، ماہ نو، مخزن، ادبیات اور چہار سو جیسے علمی اور ادبی رسائل شامل ہیں۔ ڈاکٹر نثار ترابی اردو ادب کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد شناحت رکھتے ہیں‘ انہوں نے اردو غزل کے عصری رویے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ایچ ای سی کے منظور شدہ اردو مجلات میں ڈاکٹر صاحب کے متعدد تحقیقی اور تنقیدی مقالات کے شائع ہونے کے علاوہ تحقیق و تدوین کا بھی بہت کام ان کے کریڈٹ پر موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک خوبصورت شاعر ہیں اور 'ہر صدا مسافر ہے‘، 'بارات گلابوں کی‘ اور 'اپنی چھاں دا سیک‘ جیسے خوبصورت شعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔
تحقیقی و تخلیقی زاویے میں شامل مضامین شاعری اور دوسرے ادبی موضوعات پر مختلف علمی اور ادبی مباحث کا احاطہ کرتے ہیں۔ کتاب میں جانی پہچانی ادبی شخصیات کی تخلیقات کا حوالہ بھی ہے اور معاصر ادب کا ایک عمیق جائزہ بھی۔ کتاب میں میں مصنف کی طرف سے لکھے گئے پیش لفظ اور دو نہایت معتبر ادبی شخصیات کی رائے کا ذکر بھی اہم ہے کہ یہ کتاب کے مندرجات کے بارے انتہائی مناسب تبصرہ ہے۔
پیش لفظ میں ڈاکٹر نثار ترابی لکھتے ہیں ''یوں تو میرے تنقیدی مطالعات کا حصہ بن جانے والی تحریروں کا تسلسل ہر دو عہد سے جڑے ہوئے ہوئے شعرا اور ادبا کے فنی امتیازات کو یکجا کرتا ہے؛ تاہم میں نے ان تخلیق کاروں کی شعری و نثری کاوشوں پر خامہ فرسائی کی ہے جن کا تعلق میرے قریبی معاصر ادبی عہد سے ہے۔ کارِ ادب سے میری ابتدائی جڑت تخلیقِ شعر کے وسیلے سے ہوئی۔ حقیقی تخلیق ہی کو وجہ شہرت و عزت سمجھنا میری اولین ادبی ترجیح رہی ہے۔ میرے کائناتی و کتابیاتی مطالعے اور ذاتی مشاہدے کی روشنی میں یقینی طور پر میرا تنقیدی شعور بھی ارتقا پذیر رہا۔ سو میں نے جب کلاسیکی اور معاصر عہد سے تعلق رکھنے والے دیگر شاعروں اور ادیبوں کی تحریروں پر نقد و نظر کے تعلق سے قلم اٹھایا تو میری تنقید میں کسی فن پارے کے حوالے سے تخلیقی بازیافت کے عمل اور اس کے متن میں پوشیدہ معنوی امکانات کی تلاش و جستجو کو نمایاں حیثیت حاصل رہی‘‘۔
پروفیسر فتح محمد ملک کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ڈاکٹر نثار ترابی بیک وقت ایک دِل نواز شاعر اور گہری نظر رکھنے والے نقاد ہیں۔ اردو غزل پر انہوں نے جتنا عمدہ تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے وہ بہت کم نقادو ں کے حصے میں آیا ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ مصنف کا ایک قابلِ قدر تحقیقی اور تخلیقی کام ہے۔ ڈاکٹر رفیق سندیلوی لکھتے ہیں: ڈاکٹر نثار ترابی کی کتاب ایک عملی نقاد کے طور پر ان کی ادب فہمی اور فن شناسی کا ایک پیمانہ مہیا کرتی ہے۔ ناول ہو یا افسانہ، مثنوی ہو یا سفر نامہ، غزل ہو یا نظم، نعت ہو یا منقبت، تدوین ہو یا تحقیق و تنقید وہ اپنے مطالعے میں اِس کی روح کو مس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے تاثرات کو خوش اسلوبی سے ایک کارآمد مضمون کی شکل دے دیتے ہیں۔ ان کا تنقیدی رویہ ان کے فنی و فکری ذوق سے پھوٹتا ہے۔
مذکورہ کتاب میں تحقیق اور تخلیق کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ کتاب میں زیرِ بحث لائے گئے موضوعات میں 'نعت دریچہ: ایک تجزیاتی مطالعہ، مجید امجد: ایک مصور، انتظار حسین: ایک علامتی افسانہ نگار، شوکت صدیقی بطور ناول نگار، عبداللہ حسین کے نادار لوگ، اداریے کا قاسمی رنگ، خوش آب کی موجیں اور جوہرِ شیریں سخن، منظور جھلا: حیات و فن اور صفدر وامق، فتح محمد ملک: ادب میں فتح مندی کا امتیازی نشان، مظفر علی سید: ایک مطالعہ اور ڈاکٹر روبینہ شاہین، اسد جعفری: ایک ناقابلِ فراموش شاعر، ڈاکٹر عطش درانی: ایک بے بدل محقق، تخلیق کی منور راہوں کا راہی، شاداب احسانی: غزل کا ایک منفرد شاعر، گ سے گڑیا ج سے جاپا نی، ہوا کا سمند اور تخلیق کا سمندر، اظہر غوری کی غیر مشروط محبت، کنارِ خواب کا تشنہ مسا فر، سیڑھیوں والا پل اور حمید قیصر، اردو مثنوی کتاب نامہ کا تجزیاتی مطالعہ، جاگے ہیں خواب میں، چینی ادب اور تین سلطنتوں کی داستان، اور فنِ تدوین: مباحث اور مسائل پر ایک نظر‘ جیسے مضامین شامل ہیں۔ یہ موضوعات گزشتہ چار دہائیوں سے ادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر اضافہ کرنے والے شاعروں اور ادیبوں کے کام کے حوالے سے ایک منفرد اور مستند کام ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے ڈاکٹر نثار ترابی شاعری افسانہ اور دوسرے ادبی موضوعات پر مختلف علمی اور فکری مباحث کا احاطہ کرتے ہیں اور مختلف زاویوں سے ادبی پاروں کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان کے ہمہ جہت پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں کہ ان کے مضامین میں مختلف قد و کاٹھ کی ادبی شخصیات کی تخلیقات کا حوالہ بھی ملتا ہے اور معاصر ادب کا ایک عمیق جائزہ بھی! چونکہ کتاب میں شامل چند مضامین 80ء کی دہائی میں لکھے گئے اِس لیے مضامین میں تنوع اور لکھنے والوں کی دو نسلوں سے تعلق رکھنے والے شعرا اور ادبا کے فکری زاویے اور عمومی سوچ میں ارتقائی عمل کا اشارہ ملتا ہے اور ڈاکٹر ترابی نے اپنے مضامین میں اِن کا تفصیل سے ذکر بھی کیا ہے۔
میں ڈاکٹر صاحب کی اِس بات سے متفق ہوں کہ ادبی کام تخلیق، تحقیق اور تنقید کے تکونی زاویے کے اندر آتا ہے جس میں تخلیق کو بہرحال فوقیت حاصل ہے۔ اور اگر تخلیق نہ ہو تو تحقیق اور تنقید کے زاویے ابھرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ تحقیق و تنقید سے کچھ ایسے پہلو بھی اجاگر ہو تے ہیں جو عام قاری سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ میری نظر میں ڈاکٹر نثار ترابی کی یہ تصنیف لکھنے اور پڑھنے والوں کے لیے ایک اہم علمی اور تحقیقی دستاویز ہے جس سے ادب کے طالبعلم بہرہ مند ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب اِس تصنیف کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نئے لکھنے والوں کے لیے نئی راہیں کشادہ کی ہیں، نئے دریچے کھولے ہیں اور نئے زاویے متعارف کرائے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں