اوکھیاں راہواں

غم کی رات بیت رہی ہے اور میں ہوں کہ ماضی کی یادوں میں الجھا ہوا‘ واپسی کا راستہ تک بھول گیا ہوں۔ کئی دہائیوں قبل گائوں کی پگڈنڈیوں پر ہنستا، مسکراتا اور چہچہاتا ایک جوڑا آج بھی میرے تخیل میں پھولوں کی مانند تر و تازہ ہے۔ اگر میری یادداشت صحیح طرح سے کام کر رہی ہے تو یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ وہ خوبصورت جوڑا ہمیشہ موسمِ گُل ہی میں گائوں میں نظر آتا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ وہ کبھی خزائوں میں یا پت جھڑ کے اُداس موسموں میں گائوں آیا ہو۔ وہ جب گائوں میں ہوتا تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے دونوں کسی رومانوی فلم کی عکس بندی کے لیے گائوں آئے ہیں۔ کھیتوں‘ کھلیانوں میں اور پگڈنڈیوں پر وہ ایسے گھوم پھر رہے ہوتے جیسے نئے نویلے دلہا دلہن شادی کے بعد فوٹو سیشن کے لیے نکلے ہوں۔ یہ جوڑا میرے والد کے فرسٹ کزن اور اِس نسبت سے میرے چچا نصیر اور اُن کی بے حد ملنسار اور خوبصورت اہلیہ چچی طاہرہ پر مشتمل تھا۔ میں نے تمام عمر ایسا متاثر کرنے والا جوڑا اور پہلی ہی ملاقات میں دل موہ لینے والے ایسے لوگ نہیں دیکھے۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں خوب سیرت بھی تھے۔ اُس وقت ہر گھر میں ٹنگی اُن کی تصویر اُن کی شخصیت کی خوبصورتی کی غماز تھی۔ چچا نصیر انگلینڈ میں مقیم تھے اور گاہے گاہے پاکستان آتے رہتے تھے۔ لیکن جب بھی وہ پاکستان آتے تو گائوں سے خصوصی محبت کی وجہ سے وہ اپنا زیادہ وقت گائوں ہی میں گزارتے۔
میری طرح اُنہیں بھی گائوں بہت اچھا لگتا تھا اور اُن کا گائوں سے شدید محبت کا رشتہ تھا۔ اپنی اسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُنہوں نے گائوں میں ایک گھر بھی تعمیر کیا تھا اور اِس ارادے سے تعمیر کیا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ سے واپس آ جائیں گے اور یہیں پر مستقل قیام کریں گے۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی گائوں میں گزارنے کا پلان بنا رکھا تھا۔ میں جب بھی گائوں جاتا اور وہ گائوں میں موجود ہوتے تو میں اُن کے ساتھ اُن کے گھر میں پہروں گزار دیتا اور اس دوران ہماری خوب گپ شپ رہتی۔ وہ اپنے گھر کے کھلے صحن میں بیٹھے بہت مسرور دکھائی دیتے۔ بات چیت میں وہ انگلینڈ کا‘ اپنے ماضی کا ذکر تو کرتے تھے لیکن زندگی سے کبھی کوئی شکایت‘ کوئی شکوہ نہیں کرتے تھے۔ اُن کی زبان پر ماضی کے حوالے سے کبھی کوئی گلہ نہیں آتا تھا۔ وہ ماضی کے ساتھ بندھے تو ہوئے تھے لیکن وہ ماضی میں رہ جانے والے آدمی نہیں تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے بہت محنت اور سخت جدوجہد کی تھی اور وہ اس پر اب پوری طرح مطمئن تھے۔
میں جب منگلا میں تعینات تھا تو ایک دن اُن کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ میں نے تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: چچا جان! میرے لیے یہ یقینا بہت خوش قسمتی کی بات ہو گی کہ آپ میرے پاس آ کے ٹھہریں، میں آ پ کا انتظار کروں گا۔ اگلے روز شام کو وہ منگلا پہنچ گئے لیکن میری توقع کے برعکس اس بار وہ چچی جان کے بغیر ہی آ گئے جو میری اہلیہ کے لیے بھی حیران کن تھا۔ میں نے پوچھا: چچی جان کہاں ہیں؟ کہنے لگے کہ اِس بار میں تمہاری چچی کے بغیر ہی پاکستان آیا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ آج اُن کی شادی کی سالگرہ ہے۔ میں نے فوری طور پر اپنی بیگم کو‘ جو چچا نصیر کی ماموں زاد بھی ہیں‘ شادی کی سالگرہ کے حوالے سے انتظامات کرنے کا کہا اور پھر ہم نے اس مختصر سے وقت میں تھوڑا بہت ارینج کر کے اُن کی شادی کی سالگرہ منائی۔
رات کو ڈنر کے لیے میں اُنہیں منگلا جھیل کے کنارے واقع ایک ریستوران میں لے گیا۔ ڈنر کے بعد ہم دونوں دیر تک جھیل کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھے محوِ گفتگو رہے۔ یہ پورے چاند کی رات تھی۔ میں اور چچا نصیر جھیل کے کنارے رکھے بینچ پہ بیٹھے زندگی کی کہانی کی ڈور کے اُلجھے ہوئے سرے تلاش کر رہے تھے۔ اُن کی دھیمی دھیمی آواز جھیل کی خاموشی میں ایک عجب سماں باندھ رہی تھی۔ اُن کی کہانی دُکھ اور محرومی کے احساس سے عبارت نظر آ رہی تھی۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب وہ زندگی کے سفر پر نکلے تو ''اوکھیاں راہواں‘‘ ان کی منتظر تھیں۔ سفر خوشگوار نہیں تھا بلکہ نامساعد اور کٹھن حالات درپیش تھے۔ اُنہوں نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا، اپنی والدہ کا ذکر کیا اور پھر رندھی ہوئی آواز میں ماں کی محبت سے محرومی کا ذکر کیا۔ اِس سے پہلے اُنہوں نے اپنے بچپن کی ایسی یادوں کا کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا، اور اگر کبھی کیا بھی تو کم از کم میرے سامنے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب اُن کو ایک خوش باش آدمی سمجھتے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اُن کی زندگی کی کہانی میں ایسا دکھ اور ایسی محرومیاں بھی چھپی ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کیسے پردیس کے سفر پہ روانہ ہوئے اور برطانیہ جا کر وہیں آباد ہو گئے۔ برطانیہ میں اُن کی زندگی کی جدوجہد ایک نیا موڑ لیتی ہے اور وہ محنت اور مشقت کی چکی سے گزرتے ہیں۔ برطانیہ میں زندگی گزارنے کے باوجود اُنہوں نے پاکستان میں رہنے والے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ناتا کبھی نہیں توڑا۔ وہ وقفے وقفے سے پاکستان آتے رہے اور اپنے سارے عزیزوں کا خیال کرتے رہے اور تواتر سے محبتیں بانٹتے رہے۔ پھر وہ رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے اچانک رُک گئے۔ کافی دیر توقف کے بعد اُنہوں نے رشتوں سے بندھی اُمیدوں پر بات کرنا شروع کی۔ بہت سے رشتوں کی جفا کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کے رویوں کی وجہ سے وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ میں اُن کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ میرے لیے یہ سب باتیں حیران کن تھیں اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اُن کی اپنی زندگی کی کہانی خود اُن پہ آج ہی منکشف ہوئی ہے اور وہ یہ کہانی مجھے سناتے چلے جا رہے ہیں۔
رات کے دو بج چکے تھے اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ وقت اتنی تیزی سے گزر گیا۔ چچا نصیر کہنے لگے: مجھے پاکستان سے بہت پیار ہے‘ مجھے گائوں بہت پیارا لگتا ہے۔ میں جب گائوں جاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہاں ہر جگہ، ہر راستے اور ہر پگڈنڈی پر میری ماں کھڑی ہے یا ابھی ابھی وہ یہاں سے گزری ہے۔ میں جہاں جاتا ہوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہاں میری ماں کا سایہ ہے‘ جو میرے تعاقب میں ہے۔ مجھے بیٹھے بیٹھے یوں لگتا ہے کہ ابھی وہ کہیں سے اچانک آ جائے گی اور میرا ماتھا چومنے لگے گی۔ میں نے گائوں میں گھر اسی لیے بنایا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی باقی زندگی یہیں پر گزاروں۔ میں زندگی کے باقی دن اپنی ماں کی قربت کے احساس کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے ماں کی قبر کے نزدیک کہیں مٹی نصیب ہو جائے‘ مجھے اپنے وطن کی مٹی نصیب ہو جائے۔ چچا نصیر یہ کہہ کر خاموش ہو گئے اور مجھے لگا جیسے چودھویں کا چاند اور جھیل بھی نہایت انہماک سے ان کے جیون کی دُکھ درد بھری کہانی سن رہے ہیں۔ چچا نصیر کی کہانی کہیں درمیان میں ہی تھی کہ وہ اچانک اُٹھ کھڑے ہوئے اور گاڑی کی طرف چل پڑے۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دن خبر ملی کہ چچا نصیر طویل علالت کے بعد برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ اوکھی راہوں کے مسافر کی خاموشی سے دنیا کی بے ثباتی پر ایک اور مہر ثبت ہو گئی۔ غم کی رات بیت رہی ہے۔ میں ماضی کی یادوں میں اُلجھا واپسی کا راستہ تلاش کر رہا ہوں۔
دہائیوں پہلے گائوں کی پگڈنڈیوں پر ہنستا، مسکراتا اورچہچہاتا جوڑا آج بھی میرے تخیل میں تازہ ہے لیکن یادوں کے پردے پر نظر آنے والے دو خوبصورت انسانوں میں سے ایک بہت خوبصورت آدمی دُھندلا گیا ہے۔ اِس ساری کہانی میں میرا دُکھ یہ ہے کہ خاک اپنے خمیر تک نہ پہنچ سکی اور اوکھی راہوں کے مسافر کو وطن کی مٹی نصیب نہ ہو سکی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں