’’سر! جلدی ٹی وی لگائیں، دیکھیں کیا آرہا ہے، جنرل ضیا کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا ہے‘‘ MO سے ایک کرنل صاحب کا فون تھا۔ اکتوبر کی بارہ تاریخ 1999 کی شام، تقریباً پانچ بج رہے تھے، میں ابھی دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا۔ گیسٹ روم سے نکل کر اپنے نئے گھر میں آئے ہمیں شاید دو یا تین روز ہوئے تھے، سامان بھی پورا نہیں کھلا تھا۔ سوٹ کیسوں کو پھلانگتا ہوا فوراً واپس دفتر کی طرف بھاگا۔ جاتے ہوئے انجم سے کہا: ’’گیٹ بند کروا لو اور ہاں میرا لیپ ٹاپ بھائی کے گھر بھجوا دو‘‘۔ اس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ساری تفصیلات پر کام کیا تھا۔ نہ جانے آج کیا ہو گا۔ اگر ناکام رہا تو… ’’شاید آنے میں دیر ہو جائے… کہہ نہیں سکتا کتنی‘‘۔ انجم ان تمام باتوں سے ناواقف تھی۔ میں نے کبھی اسے اپنے کام میں نہیں الجھایا تھا۔ دفتر کے پیچ و خم سے دور ہی رہتی۔ مگر آج مجھے اس تیزی سے نکلتے دیکھ کر کچھ پریشان سی ہو گئی۔ گھبراتی تو وہ نہیں تھی، پھر اتنا عرصہ ساتھ رہ کر کچھ انجانے حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی اس میں پیدا ہو چکا تھا۔ وہ کچھ پوچھ رہی تھی لیکن میں نکل چکا تھا۔ یہی پوچھا ہو گا کہ کھانے کے وقت تک آجائیں گے نا؟ گھر پر کوئی گارڈ نہیں رکھتا تھا، اس وقت خیال آیا کہ حفاظتی انتظامات ہونے چاہئیں تھے۔ دفتر پہنچ کر جنرل عزیز کو فون کیا، پتا چلا کہ جنرل محمود ٹرپل ون بریگیڈ کو ’گو‘ دے چکے ہیں۔ کہنے لگے: تم باقی جگہوں پر کارروائی شروع کراؤ میں دفتر پہنچ رہا ہوں۔ سب سے اہم مسئلہ تو اسلام آباد اور راولپنڈی کا ہی تھا، ان میں ہونے والی کارروائیوں کو مانیٹر کرنا تھا۔ صدر اور وزیر اعظم کے گھروں اور دفتروں کے علاوہ ٹیلیفون ایکس چینجوں اور ان کا سارا مواصلاتی نظام، موبائل ٹیلیفون کا نظام، ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن، بجلی کا نظام، شہر سے آنے جانے کے راستے اور ایسی اور مختلف اہم چیزوں کو بھی اپنے قابو میں کرنا تھا۔ فوج کے بھی مواصلاتی نظام کو دیکھنا تھا۔ ان سب کارروائیوں پر نظر رکھنی ضروری تھی۔ پہلے سے احکامات دیے نہیں تھے کہ سب اپنا اپنا کام جانتے ہیں۔ ایک ایک کو بتانا تھا، ہر لمحے کی خبر رکھنی تھی۔ کچھ دیر پہلے جنرل محمود میرے دفتر میں آچکے تھے اور ان کے ساتھ میجر جنرل عارف حسن بھی۔ میرے دفتر میں بیٹھے جنرل عزیز سے بات کرتے رہے، پھر جنرل محمود اور عارف حسن اٹھ کر وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو تحویل میں لینے چلے گئے۔ رات کے ڈھائی بجے جنرل مشرف نے ایس ا یس جی کی وردی پہن کر ملک کے نئے سربراہ کی حیثیت سے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔ اللہ کا کرنا ہے کہ آج جب میں یہ لکھ رہا ہوں، بارہ اکتوبر دو ہزار گیارہ ہے۔ بارہ سال ہو گئے اس دن کو جب میرے دفتر سے نکلے ہوئے احکامات پر ملک میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ ہم سب نے چین کا سانس لیا۔ سڑکوں پر لوگ نکل کر ناچے تھے، مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ کیا علم تھا کہ ہم راہ میں ہی کھو جائیں گے، قوم کی امیدوں کا خون ہو گا۔ یہ تین پیراگراف میں نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز کی کتاب ’یہ خاموشی کہاں تک؟‘ سے لیے ہیں۔ اپنی خودنوشت کے ایک باب میں انہوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو انہوں نے اپنے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کی غیر حاضری میں ان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ انہوں نے اس کتاب میں یہ بھی بتایا ہے کہ یہ سب کچھ کسی فوری ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ جنرل پرویز مشرف کے دورہ سری لنکا سے پہلے تمام اہم لوگوں کو معلوم تھا کہ کب کیا کرنا ہے۔ کچھ کو اس لیے بے خبر رکھا گیا کہ ان پر اعتماد نہیں تھا۔ جب سب کچھ ہو گیا تو پھر ہر کسی کو اپنے خیال کے مطابق اپنی اور اپنے ادارے کی بقا کے لیے اس عمل کا حصہ بننا پڑا۔ کیا قانون و دستور اور کیا سپاہ و سیاست ،ایک دوسرے کے ساتھ یوں تعاون پر آمادہ ہو گئے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ جنرل شاہد عزیز نے جو کچھ کہا وہ بیک وقت گواہی بھی ہے اور اعتراف بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن جس نے جو کچھ بھی کیا اب تاریخ کا ایسا حصہ ہے جس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ تحفظ دے دیا گیا ہے کہ اب اسے جرم نہیں کہا جا سکتا۔ اکتوبر کی اس شام کو دستور کی پامالی کا جو کھیل کھیلا گیا وہ کسی شامِ غریباں کا موضوع تو ہو سکتا ہے لیکن احتساب کا مقدمہ نہیں بن سکتا۔ اس ڈرامے کے سارے کرداروں کو ایک آئینی ترمیم کے پُل سے گزار کر ایسے محفوظ مرغزار میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں انصاف کا کوئی تھپیڑا تو کیا عدل کا معمولی سا جھونکا بھی نہیں پہنچ سکتا۔ گویا بارہ اکتوبر کی بغاوت اور دستور شکنی ایک ایسا واقعہ بن کر رہ گئی ہے جو قومی حافظے میں تو زندہ ہے، تاریخ میں درج ہے لیکن قابل سزا نہیں۔ جرم تو موجود ہے مگر مجرم کوئی نہیں۔ بارہ اکتوبر جیسا ہی ایک واقعہ تین نومبر دو ہزار سات کو بھی ہوا تھا۔ اس تاریخ کو ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے کمانڈو ہونے کا فائدہ اٹھایا اور نہایت مہارت سے حکومت کی آڑ لے کر دستور پر ایک اور حملہ کیا۔ عدالتوں کی بساط لپیٹی، ججوں کو قیدکیا اور من پسند لوگوں کو عدلیہ کے ایوان میں بٹھا کرایک ایسا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش کی جس کا مرکز اختیار ان کی ذاتِ گرامی ہو۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے خون سے دو ہزار آٹھ پھوٹا، انتخابات ہوئے، بہت کچھ جنرل صاحب کی مرضی سے ہوا لیکن اپنی زندگی کے آخری دن تک دو ہزار آٹھ میں منتخب ہونے والی اسمبلی تین نومبر دو ہزار سات کے کمانڈو ایکشن کی توثیق نہیں کر پائی۔ اگرچہ اس دستور شکنی کا کوئی مدعی کسی شخص کی صورت میں سامنے ہے نہ مقدمہ موجود ہے لیکن تاریخ کی مسلوں پر اس جرم کی ساری روداد لکھی پڑی ہے،گواہ بھی موجود ہیں اور متاثرین بھی۔ ان متاثرین میں عدلیہ بھی شامل ہے کہ اس کو ہی اس کارروائی کا نشانہ بنایا گیا، عمران خان بھی کہ وہ اس وقت عدلیہ کی حمایت میں ڈٹے ہوئے تھے، نواز شریف بھی کہ ان کی پاکستان آمد کو یقینی بنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کہ انہوں نے جنرل کے اس اقدام کی بنیاد پر ہی ان سے کیے ہوئے ماضی کے سمجھوتے توڑ ڈالے تھے۔ مگر وقت نے نجانے کون سا موڑ مڑا ہے کہ میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ وہ کسی کو جلا وطن دیکھنا چاہتے ہیں نہ پھانسی پر چڑھتے ہوئے۔ عمران خان جو قبلہ مشرف صاحب کی آمد سے صرف چوبیس گھنٹے پہلے ملک بھر سے اکٹھے کیے ہوئے نوجوانوں کے سامنے سچ بولنے کا عہد کرتے ہیں، تین نومبر دو ہزار سات کا سچ بھول جاتے ہیں۔ کسی اور کا تو ذکر ہی کیا کہ مفاہمت کے جنگل میں ہر بڑا جرم چھوٹے جرم کو چھپا جاتا ہے اور قابل معافی ٹھہرتا ہے۔ لیکن ہمارے یہ تینوں محترم بڑے شاید یہ بھول چکے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ سوال ان کے لیے کتنا اہم ہونے والا ہے۔ وہ چاہیں بھی تو اب معاملہ رکے گا نہیں، خواہ کوئی کیسی ہی کوشش کر دیکھے۔ خوش آمدید جنابِ مشرف، ایک دستور کے تابع پاکستان آپ کا منتظر ہے۔