"HAC" (space) message & send to 7575

انتخابی ضابطے

بلدیاتی انتخابات میں شہر کی ایک نشست پر مقابلہ بہت بڑے تاجر اور ایک ایسے نوجوان کے درمیان تھا جس کا کل اثاثہ تین مرلے کا ایک مکان تھا۔ ابتدا میں سب کا خیال تھا کہ بے پناہ سرمائے کے مقابلے میں نوجوان شکست کھا جائے گا۔ سرمایہ دار کی طرف سے دیے جانے والے عشائیے ووٹروں کی گفتگو کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ الیکشن میں دس دن رہتے تھے کہ یکا یک بڑی اور قیمتی گاڑیاں نوجوان کی انتخابی مہم میں شامل ہوگئیں۔ پورے حلقے میں اس کی تشہیری مہم زور پکڑ گئی۔ ہر شام اس کے اعزاز میں بڑے بڑے عشائیے منعقد ہونے لگے اور یہ تاثر کہ غریب آدمی کسی کے لیے کیا کرسکے گا‘ مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ سرمائے کے اس کھیل میں مخالف امیدوار چاروں شانے چت ہوگیا کیونکہ اسے جو کرنا تھا تنہا کرنا تھا جبکہ دوسری طرف اس غریب کے پیچھے شہر کے کئی امیر لوگ جمع ہوگئے‘ یوں اس کی غربت کا تاثر مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ تاجر امیدوار نے پیسے کی ریل پیل دیکھ کر درخواستیں دائر کیں کہ اس کا مخالف تو غریب شخص ہے اس لیے الیکشن کمیشن یہ معلوم کرے کہ انتخابی مہم کے لیے پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ اس زمانے میں الیکشن کمیشن اتنا ’’آزاد‘‘ نہیں تھا اس لیے اس درخواست پر کوئی عمل نہ ہوا اور وہ غریب شخص نہ صرف کونسلر بن گیا بلکہ بہت جلدپنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہوگیا۔ انتخابی سیاست میں حالات کس طرح بدلتے ہیں اس کی ایک اور مثال دیکھ لیجیے۔ایک محلے کی زکوٰۃ کمیٹی کا الیکشن تھا جس میں دو گروہ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ایک طرف قومی اسمبلی کے ایک سابق رکن تھے جو اپنی مٹتی ہوئی سیاست چمکانا چاہتے تھے اور دوسری طرف ایک ابھرتا ہوا خاندان جو اس کمیٹی کے ذریعے سیاست میں قدم رکھنا چاہتا تھا۔سابق رکن اسمبلی کے پاس پیسہ بھی تھا اور ایک خاص برادری میں موجود ان کے ووٹ اس محلے کی حد تک ان کی کامیابی کی ضمانت تھے۔ دوسری طرف پیسہ تو موجود تھا لیکن مطلوبہ ووٹوںپر رسوخ نہیں تھا۔ مخالفین کے پاس جیتنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ اس برادری کوسابق رکن اسمبلی سے الگ کردے۔ اس مقصد کے لیے ایک رات کچھ بزرگوں کو بہترین گاڑیوں کے ایک بیڑے میں سوار کر کے اس برادری کے بزرگوں کے پاس بھیجا گیا۔ ان گندی گلیوں میں شہر کے محترم بزرگوں کی آمد وہاں رہنے والوں کے لیے ایک خوش کن واقعہ تھی۔ انہوں نے اس برادری کے بڑوں کو پیشکش کی کہ زکوٰۃ کے مستحقین میں زیادہ تر آپ ہی کے لوگ شامل ہیں اس لیے یہ نظام بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہوتو زیادہ مناسب ہے ، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ زکوٰۃ کمیٹی کی سربراہی کے لیے ہم آپ کے ساتھ چلیں۔برادری کے سرپنچ کو پہلے تو یقین ہی نہیں آیا کہ انہیں اتنی عزت بھی دی جاسکتی ہے کہ شہر کے امیر ترین لوگ اسے اپنا بڑا مان کر اس کے گھر آئے ہیں۔ جب اسے یقین دلایا گیا کہ ایسا ہی ہوگا تو نہ صرف وہ خود بلکہ اس پورے محلے کے لوگ خوشی سے رونے لگے ۔ آخرکار اسی برادری کے ایک نوجوان کو کمیٹی کی سربراہی کے لیے نامزد کیا گیا۔ پرانے سیاستدان نے اپنے پیسے کے زور پر ان غریبوں کو خریدنا چاہا تو دوسری طرف سے بھی سرمائے کی آمد شروع ہوگئی اور یوں یہ نوجوان آسانی سے الیکشن جیت گیا۔ ان دونوں واقعات کے کرداروں اور مقامات کے نام اس لیے نہیں لکھے کہ اس وقت یہ تمام لوگ ایک بار پھر عام انتخابات میں اپنی اپنی قسمت آزما رہے ہیں لیکن یہ کہانیاں آپ کو پاکستان کے ہر گلی محلے میں نظر آئیں گی۔ امیدوار کوئی اور ہے جبکہ پیسہ لگانے والا کوئی اور۔ ایسے حالات میںقومی انتخابات میںالیکشن کمیشن کی طرف سے محدود اخراجات کی لگائی گئی پابندی کی کیا اہمیت رہ جائے گی ،یہ سب جانتے ہیں۔ عملی سیاست اور انتخابات کی یہ منطق دستور کی دفعات ،عدالتی فیصلوں، الیکشن کمیشن کی لگائی ہوئی پابندیوں اور دانشوروں کی دُہائیوں سے ماورا ہوتی ہے۔ عملی سیاست کے اسرارو رموز وہی جانتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی عوام اور ان کی تنظیم ہوتا ہے۔ اس کے تقاضے منصفوں کو سمجھ آتے ہیں نہ افسروں کو لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے شاید سرکاری فرائض کے علاوہ کبھی پولنگ سٹیشن کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی ، انتخابات کے لیے اصول بنانے کا کام فرما تے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ضابطے بعض اوقات اتنے نامعقول ہوتے ہیں کہ ان پر عمل کرنا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ انہی فضول قواعد کے ٹوٹ جانے کو یہ لوگ سیاستدانوں کی برائی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے ضابطوں کی ایک اورمثال ہے بیرون ِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا حق۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، لیکن فضا کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ ہمارے اہم ترین ادارے اس عجیب کام کو برق رفتاری سے انجام دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی کہتاہے کہ حکومت آرڈیننس جاری کرے اور کوئی نعرہ لگاتا ہے کہ کمپیوٹر سافٹ وئیر بنایا جائے۔ کوئی آواز آتی ہے کہ فوری رپورٹ پیش کی جائے اور کسی کا الزام ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو حکومت یہ حق ہی نہیں دینا چاہتی۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ انصاف کا یہ موہوم سا تقاضا پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس بات کا سُراغ نہیں لگا پارہے کہ دنیا میں پارلیمانی جمہوریت کی والدہ ماجدہ برطانیہ میں یہ کام کس طرح ہوتا ہے۔ جدید دور میں بھی برطانیہ سے باہر رہنے والے ووٹر کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اگربرطانوی الیکشن میں ووٹ ڈالنا ہی چاہتے ہیں تو پہلے ایک پیچیدہ نظام کے تحت اپنا ووٹ بطور ایک ایسے ووٹر کے رجسٹر کرائیں جو ملک سے باہر مقیم ہے۔ اگر کوئی یہ کام کر گزرتا ہے تو اس کے پاس صرف بذریعہ ڈاک ایک راستہ ہے کہ اپنا ووٹ خود ڈال سکے ورنہ مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہ شوقین ووٹر اپنے کسی ایسے عزیز کو اپنا نمائندہ مقرر کرے جو اس کی جگہ برطانیہ میں ووٹ ڈال دے۔ یہ تو طے ہے کہ بیرون ملک مقیم ووٹر بلدیات کے لیے اپنا ووٹ نہیں دے سکتا لیکن یہ پابندی بھی ہے کہ پندرہ سال سے جو شخص ملک سے باہر ہے وہ بھی ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں رہتا۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا کوئی طریقہ دریافت کر لیتے ہیں تو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جہاں ووٹ ہوں گے وہاں انتخابی مہم بھی چلے گی۔فرض کرلیتے ہیں کہ برطانیہ اور امریکہ تو یہ اجازت دے دیتے ہیں کہ وہاں رہنے والے پاکستانی ہزاروں میل دور اپنے وطن کی سیاست میں کردار ادا کریں لیکن متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے بارے میں ہم نے نہیں سوچا کہ وہاں موجود پاکستانیوں میں سیاسی تحرک کس طرح کے مسائل پیدا کرے گا۔ ان ملکوں کا ردعمل خدا نخواستہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستانی کارکنوں کو ویسے ہی خدا حافظ کہہ دیں کہ اگر سیاست کی اتنی ہی تمنا ہے تو اپنے ملک میں جاکر پوری کرلیں۔ پھر ہم منہ دیکھتے رہ جائیں کہ ہمیں کون زرمبادلہ کے نام پر اربوں ڈالر ہر سال بھیجے گا۔ دراصل ہم نے دستور کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کو اپنے طرز عمل سے ایک مذاق بنا دیاہے، ہم نے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کرکے ایک بہترکام کیا لیکن اس پر عمل اتنے بھونڈے انداز میں کیا کہ وہ بھی شرمندہ ہیں جنہوں نے ایمانداری سے یہ کاغذ بھرے۔ اسی طرح یہ محدود اخراجات اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ پر اصرار یہ ثابت کررہاہے کہ قومی الیکشن جیسا اہم معاملہ صرف قانون پیشہ لوگوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں