محترم احسان وائیں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں اور لاہور میں رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کی جماعت خود کو پختون سیاست تک ہی محدود رکھے ہوئے ہے لیکن وائیں صاحب کی موجودگی کے باعث یہ کبھی قومی سیاست سے کٹ کر نہیں رہتی۔ پنجابی ہونے کے باوجود فیصلہ سازی میں انہیں وہی اہمیت ملتی ہے جو ایک جماعت کے سیکرٹری جنرل کی ہوسکتی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم ہو یا کسی دوسری جماعت سے اتحاد کا معاملہ، وائیں صاحب کی رائے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا یہ مقام کسی کی نظرِکرم کا مرہونِ منت نہیں بلکہ اے این پی کے بانی خان عبدالغفار خان کے نظریات سے پیہم وابستگی کی بنیاد پر ہے۔ آپ ان نظریات سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن وائیں صاحب کی اہمیت سے نہیں۔ گزشتہ رات وائیں صاحب سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی جہاں بہت سے سیاستدان اور صحافی جمع تھے۔ ایک خاتون ٹی وی اینکر تقریب کے شرکا سے پوچھ رہی تھیں کہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور خیبر پختونخوا میں اے این پی پر دہشت گردوں کے مسلسل حملے کہیں انتخابات کے التوا کا باعث تو نہیں بن جائیں گے؟ وائیں صاحب تک یہ سوال پہنچا تو انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ اگر کوئی ایک منٹ کے لیے بھی انتخاب کے التوا کی بات کرتا ہے تو وہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے کیونکہ ایک بار انتخابات ملتوی ہوئے تو پھر کبھی نہیں ہوسکیں گے۔ ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم دہشت گردی سے ڈر کر بھاگ جانے کی بجائے اس کا مقابلہ انتخاب کے میدان میں کریں۔ دہشت گردوں کا نشانہ اے این پی کے کارکن سب سے زیادہ بن رہے ہیں لیکن ہم الیکشن کے شیڈول میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گے خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ وائیں صاحب کی یہ بات سن کر اردگر بیٹھے تمام لوگ ایک لمحے کو خاموش ہوگئے اور پھرگویا سب کو زبان مل گئی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ اگر اے این پی بھی انتخابات کے التوا کے حق میں نہیں تو پھر پاکستان میں کوئی طاقت کسی بھی صورت میں انتخابی عمل کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب معاشرے کے تمام طبقات انتخابات کے انعقاد پر متفق ہیں تو پھر دہشت گردی کی کارروائیوں سے لے کر انتخابات روکنے کی پس پردہ کوششوں کا جواز کیا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے مفادات ۔الیکشن کا التوا سب سے پہلے تو وہ لوگ چاہیں گے جنہوں نے جنرل مشرف کی آمریت کا ساتھ دیا ، اقتدار کے مزے لوٹے اور آج بھی کسی نہ کسی طرح اقتدار میں موجود ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری پارلیمان میں پاکستان مسلم لیگ ق کی صورت میں ایک ایسی سیاسی قوت موجود رہی ہے جو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حکومت میں شامل تھی اور دوہزار آٹھ کے انتخابات میں بھی اس کی نشستیں اتنی تھیں کہ وہ ایک جمہوری حکومتی نظام کا حصہ بن گئی۔ جب کسی ملک کی پارلیمنٹ کا کم ازکم ساتواں حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہو جو آمریت کی حمایت کرتے ہوں اور اپنے خیالات سے رجوع بھی نہ کریں تو اس ملک کے بارے یہ کہنا بہرحال مشکل ہے کہ وہ آمریت کے نرغے سے مکمل طور پر نکل چکا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میںآمریت کی حمایت کرنے والی سیاسی قوتوں پر غیر معمولی ضرب پڑے گی۔ حکومتوں کی تبدیلی کا حق عوام کو حاصل ہے اور کوئی ادارہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے یہ اختیار نہیں کہ کوئی تبدیلی کر سکے۔ انتخابات سے دوسرا خوف ان دہشت گردوں اور ان کے بیرونی آقاؤں کو ہے جو پاکستان کو جنوبی ایشیا کا ’’مردِبیمار‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوںنے دہشت گردی کو مذہبی رنگ دے دیا ہے اور وہ تخریب کاری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ افغانستان میںاسامہ بن لادن کے ظہور سے لے کر یہاں سے امریکی فوجوں کی واپسی تک کے مسائل جنرل مشرف کے دور میں ایک خاص نظریاتی شکل اختیار کرگئے ورنہ انیس سو ننانوے تک طالبان پاکستان میں کسی نظریاتی بحث کا حصہ نہیں تھے۔ جنرل مشرف اور امریکہ کی مداخلت کے بعد طالبان یکایک ایک ایسے نظریے کے طور پر پیش کیے گئے جس کے حامی ہماری داخلی سیاست میں اہمیت اختیار کرنے لگے۔ پھر اس نظریے کا ایک مخالف نظریہ بھی وجود میں آیا جس نے ہمارے رہن سہن سے لے کر تعلیمی نظام تک پر سوالات اٹھا دیے ۔ غلط یا صحیح پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے طالبانی نظریے کے مقابلے پر ایک نظریاتی پوزیشن لے کر حکومت چلانا شروع کردی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا کیونکہ جتنا بودا طالبانی نظریہ تھا اس سے کہیں کمتر نظریاتی ردعمل ان بڑی جماعتوں نے دکھایا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے طالبان کو نظریاتی قوت تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسے ایک ایسے پیچیدہ انتظامی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جو کچھ مشکل کے بعد عام انتظامی طریقوں سے حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس معاملے میں پاکستان مسلم لیگ ن کی پیروی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ انتخاب میں عوام نے یہ فیصلہ بھی دینا ہے کہ وہ طالبانی رویے کو کوئی نظریہ سمجھتے ہیں یا محض ایک انتظامی معاملہ۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو معلوم ہے کہ اگر پاکستانی عوام نے اس انتخاب میں اسے انتظامی معاملہ قرار دیا تو پھر ان کے خلاف ریاست کی بے پناہ انتظامی قوت بروئے کار آجائے گی جس سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں ہوگا۔ اس لیے دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا مفاد اسی میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کے انتخابی عمل میں رکاوٹیں پیدا کرکے اسے روکا جائے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نوجوان ہمارے معاشرے کا ایک فطری حصہ ہیں؟ عام رائے یہ ہے کہ ملک کی بیس کروڑ آبادی میں پائی جانے والی رنگا رنگی یا بوقلمونی بتمام وکمال پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں میں منعکس ہورہی ہے۔ ایسے میںپاکستان تحریک انصاف نے نوجوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی آواز پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ رہی اس لیے انہیں اس نظام میں ایسی تبدیلی کرنی چاہیے کہ ان کی آواز سنی جاسکے۔تحریک انصاف سے پہلے بھی پاکستانی نوجوان فطری نمو کا اہم ترین عامل تھے لیکن عمران خان نے انہیں معاشرے کا ایک الگ طبقہ قرار دے کران کی سیاسی آواز بن جانے کا دعویٰ کیا۔وہ اپنی انتخابی تقریروں میں کئی بار نوجوانوں سے کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کو بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے قائل کریں۔ گیارہ مئی کو یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ نوجوان معاشرے کا الگ طبقہ ہیں یا معاشرتی روایت کے امین۔ یہ الیکشن پاکستان کو خو د احتسابی، رواداری اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ کچھ لوگ ہم سے یہ موقع چھین لینا چاہتے ہیں لیکن انہیں کراچی سے پشاور تک کوئی حمایتی نہیں مل رہا اور وہ ہمیں دہشت گردی سے ڈرا کر اپنی مرضی کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن آفرین ہے کہ قوم اپنی سمت پر گامزن ہے۔ اے قوم تجھے زندگی مبارک!