ٹرین امرتسر کے قریب پہنچی تو احساس ہوا کہ واہگہ کے راستے بھارت میں داخل ہوتے ہوئے امیگریشن کے افسر نے میرے کوائف پر مشتمل جو کاغذ مجھے دیا تھا وہ میرے کوٹ کی جیب میں نہیں ۔ میں نے جلدی جلدی کوٹ کی دوسری جیبیں ٹٹولیں لیکن مجھے وہ کاغذ نہیں ملا۔ میں نے جلدی سے سفری تھیلا کھول کر سامان ٹرین کی خالی نشست پر رکھ دیا کہ شاید کہیں میں اس میں رکھ کر بھول گیا ہوں، لیکن مطلوبہ کاغذ کہیں نہیں تھا۔ اب مجھے پریشانی ہونے لگی کیونکہ مجھے رہ رہ کر یاد آرہا تھا کہ امیگریشن کے اہلکار نے مجھے یہ کاغذ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جانے سے پہلے اسے‘ اسی جگہ جمع کرانا ہوگا۔ پاسپورٹ پر لگی مہروں کے علاوہ یہ کاغذ گویا ایک رسید تھی جو بھارت نے مجھے تھما دی تھی۔ جس کی واپسی کی صورت میں ہی انہیں یقین ہوتا کہ میں واپس وطن جا چکا ہوں۔ اگرچہ میرا پاسپورٹ محفوظ تھا اس پر پاکستانی اور بھارتی امیگریشن کی تمام مہریں موجود تھیں لیکن اس گم شدہ کاغذ نے دنیا بھر میں قابل قبول میرے پاسپورٹ کو غیر متعلق کردیا تھا؛ کیونکہ میں بھارت میں تھا‘ جہاں پاکستانی ہونے کی وجہ سے مجھ پر ہر نامعقول ضابطہ لاگو ہوجانا تھا۔ میں نے ہمت کرکے وفد کے سربراہ سے بات کی تو وہ اس سے کہیں زیادہ پریشان ہوگئے جتنا میں تھا۔ یکا یک مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ایک صحافی کی بجائے جاسوس بن چکا ہوں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں نے دہلی میں جو آوارہ گردی کی تھی، بھارتی دوستوں کی میزبانی کا لطف اٹھایا تھا ایک خواب لگ رہا تھا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ قطب مینار دیکھنے کے لیے جب میں نے بطور غیر ملکی مہنگے ٹکٹ کی ادائیگی کرنا چاہی تو وہاں بیٹھے شخص نے کس خوش خلقی سے کہا تھا ’بھائی آپ پاکستانی لگتے ہو، آپ کے لیے وہی ٹکٹ ہوگا جو ہمارے لیے ہے‘۔ پھر اس نے بتایا کہ سارک تنظیم کے رکن ملکوں کو ایک دوسرے کے تاریخی مقامات پر جانے کے لیے مقامی افراد جتنی ادائیگی ہی کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ جنوبی ایشیا کی اس تنظیم کا شاید یہ واحد فائدہ ہے جو عام لوگوں کے لیے ہے۔ سچی بات ہے مجھے بھارت میں گزارا ہوا ہر خوشگوار لمحہ بھول چکا تھا بس میرے ذہن پر وہ کاغذ سوار تھا جو میری واپسی کے لیے ضروری تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ اب امیگریشن والے مجھے بھارت میں داخل ہونے والاایک غیر قانونی پاکستانی قرار دے کر پہلے تو مجھے روک لیں گے ااور پھر جاسوس قرار دے کر نجانے کیا کچھ کریں ۔ مجھے ایک دم اپنے گھر والوں کا خیال آیا، پھر یہ کہ نجانے مجھے بھارت میں کتنا عرصہ قید رہنا پڑے اورایسے جرائم کا اعتراف کرنا پڑے جو میں نے کیے ہی نہیں۔ مجھے خوف تھا کہ میرے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بھارتی ریاست قانون کا سہارا نہیں لے گی بلکہ پاکستان کے خلاف تعصب ہی اصل قانون بن جائے گا۔مجھے بھارتی صحافیوں نے بھی بتایا تھا کہ پاکستانیوں کے معاملے میں بھارتی قانون رعایت تو درکنار ظلم پر اتر آتا ہے۔ میں شدید پریشان تھا اور ٹرین امرتسر شہر میں داخل ہوچکی تھی۔ وفد میں شامل تمام لوگ نظروں ہی نظروں میں مجھے ایک غیر ذمہ دار شخص قرار دے رہے تھے لیکن زبان سے کہہ رہے تھے کہ کوئی بات نہیں کچھ نہ کچھ ہوجائے گا کیونکہ ایک صحافی کو وطن واپسی سے روکنے کی بھارتی کوشش ایک عالمی خبر تھی جو روکنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی تھی۔پھر نجانے کس نے کہا کہ ہو نہ ہو تم یہ کاغذ ہوٹل میں بھول آئے ہو۔ یہ سن کر ہمارے سربراہ نے دہلی میں جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے وہاں کسی کو فون کیا تو دوسری طرف سے کہا گیا کہ مطلوبہ کاغذ ہوٹل انتظامیہ کی تحویل میں ہے اور آپ آکر لے جاسکتے ہیں۔ یہ جان کر سب نے اطمینان کی سانس لی کیونکہ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ میں واپس دہلی جاکر اگلے روز آجاتا لیکن وفد کے سربراہ نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے امرتسر میں ایک دکان دریافت کی جہاں فیکس مشین موجود تھی اور اس کاغذ کی فیکس منگوا لی۔یہ فیکس کاپی لے کر میں ڈرتے ڈرتے امیگریشن کی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ میرا دل غیرمعمولی رفتار سے دھڑک رہا تھا، ٹھنڈے موسم میں بھی مجھے پسینہ آرہا تھا، میں نے یہ کاغذ کانپتے ہاتھوں سے امیگریشن والے کے سپردکیا تو اس نے معمول کے مطابق اس پر مہر لگاتے ہوئے پوچھا ’اصل کہاں ہے؟‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ بولا ’کہیں بھول آئے ہوگے، چلو کوئی بات نہیں‘ یہ کہہ کر میرے پاسپورٹ پر اس نے مہر لگائی اورمسکرا کر واپس کردیا۔ اس کی یہ مسکراہٹ گویا ان خطرات کے خاتمے کا اعلان تھی جن میں چند منٹ پہلے میں خود کو گھرا ہوا سمجھ رہا تھا۔ میں ’جاسوس‘ کی بجائے ایک صحافی ہی تھا اور چند قدم چل کر لاہور پہنچنے والا تھا۔ اپنا پاسپورٹ واپس لے کرمیں ہنستا چلا گیا۔ گزشتہ دو گھنٹے کے دوران بھارتی جیلوں میں کئی سال کی قید کاٹ چکا تھا، اذیتیں برداشت کرچکا تھا، جاسوس ثابت ہوچکا تھا لیکن اب میں پھر ایک پاکستانی صحافی تھا، جو سوچ رہا تھا کہ دوگھنٹوں کے دوران میں کس کی قید میں تھا، اپنے خوف کی یا بھارتی تعصب کی؟ عصبیت اورکسی حد تک خود غرضی ہمیشہ سے ملکوں، قوموں اور تہذیبوں کے درمیان تعلق کی اہم ترین خصوصیت ہوتی ہے ، لیکن یہ جذبہ اس وقت تک ایک دوسرے کو تباہ کردینے والی نفرت وتعصب میں تبدیل نہیںہوسکتا جب تک حکومتیں اس کی آبیاری نہ کریں۔ہم نے اپنے بچوںکے دل ودماغ میں وہ نفرت بھر دی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ آپ اسے کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دس بارہ سالوں میں پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے، بھارت سے نفرت اب ہماری داخلی سیاست سے تو کم ازکم مکمل طور پر نکل چکی ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت میں پاکستان کے خلاف تعصب کی فضا قائم رکھنے میں وہاں کی حکومت اور سیاسی جماعتیں باقاعدہ کوشش کرتی ہیں، اس کے برعکس ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں آج کل اپنی الیکشن مہم چلا رہی ہیں لیکن اس میں بھارت کا ذکر تک نہیں ہے۔ پاکستان بہت تیزی سے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعصب کی اس دلدل سے نکل رہا ہے اوربھارت ہے کہ آہستہ آہستہ اس میں دھنستا جارہا ہے۔ سربجیت سنگھ کے حادثاتی قتل کے بعد ایک ہیرو کی طرح اس کی آخری رسومات کی ادائیگی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ شخص ایک دہشت گرد اور جاسوس تھا جو بھارت نے پاکستان بھیجا تھا۔ اس کے بعد‘ جموں میں ایک پاکستانی قیدی ثناء اللہ کے قتل کی کوشش اور پھر اس پر یہ کہنا کہ ’ایسا تو ہوگا‘ ریاستی تعصب کی بدترین مثال ہے۔ بھارتی معاشرے میں پاکستان کے بارے میں صرف جھوٹ بولنا ہی ممکن ہے اتنا جھوٹ اور اتنی بار جھوٹ کہ وہ سچ لگنے لگے۔ اسی ریاستی جھوٹ کے پنجرے میں ڈاکٹر خلیل چشتی کو قید کردیا گیا، اسی بنیا د پر بیس سال قبل بیاہ کربھارت جانے والی خاتون کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا گیا اور جھوٹ کے کلہاڑے سے ثناء اللہ کو موت کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ ہرحادثے کی رسید ایک جرم کے ذریعے دینا اس بھارتی ذہنیت کا ثبوت ہے جو پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر بنائی گئی ہے لیکن اس سب کے باوجود بھارت کی نئی نسل اس تعصب کی خریدار بنتی نظر نہیں آتی۔اب وہاںسے شاید کوئی سربجیت تو نہ آئے مگر کسی اور ثناء اللہ کی لاش کی آمد خارج از امکا ن نہیں۔