’کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں تین کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول اس لیے نہیں جاتے کہ انہیں اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے؟‘ دنیا ٹی وی کے مقبول پروگرام ’خبر یہ ہے‘ کے شریک میزبان سعید قاضی نے مجھ سے یہ سوال اپنے خطیبانہ لہجے میں کیا۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ پھر گویا ہوئے ’’دراصل جس نظام ِ ریاست میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ امیر پرور اور غریب کُش ہے ۔آپ کی ریاست ہر سال بجٹ کے موقع پر امیروں کے نام پر غریبوں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے، ہر سال کچھ نہ کچھ اشیائے ضرورت ایسی ہوتی ہیں جو متوسط طبقے کی پہنچ سے دور چلی جاتی ہیں اور ہر سال کچھ اشیائے ضرورت کو اتنا مہنگا کردیا جاتا ہے کہ غریب آدمی اپنے اہل و عیال کو ان کی فراہمی کے لیے خون تھوکنے پر آجاتا ہے اور آپ تو گویا جانتے ہی نہیں کہ مہنگائی کا منافع کس کی جیب میںجاتا ہے‘‘۔ سعید قاضی ابھی کچھ اور کہنے والے تھے کہ سینئر صحافی ذوالفقار مہتو نے مصرع اٹھایا۔مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے،’’ آپ دور کیوں جاتے ہیں ذرا کسی بھی سرکاری ہسپتال کا چکر لگا لیں۔ آپ کو زندگی بے قیمت اور انسانیت غیر ضروری عنصر محسوس ہوگی۔ پاکستان کے ہر مظلوم کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے تھانے نہ جانا پڑے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک بار وہ تھانے چلا گیا تو ہماری پولیس بھی ظالم کی ہمنوا ہوکر اسے برباد کرنے کی کوشش کرے گی۔ آپ نجانے کیا بات کرتے ہیں ، اگر آپ عام لوگوں کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی زندگی کتنی کٹھن ہے اور اتنی کٹھن زندگی یہ کیسے اور کیوں گزار رہے ہیں‘‘۔ سعید قاضی اور ذوالفقار مہتو ’اصلی پاکستان‘ کی یہ تصویر کشی اس لیے کررہے تھے کہ ایک دفتری میٹنگ کے دوران میں یہ کہہ بیٹھا تھا کہ ملکی حالات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔قصہ برسرِ زمین وہی ہے کہ ریاستی نظام زور آوروں کے ہاتھ کی چھڑی ہے جو غریبوں کی کھال ادھیڑتی چلی جارہی ہے۔ میںتصویر کے اس تاریک و خوفناک رُ خ میں دکھائی دینے والے کسی منظر کو نہیں جھٹلا سکتا کیونکہ سعید قاضی اور ذوالفقار مہتو وہی کہتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تصویر مکمل ہے؟ اس تصویر کا دوسرارُخ مجھے سلیم غوری نے دکھایا۔ سلیم غوری ایک ایسے اولوالعزم شخص ہیں جو بدترین حالات میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے۔ میںنے خود دیکھا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب امریکہ اور یورپ میں پاکستانی مصنوعات و خدمات کا ایک غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا گیا تھا تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے اثاثے بیچ کر کاروبار کو نہ صرف چلتا رکھا بلکہ اپنے ہاں کام کرنے والوں کو بروقت تنخواہیں بھی ادا کرتے رہے کہ کل اچھا وقت آئے گا ۔ ان کی استقامت رنگ لائی ، ان کے غیر ملکی گاہک ایک بار پھر ان کی طرف متوجہ ہوگئے ، اور رکا ہوا کام نہ صرف چلا بلکہ پہلے سے بھی خوب چلا۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میںان کے مشکل وقت کا ذکر چلا تو کہنے لگے ’’یہاں ایک نہیں‘ دو پاکستان ہیں، ایک میرا پاکستان ہے جہاں میں صبح آٹھ بجے اپنے دفتر پہنچتا ہوں ،میرے ساتھ لاکھو ں لوگ اپنے اپنے کام پر جاتے ہیں اور شام تک اس ملک کی معیشت کے لیے ساٹھ ارب روپے پیدا کرتے ہیں۔ دوسرا پاکستان تمہارا ہے جو تم میڈیا پر شام چھ بجے دکھاتے ہو، میڈیا کے پاکستان میں کچھ بھی اچھا نہیں، بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف چو ر، اچکے اور لفنگے بستے ہیں، کوئی عدالت کام کررہی ہے نہ کوئی سکول، کوئی کاروباری ادارہ چل رہا ہے نہ سرکاری دفتر، ایک ہڑبونگ ہے جو ہر طرف مچی ہوئی ہے، کوئی کسی سے محبت کرتا ہے نہ ہنس کر بات‘‘۔سلیم غوری نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم بتا سکتے ہوکہ اتنی ہا ہا کار کے باوجود میرے پاکستان میں بیس کروڑ لوگ رہ کیوں رہے ہیں اور دنیا ہمیں ایک ملک اور قوم کیوں مانتی ہے؟ میں خاموش رہا تو بولے ، اس لیے کہ تم مانو یا نہ مانو ہم ایک قوم ہیں، اقوام عالم کی ایک بڑی قوم۔ اسی پاکستان کے حوالے سے ایک بات مجھے ایک ماہر معاشیات شاغل احمد نے دس سال پہلے کراچی میں بتائی تھی۔ شاغل احمد نے باقاعدہ تحقیق کی کہ آخر کس طرح پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت سے لے کر مساجد اور مدارس کا انتظام بغیر حکومتی مدد کے چل رہا ہے۔ ایک سال کی تحقیق کے بعد انہوں نے اپنے دفتر میں صحافیوں کو بلا کر یہ حیر ت انگیز خبر دی کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے لوگ دوسو ارب روپے سے زیادہ کی رقم صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کی مد میں یوں خرچ کرتے ہیں کہ لینے والے ہاتھ کو دینے والے کے بارے میں علم نہیں ہوپاتا۔ پاکستانی قوم نے اپنے طور پر سوشل ویلفئیر کا ایک ایسا نظام تشکیل دے رکھا ہے جسے دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کے سوشل ویلفیئر پروگراموں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو ذرا ایک اور حوالے سے بھی دیکھ لیجیے۔ مقامی و عالمی دہشت گردوں کے نشانے پر ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار کم نہیں ہونے پائی، ہم نے ہمیشہ اتنی خوراک ضرور پیدا کرلی ہے جو ہماری اور افغانستان کی آبادی کے لیے کافی رہی ہے۔ ہم جنوبی ایشیا کا وہ پہلا ملک ہیںجس نے موٹر وے بنانے کا منصوبہ شروع کیا اور پھر مکمل کرکے دکھایا۔ دوہزار پانچ میں زلزلے اور دوہزار دس میں سیلاب نے ہمارے ملک میں جو تباہی پھیلائی ہم نے نہ صرف اس تبا ہی پر قابو پالیا بلکہ کروڑوں لوگوں کو واپس ا ن کے گھروں میں بسا دیا۔ ہم دنیا کے چند ملکوں میں سے ایک ہیں جن میں سمندر کے کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی سے لے کرسیاچن گلیشیئر کے برف زار تک سڑکوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔ ہماری ضرورت سے کم سہی ، بدعنوانی اور نا اہلی کا شکار سہی، صحت و تعلیم کے شعبے بغیر شور مچائے کروڑوں لوگوں تک اپنی خدمات پہنچا رہے ہیں۔ آج بھی ہماری پولیس ہی ہے جو دہشت گردوں کے خلاف پہلی دفاعی لائن کی حیثیت میں کام کررہی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ہمارے سیاستدان ٹھوکریں کھاتے، جیل ، جلا وطنی اور پھانسی گھاٹ سے گزر کر آج جمہوریت پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی خراب نہیں۔ ہمارے ریاستی نظام میں انگریز، آمریت اور افسر شاہی کی پیداکردہ خرابیاں اتنی زیادہ اور پیچیدہ ہیں جن کا حل تلاش کرنے کی ہرکوشش کا انجام ایک فوجی حکمرانی پر ہوا ہے۔ یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ ریاست کے سارے اداروں کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہورہا ہے۔ اسی توازن سے گورننس سے لے کر معیشت تک کے تمام مسائل کا حل جنم لیتا ہے اور ہم اسی راستے پر آہستہ سہی لیکن چل پڑے ہیں۔ اگر کسی کو خود اذیتی کا شوق ہو تو ہو، ورنہ سامنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ابھی مایوسی پھیلانے والوں کی تعداد امید رکھنے والوں کی نسبت بہت کم ہے۔