چھ نومبر انیس سو نوے کو وزارت عظمٰی کا حلف اٹھانے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پوری تیاری کے ساتھ شرکت کی۔ انہوں نے اپنے وزرا کو واضح لفظوں میں یہ بتا دیا کہ اب ملکی معیشت کو بیوروکریسی کی گرفت سے نکال کر نجکاری اور آزادی کی طرف لے جانا ہو گا۔ یہ اعلان ایک ہلکے پھلکے زلزلے کی مانند تھا جس کی زد میں آ کر ہر سرکاری ملازم کی کرسی لرزنے لگی۔ اسی اجلاس میں اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے نجکاری، صنعت، برآمدات، زرمبادلہ کے نظام میں اصلاحات، ٹیکسیشن اور خودانحصاری کے چھ نکات کو آگے بڑھانے کے لیے چھ کمیٹیوں کی تشکیل کا حکم دے کر وزیر اعظم نے کہا کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے اندر انہیں ان کمیٹیوں کے ارکان کے نام اور ٹرم آف ریفرنس پیش کر دیے جائیں۔ یہ سن کر سرتاج عزیز‘ جن کے ذمے یہ کام لگایا جا رہا تھا‘ اپنی کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ وزیر اعظم گویا ہوئے کہ چوبیس گھنٹوں میں کابینہ کے جاری اجلاس کا وقت بھی شامل ہے۔ وفاقی وزیر نے مدد طلب نظروں سے دوسرے وزرا کو دیکھا اور چوبیس کی بجائے اڑتالیس گھنٹوں کا وقت مانگا۔ یہ وقت بھی انہیں صرف اس لیے ملا کہ ان کمیٹیوں میں متعلقہ وفاقی وزیر جن لوگوں کو شامل کرنا چاہتے تھے وہ اسلام آباد سے باہر تھے اور ان سے فوری رابطہ ممکن نہ تھا۔ کام کی اس رفتار کے ساتھ دو سال کے اندر اندر ملک کے بیرونی قرضوں کا حجم مجموعی ملکی پیداوار کے چھپن فیصد سے اکاون فیصد پر آ گیا۔ رُکی ہوئی معیشت چلانے کے لیے تنقید کی پروا کیے بغیر بہت تیزی سے نجکاری کرکے سرکاری شعبے کو بلاوجہ کے بوجھ سے آزاد کر دیا گیا۔ ملکی انفرا سٹرکچر کو ترقی دینے کے لیے موٹر وے پر کام شروع ہوا۔ یوں پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک بن گیا جو ایک موٹر وے کا مالک بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی پیلی ٹیکسی سکیم شروع ہوئی جس کے تحت لاکھوں لوگوں نے رعایتی شرح منافع پر بینکوں کے ذریعے کاریں، ٹرک اور بسیں لیز پر حاصل کیں۔ اس طرح بہت کم مدت میں ملک کے اندر ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر جدید خطوط پر استوار ہو گیا۔ ذہنی یکسوئی، قوت فیصلہ اور کر گزرنے کے جذبے نے نواز شریف کے بارے میں یہ رائے غلط ثابت کر دی کہ وہ سرمائے اور اسٹیبلشمنٹ کے زور پر ہی حکومت کر سکتے ہیں ۔ ان کے اقتدار کے یہی دو سال آٹھ ماہ ایک ہفتہ اور پانچ دن تھے جن میں ان کی غیرمعمولی کارکردگی نے قومی سیاست میں انہیں اہم ترین فریق بنا دیا۔ خارجہ محاذ پر اُس وقت افغانستان میں مجاہدین کے درمیان جاری جنگ سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے نواز شریف نے مرحوم قاضی حسین احمد کی مدد سے متحارب افغان فریقوں کو ایک میز پر بٹھا کر بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ اگرچہ یہ کامیابی دیرپا ثابت نہ ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ افغانستان کے تمام جنگ آزما گروہ پاکستان پر کسی نہ کسی درجے میں اعتماد کرنے پر تیار ہو گئے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اگر صدر غلام اسحٰق خان نواز شریف کی حکومت کو برطرف نہ کرتے تو افغانستان کا معاملہ حل ہو چکا ہوتا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ افغان مسئلہ اتنا الجھا ہوا نہ ہوتا جتنا آج ہے۔ خارجہ تعلقات میں ’کاروبار سب سے پہلے‘ کی غیرعلانیہ پالیسی نے جہاں افغانوں کو پاکستان کے لیے ان کی اہمیت کا احساس دلایا وہاں بھارت اور امریکہ کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان کسی قسم کی مہم جوئی کی بجائے اپنا گھر سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پر امن مقاصد کے لیے نیوکلیئر توانائی پر کام جاری رکھنے کا اعلان کرکے یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ ہمیں کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔ میاں نواز شریف کا یہ دور اقتدار صرف نو سو پچاسی دنوں پر محیط تھا۔ بیرونی قرضوں میں کمی سے لے کر خارجہ پالیسی میں اصلاح تک کے یہ سارے کام انہی نو سو پچاسی دن میں ہوئے۔ یہ دور حکومت حادثات پر ردعمل دینے تک محدود نہ تھا بلکہ واقعات کو برپا کرنے کی صلاحیت سے عبارت تھا۔ حادثات کو روک لینے کی صلاحیت اور واقعات میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت نواز شریف کا سیاسی اثاثہ ہے جس کی تکرار انہوں نے بار بار اپنی الیکشن مہم میں کی اور تیسری بار حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ انہیں وزارت عظمٰی کا حلف اٹھائے ہوئے ابھی چھیاسٹھ دن ہوئے ہیں لیکن ان دو مہینوں کے کارکردگی بتا رہی ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے نواز شریف اپنی ہی ماضی کی رفتار کے مقابلے میں بہت سست روی سے قدم اٹھا رہے ہیں۔ جامد معیشت، تباہ شدہ امن و امان اور بجلی کے گھمبیر بحران سے مقابلہ کرنے کے لیے جس تیزی سے فیصلوں اور اقدامات کی ضرورت ہے، ہماری حکومت اس سے محروم نظر آتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اقتدار سنبھالے ابھی زیادہ دیر نہیں گزری لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں پانچویں اور مرکز میں تیسری بار اقتدار سنبھالنے والی جماعت کو یہ رعایت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مشکلات کے پہاڑوں کے سامنے کھڑی ہو کر چھیاسٹھ دن تک سوچ بچار اور مشاورت کرتی رہے۔ کابینہ کی اب تک سب سے بڑی کامیابی سوائے اس کے کیا ہے کہ پہلے جو ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کا رونا رویا کرتے تھے اب وزیر بن کر ملک کو درپیش مشکلات کا راگ الاپتے ہیں لیکن کام کرنے سے گریزاں ہیں؟ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے وہ ایسے نہیں جن کے حل کو مشاورت کی صلیب پر لٹکا کر ٹال دیا جائے۔ یہ مسائل روزانہ کی بنیاد پر ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں اس لیے روزانہ کی بنیاد پر ہی ان پر کام ہونا اور ہوتا ہوا نظر آنا ضروری ہے۔ جب سے نئی حکومت بنی ہے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ محفوظ ترین جیلوں کو توڑ کر اپنے ساتھی چھڑا کر لے جاتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے کمزور پڑ چکے ہیں کہ ان کے اہلکار دہشت گردوں کو دیکھ کر چھپ جاتے ہیں یا بھاگ جاتے ہیں۔ معاشی میدان میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کی مہارت سے توقع تھی کہ وہ اپنے پہلے بجٹ کے ذریعے ایسے اقدامات کریں گے جن سے ملک کی سمت درست ہونے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو کوئی آرام ملے گا لیکن ہوا یہ کہ اب تک یہ بجٹ سوائے بے چینی کے کچھ نہیں دے سکا۔ بجلی کے بارے میں اس حکومت کا کمال یہ ہے کہ گردشی قرضہ ختم کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں لائی جا سکی۔ دو مہینے چھ دن کی اس بے عملی کی مثال نواز شریف اور شہباز شریف کے ماضی سے نہیں ملتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی بے عملی اور فیصلے نہ کر سکنے کی وجہ سے اقتدار سے باہر ہو گئی، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بے عملی کا یہ آسیب اب مقتدر ایوانوں کے نئے مکینوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ عوام نے نواز شریف کی قوت عمل کو ووٹ دیا تھا نہ کہ مسائل پر نوحہ گری ان کی وجہِ انتخاب تھی۔ ملک کو نواز شریف کی واپسی درکار تھی لیکن اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ان کی’ آمد‘ کے آثار نظر نہیں آرہے، جبکہ ان کے اقتدار کے صرف ایک ہزار سات سو ساٹھ دن باقی ہیں۔ کیا وزیر اعظم کو گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ تئیس برس قبل تو بخوبی سنائی دیتی تھی۔