عظیم اللہ خان اور بخت خان کے درمیان مارچ کے آغاز میں ہی یہ طے پاچکا تھا کہ اکتیس مئی 1857ء کے دن صبح پریڈ کے وقت، ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجی چھاؤنیوں میں ہندوستانی سپاہی بغاوت کا اعلان کرکے جنگ شروع کردیں گے۔ مئی کے مہینے میں جنگ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے بیشتر حصے میں شدید گرمی ہوگی اور انگریزوں کے لیے ایسے موسم میں لڑنا مشکل ہوگا۔منصوبے کے مطابق میرٹھ میں موجود ہندوستانی گھڑ سوار سپاہی لڑائی شروع ہوتے ہی دہلی پہنچ جائیں گے اور وہاں لال قلعے میں بہادرشاہ ظفر کو اپنی حفاظت میں لے کر مغلیہ اقتدار کی بحالی کا اعلان کردیں گے۔ انگریزوںکو ہندوستان سے نکالنے کی اس ہمہ گیر جدوجہد کی پس پردہ سیاسی قیادت عظیم اللہ خان کررہا تھا جو مرہٹوں کے پیشوانانا دھوندو پت صاحب کامشیر خاص تھا اور اسی نے نانا صاحب کے ذریعے مرہٹوں کی اس جنگ میں شمولیت کو یقینی بنایا تھا۔ دوسری طرف ہندوستانی سپاہیوں میں مسلمانوں کی اکثریت کے باعث بخت خان نے فوجیوں کواپنا ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ بخت خان نے پیغام رسانی کا ذریعہ روٹی کو بنایا اوراس کوڈ کے ذریعے بنگال سے لے کر پنجاب تک کی بیشتر چھاؤنیوں میں مقیم اپنے با اعتماد ساتھیوں تک یہ خبر پہنچا دی کہ لڑائی کا دن کونسا ہوگا اور لائحہ عمل کیا ہوگا۔ بخت خان نے اعلان جنگ سے تین مہینے پہلے حملے کی تاریخ مقرر کرکے اپنے ساتھیوں کو وقت دیا تھا کہ وہ چھاؤنیوں میں اسلحہ خانے پر قبضہ اور انگریز فوجیوں پر قابو پانے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرلیں۔ بخت خان انتہائی ہوشیاری سے ایسٹ انڈیا فوج کا حصہ بن کر معاملات کو آخری مرحلے کی طرف لے جارہا تھا کہ بیچ میں منگل پانڈے آگیا۔ انتیس مارچ کو بیرک پور چھاؤنی میں سپاہی منگل پانڈے نے اپنے ہندوستانی جمعدا ر کی کسی بات سے غصے میں آکر یہ اعلان کردیا کہ جس انگریزفوجی پر آج اس کی نظر پڑے گی وہ اسے قتل کرڈالے گا۔ یہ دعوٰی کرکے اس نے چھاؤنی کے صدر دروازے کے سامنے گھومنا شروع کردیا اور اپنے قول کے مطابق سامنے آنے والے انگریز افسر کو پہلے اپنی بندوق اور پھر تلوار سے قتل کرنا چاہا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد جب منگل پانڈے پر قابو پالیا گیا تو اس نے اپنی توڑے دار بندوق سے خودکشی کرنا چاہی لیکن محض زخمی ہوکر گرفتار ہوگیا۔ اس کے مناسب علاج کے بعد فوجی قوانین کے تحت اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس واقعے کے صرف دس دن کے اندر منگل پانڈے کی لاش بیرک پور کے پھانسی گھاٹ سے لٹک رہی تھی۔ جب منگل پانڈے نے انگریز افسروں پر حملہ کیا تو ایک مسلمان سپاہی شیخ پالتو نے اسے پیچھے سے جکڑ لیا تھا جس کے انعام کے طور پر اس سپاہی کو فوری ترقی دے دی گئی ۔ شیخ پالتو کی وجہ سے فوج میں جو تھوڑے بہت ہندو موجود تھے مسلمانوں کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہوگئے اور انگریزوں نے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کردیں۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر میرٹھ چھاؤنی میں موجود ہندوستانی سپاہیوں میں بھی بے چینی پھیل گئی جس پر انگریز قابو پاسکے نہ بخت خان؛ جس کے منصوبے میں اس چھاؤنی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ جذبات میں آکر پچاسی مزید سپاہیوں نے دس مئی کو بغاوت کردی اور اپنے ساتھیوں کو طعنے دیتے ہوئے دس سالہ قید میں چلے گئے۔ یہاں سے بات بڑھتی چلی گئی اور جس بغاوت کو ابھی اکیس دن بعد شروع ہونا تھا وہ پہلے ہی چل پڑی۔ وقت سے پہلے ہی واقعات کا رُ خ بدل جانے پر میرٹھ کے گھڑ سوار دہلی کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے اوررات گئے لال قلعے پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کو شہنشاہ ہند قرار دے دیا۔ بخت خان تک جب یہ خبریں پہنچی تو وہ بھی اپنے آدمی لے کر دہلی کی طرف چل پڑا۔ لڑتے مرتے وہ یکم جولائی کو پہنچ تو گیالیکن اتنی دیر میں سب کچھ تباہ ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عظیم اللہ کو کانپور سے بھاگنا پڑا اور وہ غریب نیپال کی سرحد کے قریب مارا گیا۔اس کی کوششوں سے رانی جھانسی بھی اس جنگ میں شریک ہوگئی تھی لیکن وقت سے پہلے لڑائی شروع ہوجانے کے باعث ماری گئی۔ اکیس دن کے اس فرق نے جنگ آزادی کو افرا تفری، لوٹ مار اور خودغرضیوں کے بھینٹ چڑھا دیا۔ منگل پانڈے کی بے عقلی نے جنگِ آزادی کو غدر میں تبدیل کردیا اور بھارت نے اس کی بے وقوفی کو دلیری قرار دے کر اُسے ہیرو بنا دیا۔ بے وقوفی اور دلیری کے امتزاج سے جنم لینے والا ایک ڈرامہ پاکستانی قوم نے بھی جمعرات کے روز اسلام آباد کے جناح ایونیو پر دیکھا۔ یہ وہی سڑک ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری مع اہل و عیال اپنی مقبولیت کے پھریرے ’لہراتے‘ ہوئے اس نظام کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ بالکل انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حافظ آباد کے ’مسٹر اینڈ مسز سکندر ‘مع اپنے بچوں کے بندوقیں لہراتے پہنچے اور پورے ملک کو چھ گھنٹے کے لیے قابو کرلیا ۔ ان چھ گھنٹوں کے دوران ریاستی مشینری نے قریب قریب اسی طرح کا طرز عمل اختیار کیا جیسا کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کیا جاتا ہے۔ پولیس نے اس کے گرد گھیرا ڈال کر اسے کہیں آنے جانے کے قابل نہ چھوڑا۔ ایسی کوئی حرکت نہ کی جو اس فساد پر آمادہ جوڑے کو مشتعل کردے،ہماری پولیس جو نرغے میں آئے شکار کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں لگاتی بڑے آرام سے کھڑی رہی ، حکومت کا کوئی سیاسی نمائندہ ان دہشت گرد نما میاں بیوی سے مذاکرات کرکے انہیں ہیرو ہیرؤین بنانے نہیں پہنچا، حتٰی کہ میڈیا میں بھی سکندر کا ذکر صیغہ واحد غائب میں ہوتا رہا اور کسی نے اس کی بندروں جیسی حرکتوں کو جدوجہد قرار دینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے امریکہ یا یورپ کے ملکوں میں ایسی صورتحال پیدا ہونے پر ہوتا ہے۔ فرق رہا تو صرف یہ کہ اس ڈرامے کے آخری سین میںزمرد خان کی شکل میں منگل پانڈے نمودار ہوگیا۔ زمرد خان سابق حکومت کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے عزت کمائی۔ یتیم بچوں کی کفالت کے لیے ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں ۔ لیکن اسلام آباد میں پولیس کے حصار میں مسلح شخص پر جھپٹنے کی جو حرکت انہوں نے فرمائی اس کی تعریف پیپلزپارٹی کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔دلاوری کے اس محیرالعقول واقعے کی پوری فوٹیج دیکھی جائے تو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب نے کس طرح پولیس کی ساری محنت پر پانی پھیرنے کے بعد’ مردانہ وار‘ راہ فرار اختیار کی تھی۔ خان صاحب کی ’دلیری‘ کے اس بے مثال مظاہرے کا نتیجہ خدانخواستہ اگر کچھ اور ہوتا تو پھر؟ … یہ سوچ کر ہی خوف کی لہر رگ و پے میں دوڑ جاتی ہے۔ زمرد خان صاحب کی بہادری نے اس شخص کو موت کی سرحد پر لا کھڑا کیا جسے زندہ پکڑنے کے لیے ہی پوری کی پوری ریاستی مشینری پانچ گھنٹے سے سولی پر ٹنگی رہی تھی۔ ان بچوں کی جان خطرے میں ڈال دی جنہیں بچانا ہی اس پورے آپریشن کا مقصد تھا اور پھر اپنی پولیس کی یقینی کامیابی کو بھدے انداز میں گہنا کر رکھ دیا۔ منگل پانڈے چونتیس بنگال نیٹو انفنٹری کا سپاہی تھا۔ اس کے انفرادی فعل پر اس رجمنٹ کے نامناسب ردعمل کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے ختم کردیا جائے۔ 6مئی 1857ء کو اس فیصلے کو عملی جامہ یوں پہنایا گیا اس کے افسروں اور سپاہیوں کے سامنے ان کی نا اہلیت کا اعلان کرکے ان کی وردیاں اور تمغے اتروالیے گئے، تاکہ ان کی بے عزتی پوری بنگال آرمی کے لیے مثال بن جائے۔زمرد خان صاحب کو پولیس حصار توڑ نے کی سزا دیناتو شاید نامناسب ہے لیکن اتنا تو ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اس حفاظتی حصار کے ذمہ دار تھے ان سے پوچھا جائے کہ آخر موصوف کس طرح سکند ر حیات اور اُس کے بیوی بچوں کے قریب جا پہنچے!