"HAC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کا فرہاد

پہاڑوں کے بیچوں بیچ شیریں فرہاد کا مقبرہ دیکھ کر میں نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا۔ یہ مقبرہ کیا تھا بس تین چار فٹ اونچی چار دیواری میں گھرا کمرہ تھا جس کے عین درمیان میں عام سائز سے کچھ بڑی ایک قبر تھی۔ قبر کے سرہانے ویسا ہی سنگ مرمر کا ایک کتبہ لگا تھا جیسا عام طور پر قبروں پر لگا دیا جاتا ہے۔ چاردیواری ، کمرہ اور قبر پر لگا ہوا کتبہ ، سب کچھ نیا نیا لگ رہا تھا۔اس دور افتادہ علاقے میں اس مزار کی موجودگی ہی عجیب لگ رہی تھی اس لیے پہلی نظر میں یوں لگا کہ کسی ستم ظریف نے ہزار سال پہلے ایران کی اس داستان کا آخری باب بلوچستان کے پہاڑوں میں رکھ دیا ہے۔ مقبرے کے سامنے لیویز کی ایک چیک پوسٹ ہے جس میں سیاہ شلوار قمیض پہنے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ میرے ساتھی نے ان سے پوچھا‘ کیا یہ واقعی شیریں فرہاد کا مقبرہ ہے؟ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے بڑی شستہ اردو میں نہ صرف تصدیق کی بلکہ ان کی کہانی بھی سنائی۔ اس کہانی کے مطابق ایران کا ایک بادشاہ‘ بلوچستان کے اس دشوار گزار علاقے میں سڑک بنانا چاہتا تھا۔ کام کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے یہ اعلان بھی کردیا کہ جو یہ کارنامہ کر گزرے گا اسے بادشاہ کی بیٹی شیریں کا شوہر ہونے کا اعزاز بھی ملے گا۔ فرہاد جو پہلے سے ہی شیریں کی محبت میں گرفتار تھا، اس کام کے لیے تیار ہوگیا اور یہاں چلاآیا۔ جب اس نے پہاڑوں میں راستہ بنا لیا جس پر ہم چل رہے تھے تو بادشاہ اپنے وعدے سے پھر گیا اور خبر پھیلا دی کہ شیریں مر چکی ہے۔ یہ سنتے ہی فرہادنے اپنا تیشہ سر پر مار کر خودکشی کرلی۔ دوسری طرف کچھ عرصے بعد شیریں کے دل میں آیا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے کہ فرہاد نے یہ راستہ کہاں تک بنایا ہے۔ جب وہ اس جگہ پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ کس طرح فرہاد کو اس کے بارے میں جھوٹی اطلاع دے کر مرنے پر مجبور کردیا گیا تو اس نے بھی ایک پتھر سے خود کو ہلاک کرلیا اور وصیت کی کہ اسے فرہاد کی قبر میں ہی دفن کردیا جائے تاکہ بعد میں کوئی شیریں کو وعدہ شکن نہ کہہ سکے۔ یہ کہانی شیریں فرہاد کی اس داستان سے بالکل الگ ہے جو ایک ہزار سال پہلے فردوسی او ر پھر نظامی گنجوی نے دنیا کو سنائی تھی۔ میںنے اس داستان کی غلطیوں کو یہ سمجھ کر نظر انداز کردیا کہ لیویز کے ایک عام سپاہی کو اس بارے میں کیا معلوم ہوگا۔ یوں بھی ابھی آواران تین سو کلومیٹر دور تھا اس لیے میں آگے بڑھ گیا تا کہ دن کی روشنی میں زلزلے کی تباہ کاری اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔ آواران پہنچ کرایک لمحے کے لیے تو یوں لگا گویا زلزلے کی تباہ کاری محض ایک افسانہ ہے۔ شہر میں ہر عمارت اپنی بنیاد پر پوری مضبوطی سے کھڑی تھی۔ میں اپنے راہبروں سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ ہماری گاڑیوں کا قافلہ پکی سڑک سے اتر کرکچے راستے پر ہولیا۔ کچھ آگے بڑھے تو پکے مکانوں کی کچی چار دیواری میں کہیں کہیں شگاف نظر آئے۔ تقریبا چار کلو میٹر بعد ہم ڈھل بیدی پہنچ گئے ۔ ایک سو بیس کچے گھروں کی یہ بستی مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے کہ اس بستی میں صرف تین عمارتیں بچی ہیں، ایک سرکاری سکول ، ایک مسجد اورقمبرانی قبیلے کے معتبرحاجی محمد یعقوب قمبرانی کا پکا مکان۔ غریب قمبرانیوں کے کچے مکان مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور یہ سارے لوگ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کے فراہم کیے ہوئے خیموں میں سر چھپائے ہوئے ہیں۔ بلوچوں کی غیر معمولی خودداری اور جماعت اسلامی کی انتظامی صلاحیتوں نے مل کر ایک ایسا ماحول بنا رکھا تھا جس میں کوئی شخص کسی چیز کے لیے بے تاب نظر نہیں آرہا تھا۔ کیمپ کے ذمہ دار شبیر رخشانی نے بتایا کہ آفت زدہ ہونے کے باوجود کوئی بلوچ ہاتھ پھیلا کر مدد نہیں مانگتا۔ اگر آپ واقعی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو دوست بن کر تحفے کی صورت میں کرنا ہوگی۔میں نے سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کے بارے میں پوچھا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بستی کے سربراہ حاجی یعقوب قمبرانی کے پاس لے گیا، جو بستی کے سکول میں دریاں بچھائے لوگوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ حاجی صاحب اواران کے تحصیل ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ امدادی سرگرمیوں کی بات چلی تو انہوں نے صاف لفظوں میں بتا دیا کہ انہیں سکیورٹی اداروں کے ذریعے آنے والی امداد نہیں چاہیے؛ البتہ ہمارا کوئی بھائی سندھ سے آئے یا پنجاب سے، اس کی لائی ہوئی امداد ہم شکریے کے ساتھ قبول کریں گے۔ میں نے ان سے اس ناراضی کی وجہ پوچھی تو بولے ’’دیکھو برادر، جن گاڑیوں پر لگی بندوقوں سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے ، انہی گاڑیوں پر آنے والے آٹے کی روٹی کھانے سے کہیں بہتر ہے کہ میں بھوکا مرجاؤں‘‘۔ میں نے ادھر ادھر کی باتیں کرکے ماحول ذرا خوشگوار کیا اور پھر پوچھا کہ فرہاد کی قبر بلوچستان میں کیسے؟ حاجی صاحب نے وہی کہانی دہرا دی جو میں سن چکا تھا۔ میں نے عرض کی کہ آپ تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ فرہاد کا تعلق تو بلوچستان سے نہیں تھا۔ حاجی صاحب نے جو جواب دیا اس نے مجھے چونکا دیا۔ انہوں نے ہنس کر کہا: ’’میں تو سمجھا تھا تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ فرہاد ایک بلوچ تھا، لیکن تم دل بہلانے کے اس افسانے کو بھی ایرانی الاصل اور عربی النسل قرار دینا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، ہمارا فرہاد تو وہی ہے جس کی قبر تم دیکھ کر آئے ہو‘‘۔ ایک حاجی یعقوب ہی پر موقوف نہیں یہاں آپ کسی سے بھی بات کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ فرہاد کے افسانے سے لے کرنوجوانوں کی بے کاری کے اسباب تک، بلوچ ذہن نے بہت سے مفروضے قائم کررکھے ہیں جنہیں گفتگو کے دوران بطور حقائق پیش کیا جاتا ہے۔ بلوچ مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو بھی زمینی حقائق کی طرح تسلیم کیا جائے۔یہاں یہ بتانا بے وقوفی ہے کہ آپ کے ضلع میں موجود ہسپتال کو چلانا اور اواران سے ماشکے تک سڑک کی تعمیر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے وفاق کی نہیں، کیونکہ یہاں لوگوں کو وفاقی ادارے تو اپنے پورے طمطراق سے نظر آتے ہیں اور صوبائی حکومت کہیں نہیں ۔صوبائی حکومت کے دفاتر تو بند پڑے ہیں لیکن وفاق کی ایف سی کی چیک پوسٹ ہر دروازے پر قائم ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کی کارکردگی اور عام آدمی تک پہنچ کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے ہسپتال کی خوبصورت عمارت میں چودہ کی بجائے صرف چار ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ باقی دس کراچی اور کوئٹہ اپنے گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ ستائیس ٹیکنیشنز میں سے کوئی ایک بھی کبھی ہسپتال نہیں آیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضلعے کے سب سے بڑے مرکزِ صحت میں ایکسرے تو دور کی بات‘ خون کے گروپ معلوم کرنے کا بھی ٹیسٹ نہیں ہوسکتا۔ صوبائی ملازمین کی دیدہ دلیری کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ زلزلے کے بعد شہر میں وزیراعلیٰ کی چار دن مسلسل موجودگی بھی انہیں کام پر نہ لاسکی۔دستور نے تو بلوچستان کو پہلے صوبے کا درجہ اور پھر اختیارات بھی دے دیے ہیں لیکن عملی طور پرصوبائی حکومت کوئٹہ سے باہر اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ اپنی صوبائی انتظامیہ کے بارے میں ہر بلوچ یکسو ہے کہ یہ بدعنوان ترین لوگ ہیں جو مردوں کے کفن بھی بیچ کھاتے ہیں۔پہاڑوں پر چڑھے ہوئے مسلح گروہ بلوچستان کا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اصل مصیبت وہ انتظامی خلا ہے جسے پُر کرنے کے لیے وفاقی اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر مالک بلوچ کا چیلنج یہ نہیں کہ انہیں پہاڑوں پر چڑھے نوجوانوں کو راضی کرنا ہے، ان کا اصل کام یہ ہے کہ خضدار، قلات، آواران اور گوادر کے ہسپتالوں کو ٹھیک کیسے کرنا ہے۔ اس معاملے میں میاں نواز شریف کو بھی ڈاکٹر مالک پر پورا دباؤ ڈالنا ہوگا کیونکہ اندیشہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب مفاہمت کے نام پر بے عملی کا ایک نیا باب رقم کرنے جارہے ہیں۔بلوچ تناظر میں ڈاکٹر صاحب کی ناکامی ایک صوبائی حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ اسلام آباد کی کامیاب سازش سمجھی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں