’آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ ہمیں نہ صرف علم ہے بلکہ ہم اس کے لیے کوشش بھی کررہے ہیں۔ ہم ملک میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی کام کریں گے اور آپ دیکھیں گے 2013ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ایک بار پھر اقتدار سنبھال لے گی۔2010ء کے وسط میں یہ سب کچھ سردار آصف احمد علی مجھے اس لیے بتا رہے تھے کہ میں نے ان کی توجہ حکومت کی بے عملی کی طرف دلائی تھی۔ میں نے عرض کی کہ آپ کی بات بجا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2010ء میں آپ کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کربھی لیں تو اسے الیکشن تک مکمل نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں الیکشن کی گھنٹی ہمیشہ بجتی رہتی ہے، بات صرف یہ ہے کہ حکمرانوں کو اقتدار کے دنوں میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی اور وہ وقت ضائع کرتے چلے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے اقتدار کے ساٹھ میں سے پانچ مہینے گنوا کر بھی ہوش میں نہیں آ رہی۔ اس جماعت کا اثاثہ یہ عوامی تاثر تھا کہ مسائل سے آگاہ اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ان کی حکومت ملک کو مصائب سے نکال کر سیدھے راستے پر گامزن کردے گی۔ معیشت کی بحالی، بہتر طرزحکمرانی (Good Governance)اور دہشت گردی سے نجات کے تین نکات پر پاکستان مسلم لیگ ن الیکشن میں کامیاب ہوئی لیکن جیسے ہی اس جمہوری فتح نے حکومتی چولا پہنا تو معلوم ہوا کہ تجربے، دیانت اور اہلیت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے کتنے تہی دامن ہیں۔ اسحٰق ڈار کی معاشی کارکردگی کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے ایک جیالے نے تبصرہ کیا کہ ان کی مہارت کو دیکھ کر ہم شُکر کرتے ہیں کہ یہ صاحب پیپلزپارٹی کی حکومت سے چھ ہفتے بعد ہی الگ ہوگئے، اگر یہ چھ مہینے نکال جاتے تو ہماری حکومت بہت پہلے گر چکی ہوتی۔ بہتر طرز حکمرانی (Good Governance) کی کوئی محسوس ہونے والی مثال اب تک یہ حکومت قائم نہیں کرپائی، عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی حالت یہ ہے کہ چیف جسٹس کو بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر یہ تک کہنا پڑا کہ ’’اس سے اچھی تو آمریت تھی جس میں بلدیاتی انتخابات تو ہوتے رہتے تھے‘‘۔ لاپتہ افراداور بلوچستان میں امن و امان کے کیسوں کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ اس حکومت کا رویہ اپنی پیشرو جماعت سے مختلف نہیں ہے۔شفافیت کا عالم یہ ہے کہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا کہ چند وزراء کے بارے میں وہی سرگوشیاں سننے میں آرہی ہیں جو کبھی یوسف رضا گیلانی کے بارے میں کی جاتی تھیں۔نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں میں سے ایک یعنی پاکستان ریلویز کو درست کرنے کی ذمہ داری خواجہ سعدرفیق کو دی گئی تووہ پاکستان کو ایک اچھی ٹرین سروس مہیا کرنے کے لیے کام کرنے کی بجائے اس محکمے کی ’’زمینی‘‘ افادیت کے اتنے قائل ہوگئے ہیںکہ جذباتی ہوکر یہ فرما گئے کہ اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو وہ استعفٰی دے دیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نجی و سرکاری شعبے کی شراکت سے ریلوے چلانے کے ایک مسلمہ تجربے کہ چھوڑ کر انہوں نے ہندوستانی ریلوے کو اپنا ماڈل بنایا ہے جو سرکاری ملکیت میں ہونے کے باوجود منافع بخش ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں آئندہ کچھ سالوں میں بھارت جیسی سست ریلوے بنانی ہے یا امریکی ریلوے جیسی محفوظ اور تیز رفتار ٹرینیں چلانی ہیں؟ جذے سے تقریریں تو ہوسکتی ہیں، ریل نہیں چل سکتی۔ پی آئی اے اور سٹیل ملزکو اگرچہ نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ ہوچکاہے لیکن یہ کام کس طرح کرنا ہے اس کے بارے میں حکومت کے اندر کوئی جانتا ہے نہ باہر۔ ایک ابہام ہے جو نازک معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کے سدباب کے لیے حکومتی جماعت نے پسندیدہ ہتھیار مذاکرات کو قرار دیا اور اس پر قوم کو قائل کرکے ووٹ بھی لیے۔ لیکن اتنے اہم مسئلے پر اس کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے دہشت گردوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ لینے کا جو کام اقتدار سنبھالنے کے اگلے دن کیا جاسکتا تھا وہ تین ماہ بعد کیا گیا۔ حالانکہ جون کے مہینے میں بھی اس کانفرنس میں شامل جماعتوں کا مؤقف وہی تھا جو ستمبر میں سامنے آیا۔ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ہفتے میں مذاکرات کا بنیادی طریق کار طے کرکے سردیوں کی آمد سے پہلے پہلے اس معاملے پر کوئی ٹھوس پیشرفت ہو چکی ہوتی، لیکن ہوا یہ کہ اب سردیوں کے آغاز میں مذاکرات ہو بھی جائیں تو حکومت آئندہ چھ ماہ کے لیے مؤثر فوجی آپریشن کی آپشن سے محروم ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس کا سیدھا سیدھا فائدہ طالبان کو جاتا ہے جو بغیر کسی نقصان کے خوف کے اس عرصے میں خود کو زیادہ بہتر انداز میں منظم کرسکتے ہیں۔ تحریک طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات میں تاخیر دراصل ان مذاکرات مخالف گروہوں کو وقت دینے کے مترادف ہے جن کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ ان کا علاج طاقت کے استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔خدانخواستہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو فاٹا میں ایک ہمہ گیر آپریشن کے لیے اپریل 2014ء کا انتظار کرنا ہوگا، اور آئندہ چھ ماہ کے دوران کیا کچھ بدل جائے گا اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اسی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان نے بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات کے معاملے میں وزیر اعظم خود قائدانہ کردار اداکریں، کیونکہ اس حوالے سے جس تیزی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اس کا اختیار صرف وزیر اعظم کے پاس ہی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ٹیم ان کے اپنے دیے ہوئے تینوں خطوط پر جس انداز میں کام کررہی ہے، اس کے نتائج کے بارے میں زیادہ اچھی امیدوں کا اظہار مشکل ہے۔ یہ درست ہے کہ پانچ ماہ کی کارکردگی کسی حکومت کے بارے میںفیصلہ کن رائے قائم کرنے کے لیے کافی نہیں، لیکن یہ عرصہ سمت کے تعین اور قوت ِکار کا اندازہ لگانے کے لیے بالکل کافی ہے۔ اس سے پہلے کہ واقعات کی رفتار اتنی تیز ہوجائے کہ حکومت باگ و رکاب ہی کھو بیٹھے، وزیر اعظم عمران خان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے صرف مذاکرات ہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں با معنی مداخلت کے ذریعے اصلاح احوال کی کوشش کرلیں۔ ان کی ٹیم کے اخلاص میں تو کوئی شک نہیں لیکن مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ضرور لگ رہے ہیں۔