ہنگو میں حقانی نیٹ ورک کے پانچ افراد کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کا وہ دروازہ بند کردیا ہے جس پر دستک دینے کا فیصلہ ہماری سیاسی قیادت نے متفقہ طور پر کیا تھا۔ اس سے پہلے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ اور نصیر الدین حقانی کا اسلام آباد میں قتل واقعات کے ایک ایسے سلسلے کی کڑیا ں ہیں جس کا انجام پاکستان کواپنے ہی علاقے میں ایک اور (فوجی؟)آپریشن کی طرف دھکیل دے گا۔مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے حوالے سے عمران خان، چودھری نثار علی خان اور مولانا فضل الرحمن کی خوش گمانیوں کو ایک لمحے کے لیے درست بھی مان لیا جائے تو اگلا سوال یہ ہوگا کہ ہمارے پاس طالبان کو دینے کے لیے آخر ہے ہی کیا؟ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمینی حقائق کی تفہیم کے بغیر ہماری سیاسی قیادت کی طے کردہ مذاکراتی حکمت عملی ایک ہی چال میں الٹ کر رہ گئی۔ اب ایک بارپھر ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں آج سے دو مہینے قبل ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس سے پہلے کھڑے تھے۔ حکومت خاموش ہے، عمران خان ایک اورکُل جماعتی کانفرنس کی دہائی دے رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن قبائلی جرگے کا ڈھول بجاتے ہوئے کبھی حکومت کے پاس جاتے ہیں اور کبھی اپنی ہی جماعتی شوریٰ سے اس کی نئی توثیق لے کر پریس کانفرنس سے خطاب فرما دیتے ہیں۔جو بات یہ سب فریق نظرا نداز کیے ہوئے ہیں یہ ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس
کی سب سے بڑی زمینی طاقت کا نام امریکہ ہے اور ہمارے خطے میں یہ براہ راست ان لوگوں سے نبرد آزما ہے جن سے ہم مذاکرات کا ڈول ڈال رہے ہیں۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی بھی ایسی پیشرفت جس میں امریکہ شامل نہیں ہوتاایسی بے معنی مشق ہوگی جو بیان بازی کے لیے تو مناسب ہوسکتی ہے لیکن عمل کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خطے میں بچھی بساط کے سب سے بڑے کھلاڑی امریکہ کو یہ گوارا نہیں کہ فاٹا میں موجود طالبان پاکستانی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرکے ایک بار پھر ان عناصر کو پناہ گاہیں مہیاکرنا شروع کردیں جو افغانستان میں اس کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔اگر حکومت مذاکرات کو ہی ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا واحد حل سمجھتی ہے تو پھر اسے امریکہ کو بھی یہ یقین دلانا ہوگا کہ کامیاب مذاکرات کا مطلب فاٹا کو افغان طالبان کا بیس کیمپ بنانا نہیں بلکہ اس علاقے کو ہر قسم کے جنگجوؤں سے خالی کرانا ہے ۔ان یقین دہانیوں کے بغیر شروع ہونے والے مذاکرات کی اوقات اتنی ہی ہے کہ ایک ڈرون حملہ انہیں ختم کردے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حکیم اللہ اور حقانی نیٹ ورک کے پانچ افراد کو دو حملوں میں نشانہ بنا کر دنیا میں ڈرون کے خلاف ہماری ممکنہ سفارتی مہم کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی ہے۔ اس وقت اگر ہم سکیورٹی کونسل میں بھی اس مسئلے کو اٹھائیں گے تو ہم سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ ڈرون اس لیے بند کرانا چاہتے ہیں تاکہ اس قسم کے لوگوں کو بچا سکیں؟ جب ہم اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے تو نیٹو سپلائی پر اپنا کنٹرول بھی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرپائیں گے۔ یوں بھی افغانستان کے شہر ہرات سے ایرانی بندرگاہ بندرعباس تک سڑک مکمل ہوچکی ہے اورامریکہ کی طرف سے بہت تھوڑی رعایتوں کے بدلے میں ایران اسے واپسی کا راستہ دینے کو تیار ہوجائے گا ۔ یوں امریکی مقاصد تو حاصل ہو جائیں گے لیکن پاکستان کو اس سارے جھنجھٹ میں سوائے عالمی رسوائی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری پر ایک بدنما داغ ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہمیں ڈرون حملوں کی وجہ سے مظلوم نہیں بلکہ دہشت گردی پر قابو نہ پا سکنے کی وجہ سے ایک غیر سنجیدہ ریاست سمجھتی ہے۔ حکیم اللہ محسود تو چلیے امریکہ کو ایک مطلوب شخص تھا جو ایک ایسے علاقے میں رہ رہا تھا جہاں حکومتی ادارے منظم نہیں ہیں، لیکن ہنگو کے واقعے نے ایک بار پھر ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی برامدگی کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقے کے ایک مکان میں امریکہ کو اگر اپنے دشمن مل جاتے ہیں تو پھر دنیا ہم سے ہی پوچھے گی کہ آپ کے ادارے نا اہل ہیں یا شریک جرم؟ ہمیں اس عیاشی کو موقع حاصل نہیں رہا کہ اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر سوال کرنے والوں کو خاموش کردیں۔ ہمارے لیے تو یہ گنجائش نائن الیون کے واقعے سے پہلے بھی موجود نہیں تھی کیونکہ دنیا کو بدل دینے والے اس واقعے سے پہلے بھی ایمل کانسی اور یوسف رمزی کے مسئلہ پر امریکہ نے ہمیں معاف نہیں کیا تھا۔یوں بھی ایٹم بم رکھنے والے کسی ملک کو یہ آزادی حاصل نہیں ہوتی کہ وہاں غیر ریاستی ایجنڈے کو فروغ دینے والے دہشت گرد سرگرم ہوں اور وہاں کی حکومت کچھ کرنے کی بجائے ابہام و بے عملی کا شکار رہے۔ پاکستان ، یہاں کے سیاستدان اور دیگر ریاستی ادارے کچھ بھی سمجھتے رہیں، مہذب دنیا یہی سمجھتی ہے کہ یہاں کی ریاستی مشینری دہشت گردی کے خطرات سے نہ صرف پوری طرح آگاہ نہیں بلکہ اس خطرے کو طرح طرح کے نظریاتی رنگ دے کر جواز بخشنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا اظہار ہفتے کے روز عمران خان نے پشاور میں اپنی تقریر میں یہ بتا کر کر بھی دیا کہ کس طرح جنرل پرویز مشرف کے ایک وزیر نے انہیں بتایا کہ افغان جنگ جتنی لمبی چلے گی اتنے ہی زیادہ ڈالر ملیں گے۔عمران خان کو معلوم ہے ڈالر لینے والے کون لوگ ہیں اور کس طرح ایک بار پھر اس جنگ کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
فرانس کو دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے قبضے سے چھڑا لینے والے چارلس ڈیگا ل نے دنیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے بارے میں کہا تھا کہ 'امریکہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے‘۔ اس فقرے کی صداقت پچپن سال گزرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوئی اور پاکستان کے لیے اس وقت تو افغانستان میں براجمان امریکہ باقاعدہ ایک پڑوسی بھی ہے۔ ہم خودمختاری، اقتداراعلیٰ اور مذاکرات کے نام پراس حقیقت سے نظر نہیں چرا سکتے کہ امریکہ اس وقت واحد سپرپاور ہے جس کے ایک ہاتھ میں نیٹو ہے تو دوسرے ہاتھ میں اقوام متحدہ۔ پاکستان کے حالات بالخصوص اور دنیا کے حالات بالعموم یہ اجازت نہیں دیتے کہ امریکہ کے ساتھ معاملات کو خراب کرکے ہم اپنے لیے مصیبتیںمول لے لیں۔