حکمران جماعت میں اہلیت مسئلہ ہے یا نیت؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ17دسمبر کو وفاقی کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی طالبان کے ساتھ مذاکرات کو پہلی ترجیح قرار دیتی ہے اور اگلے ہی دن شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر خودکُش حملہ ہوجاتا ہے۔اس حملے کے جواب میں جو فوجی کارروائی شروع ہوئی اس میںاب تک 33 'دہشت گرد ‘ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ کارروائی اتنی ہمہ گیر ہے کہ علاقے کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید حکومت نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے۔ یہ تاثر متاثرہ علاقے کے لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن اورعمران خان تک بھی ایسی ہی اطلاعات پہنچ رہی ہیں کہ شمالی وزیرستان اس وقت ایک فوجی آپریشن کی زدمیں ہے، اسی لیے ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے باوجود یہ دونوں رہنما محتاط انداز میں حکومت سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہے یا جارحانہ حکمت عملی اختیار کرچکی ہے؟ طالبان سے مذاکرات کے حامی یہ دونوں رہنما اس بات پر حیران ہیں کہ ستمبر میں آل پارٹیزکانفرنس میں مذاکرات کے فیصلے کے بعد لوئر دیر میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔ پھریکے بعد دیگرے پشاور میں قصہ خوانی بازار، سیکرٹریٹ کی بس اور ایک چرچ کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا لیکن یہ نہیں ہوا کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر دہشت گردوں کے خلاف کوئی بڑا آپریشن شروع کردیا جائے، تو اب حالات میں وہ کیا تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے سکیورٹی ادارے
میدان میں اتر آئے ہیں۔یہ بات بالکل درست ہے کہ مذاکرات کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان کو کارروائیوں کی کھلی چھٹی دے دی جائے لیکن یہ بھی تو کوئی طے کرے کہ کسی واقعے کے ردعمل کی حد کیا ہوگی؟شمالی وزیرستان کی چیک پوسٹ پر دہشت گردی کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے کے لیے ایک بڑی تفتیشی کارروائی ہوتی اوراس میں مزاحمت کرنے والوں پر سختی کی جاتی تو بات سمجھ میں آتی لیکن ایک ایسی فوجی کارروائی جس میں بھاری ہتھیار استعمال ہورہے ہوں ، قابلِ فہم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں یہ فوجی کارروائی مقامی سطح پر دہشت گردی کے جواب کے کسی خودکار میکینزم کا حصہ ہو۔اگر ایسا ہے تو پھر اس بات کی وضاحت اعلٰی ترین سطح سے ہونی چاہیے ۔ عام پاکستانی کو تو یہی معلوم ہے کہ وفاقی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی طالبان سے مذاکرات کی ہے، شمالی وزیرستان میں گزشتہ چار دن سے جاری کارروائی اس پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی۔یہ ایک واقعاتی اور وقتی پیشرفت ہے یا پالیسی میں کسی خفیہ تبدیلی کا اعلان، ہر دو صورتوں میں عام لوگ نہ سہی پارلیمنٹ کو بتا دیا جائے کہ برسرِ زمین کیا ہورہا ہے۔ شمالی وزیرستان پرحکومتی خاموشی (بے عملی) کی وجہ سے یہ تاثر بڑھتا جارہا ہے کہ اس معاملے میں تمام ریاستی ادارے اب ایک ہی صفحے پر نہیں رہے بلکہ الگ الگ ردعمل دے رہے ہیں۔
حکومتی صلاحیت کے بارے میں ایک اور سوالیہ نشان نادرااور پیمرا کے سربراہوں اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو یکے بعد دیگر ے ہٹانے کی کوششیں ہیں۔ان عہدوں پر فائز حضرات کی بذریعہ عدالت بحالی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کے فیصلوں پر دیگر ریاستی و آئینی اداروں کا ردعمل کیا ہوگا۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک اور اکاؤنٹنٹ جنرل طاہر محمود کو ہٹانے کی وجہ سے تو حکومت پر براہ راست دھاندلی اور بدعنوانی کو چھپانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ نادرا کے کیس میںتو بالیقین یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی طارق ملک نے ووٹوں کی تصدیق کے لیے پنجاب کا رُخ کیا انہیں حکومتی عتاب کا نشانہ بنا دیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ 2013 ء کے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں اور مقناطیسی سیاہی کی تصویر کا وہی پہلودرست ہو جس کی طرف وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان چیخ چیخ کر توجہ دلا رہے ہیں، لیکن اس فیصلے کے لیے وقت کا انتخاب اتنا غلط ہے کہ اب حکومت اپنے چہرے پرملی جانے والی کالک مٹا نہیں سکتی۔ اسی طرح کا معاملہ اکاؤنٹنٹ جنرل طاہر محمود کا ہے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے وزارت خزانہ میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں پرکچھ کارروائی کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ شاید بھول گئے تھے کہ وزارت خزانہ وزیراعظم کے سمدھی کے پاس ہے اس لیے ان کا وہی انجام ہوا جو پاکستان میں ایسے لوگوں کا ہوا کرتا ہے۔ بجائے اکاؤنٹنٹ جنرل کے لگائے ہوئے الزامات کوغلط ثابت کرنے کے، حکومت نے انہیں اپنے عہدے سے ہی معطل کرنے کی ٹھان لی۔ کسی نادان دوست کے مشورے پر کیے گئے اس اقدام کی وجہ سے وزیرخزانہ اسحق ڈار کی عزت میں اضافہ نہیں بلکہ کچھ کمی ہی واقع ہوئی ہے۔ اگر برطرفی و معطلی کی ان کارروائیوں سے سرکاری اہلکاروں کو یہ سمجھانا مقصود تھا کہ آئندہ سرکار کی ہر حرکت کو شفاف اندازِ حکمرانی ہی سمجھا اور لکھا جائے تو پھر بھی حکومت ناکام ہی رہی ہے کہ آج کے سرکاری اہلکار بھی میڈیا اور عدلیہ کے ہاتھوں اتنے ہی مجبور ہیں جتنی خود حکومت۔
حکومت کی کمزور گرفت کی تیسری نشانی معاشی میدان میں اس کی کارکردگی ہے۔ اگر چہ مسلم لیگ ن اپنی پیشروحکومت کی معاشی کارکردگی کو بنیاد بنا کر خود کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن عام آدمی یہ دعویٰ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اشیائے ضرورت کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں ، بجلی کی بلوں میں اضافہ اور ایندھن کی گرانی نے مل کر یہ تاثر مکمل طور پر زائل کردیا ہے کہ اسحق ڈار ایک اچھے وزیر خزانہ ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اقتدار میں آئے تھے کہ ان کی حکومت اُن لوگوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کرے گی جو پہلے نہیں دے رہے، لیکن اپنے پہلے بجٹ میں انہوں نے اس حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کی بجائے موجود ٹیکس گزاروں کے گلے میںہی صافہ ڈال دیا۔افراط زر، روپے کی قدر اورقرضوں پر شرح سُودکے اشارے ہرگزرتے دن کے ساتھ وزیرخزانہ کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ اسی طرح سرکاری ملکیت میں چلنے والے ادارے ہیںجن کی نجکاری کا فیصلہ کرکے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ اتنے تباہ ہو جائیں گے کہ کچھ عرصے بعد انہیں کوئی مفت میں بھی خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ ڈار صاحب کے کہنے پرہی بجلی و گیس چوری کے خلاف ایک ہمہ گیر آپریشن بڑے تزک و احتشام سے شروع کیا گیا لیکن خاموشی سے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ اس حوالے سے تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بجلی و گیس چوروں کی مدد کے لیے خود حکومتی جماعت کے اندر لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس بھاری پتھرکوچوم کر چھوڑ دیا گیا۔اس کارکردگی کو بیان کرنے کے بعداگر کوئی ان سے ان کی معاشی مہارت کے بارے میں سوال کرے تو غصے میں آکر قسمیں کھاتے ہیں اور استعفے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔وزیر خزانہ کا رویہ اورموجودہ معاشی حالات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اس میدان میں بھی حکومت نے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے دعووں سے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دی ہے۔کہنے کو تو پسپائی بھی ایک حکمت عملی ہی ہے لیکن چھ مہینے مسلسل پسپائی؟