باتیں تو ستمبر سے ہورہی تھیں لیکن حتمی فیصلہ اکتوبر میں ہوا کہ جرمنی میں پاکستان کے سفیر عبدالباسط ملک کے نئے سیکرٹری خارجہ ہوں گے۔وزارت خارجہ کی سرتاج عزیز لابی کے لیے یہ فیصلہ ناقابل برداشت تھا کیونکہ عبدالباسط کے بارے میں گمان تھا کہ وہ طارق فاطمی کے آدمی ہیں ۔اب اعلیٰ ترین سطح پر فیصلہ ہوچکا تھا اور وزیر اعظم نے مستقبل کے سیکرٹری خارجہ سے ملاقات کرکے انہیںاپنی حکومت کی بین الاقوامی ترجیحات سے آگاہ بھی کر دیا تھا۔اپنی نامزدگی کے کچھ دن بعد عبدالباسط برلن پہنچے اور جرمنی کی وزارت خارجہ کو با ضابطہ اطلاع دے دی کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں کیونکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں انہیںپاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے طور پر چارج لینا ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد حسب ِ روایت جرمنی میں مقیم پاکستانیوں نے اپنے ملک کے سفیر کو الوداعی کھانوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ پاکستانی سفارتکاروں کے ذریعے یہ خبر دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں پھیل گئی تو اسلام آباد سے آنے والی خبروں کا رنگ بدل گیا۔ اب یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت عبدالباسط کی بطور سیکرٹری تعیناتی پر نظرثانی کررہی ہے۔ 'کیا وزیر اعظم نے بغیر سوچے سمجھے یہ فیصلہ کرلیا تھا جو اسے بدلنے کی ضرورت پیش آگئی ؟‘یہ سوال ہر ذہن میں تھا لیکن وزیراعظم کے احترام میں زبان پر نہیں آرہا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نئے سیکرٹری کے خلاف ڈٹ گئے تھے اور وزیر اعظم کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کررہے تھے۔ سرتاج عزیز کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اگر عبدالباسط سیکرٹری خارجہ بن جاتے ہیں تو پھر وزارت خارجہ عملی طور پر طارق فاطمی کے قبضے میں چلی جائے گی اس لیے کچھ بھی ہو یہ فیصلہ تبدیل ہوناچاہیے۔ اس مقصد کے لیے عبدالباسط کے مقابلے میں افغانستان میں ہمارے سفیر محمد صادق کو میدان میں اتارا گیا اور عبدالباسط کو پیغام بھیج دیا گیا کہ جرمنی میں کام جاری رکھیں۔
عبدالباسط کے لیے ان احکامات کی پابندی مشکل تھی کیونکہ وہ نہ صرف جرمن حکام کو اپنی روانگی کے بارے میں آگاہ کر چکے تھے بلکہ الوداعی ڈنر بھی لے چکے تھے۔ ایسی صورت میں اگر وہ دوبارہ بطور سفیر کام شروع کردیتے تو اس سے نہ صر ف انہیں شرمندگی ہوتی بلکہ پاکستان کی بھی بدنامی ہوتی۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اب وہ جرمنی میں کام نہیں کریں گے۔طارق فاطمی نے پُر سکون انداز میں سرتاج عزیز کا یہ وار برداشت کیا اور ایک بار پھر متحرک ہو ئے۔ انہوں نے میاںشہباز شریف کا کندھا بھی استعمال کیا اور سرتاج عزیز کے امیدوار کے مقابلے پر اعزاز چودھری کی صورت میں اپنا امیدوار لے کر وزیر اعظم کے پاس پہنچ گئے۔اس بار انہوں نے انتہائی خوبصورتی سے سرتاج عزیز کو یوں ہزیمت سے دوچار کیا کہ محمد صادق کے بارے میں وزیراعظم کو قائل کرلیا کہ انہیں بجائے سیکرٹری خارجہ لگانے کے نئے بننے والے نیشنل سکیورٹی ڈویژن کا سیکرٹری لگا دیا جائے ۔ان کی دلیل تھی کہ یہ محکمہ چونکہ براہ راست سرتاج عزیز کی نگرانی میں کام کررہا ہے اور سکیورٹی کے مسائل کا تعلق بھی افغانستان سے ہی جڑتا ہے، اس لیے محمد صادق اس عہدے کے لیے بہترین آدمی ہوں گے۔ اس کے بعد سیکرٹری خارجہ کے لیے موزوں ترین افسر اعزاز چودھری باقی بچے جن کو سیکرٹری خارجہ لگانے میں وزیر اعظم کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔
سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کے درمیان جاری اس رسہ کشی کی ایک مثال بھارت میں پاکستانی سفیر کا تقرر بھی ہے۔ بھارت میں پاکستان کا سفیر ہونا وزارت خارجہ میں ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کے پیشِ نظر اس ملک میں سردوگرم چشیدہ سفارت کار کو ہی لگایا جاتا ہے۔ اکتوبر میں وزارت خارجہ کے سینئر افسر سید ابنِ عباس کو بھارت کے لیے سفیر نامزد کیا گیا اور بھارتی وزارت خارجہ کو بھی ان کے تقرر کی دستاویزات بھیج
دی گئیں۔ ابن عباس اپنے کام سے کام رکھنے والے سینئرسفارتکار ہیں لیکن ان کی بھارت میں بطور سفیر تقرری پر طارق فاطمی لابی کے پیٹ میں مروڑ اٹھ ر ہے تھے کیونکہ اس تقرری میں بھی سرتاج عزیز کا ہاتھ تھا۔ جب عبدالباسط کے سیکرٹری خارجہ بننے میں رکاوٹ آگئی اور انہوںنے جرمنی میں کام کرنے سے معذرت بھی کرلی تو ان کے شایان ِ شان عہدہ صرف بھارت میں سفارتکاری ہی بچا تھا۔ اس لیے اعزاز چودھری کی بطورسیکرٹری خارجہ منظوری کے ساتھ ہی وزیراعظم سے یہ بھی منوالیا گیا کہ بھارت میں ابنِ عباس کی جگہ عبدالباسط سفیر ہوں گے۔وزارت خارجہ میں جاری سرکس میں یہ نیا کرتب دکھایا گیا تھا کہ ایک شخص کو سفیر نامزد کرنے کے بعد اس کا نام اس وقت واپس لے لیا گیا جب میزبان ملک نے تحریری طور پر سید ابن عباس کی تقرری پر اظہار اطمینان کردیا تھا۔ پاکستان کی اس انوکھی حرکت سے بھارت میں ہماری حکومت اور فیصلہ سازی کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ شاید ہمارے عسکری ادارے سید ابن عباس کی تقرری کے خلاف ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وزارت خارجہ کے پیرانِ تسمہ پا کی باہمی رقابت ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی تھی۔
وزارت خارجہ کے اندر جاری مشیر ومعاون کی جنگ اب اختیارات کی حدوں سے نکل کر پالیسی سازی کو زد میں لیے ہوئے ہے۔مشیر خارجہ جس ملک کے دورے سے منع فرماتے ہیں معاون صاحب وزیر اعظم کو اسی ملک میں کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے کم ازکم دو غیر ملکی دوروں کے بارے میں تو کہا جارہا ہے کہ ان کے پیچھے صرف اور صرف طارق فاطمی صاحب کی انا کارفرما تھی ورنہ پاکستان کو ان سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔اپنی ہی پارلیمنٹ سے وزارت خارجہ اتنی لاتعلق ہے کہ اسے عین وقت تک یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ پارلیمنٹ بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف قرارداد منظور کرنے جارہی ہے۔ اس قرار داد کے باوجود طارق فاطمی اپنے بنگلہ دیشی دوستوں کی خاطر وزارت خارجہ کو منقار زیرپر رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ایک طرف مشیر امور خارجہ فرماتے ہیں کہ بھارت سے بامعنی پیش رفت کے لیے ہمیں وہاں الیکشن کا انتظار کرنا ہوگا لیکن معاون امور خارجہ میاں شہباز شریف کو لے کر بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دلی پہنچ جاتے ہیں۔ دیگر اداروں سے ہماری وزارت خارجہ کتنا سروکار رکھتی ہے اس کا اندازہ یوں کرلیجیے کہ راولپنڈی میں بیٹھنے والے ایک دل جلے نے تو کہہ ڈالا کہ وزارت خارجہ کے مشیر صاحب کچھ کرتے نہیں ہیں اور معاون صاحب کچھ سنتے نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طارق فاطمی پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے وہی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو پیپلزپارٹی کے لیے حسین حقانی بجا لاتے تھے۔
خارجہ امور میں پائی جانے والی بدنظمی کا ذمہ دار کون ہے اس بارے میں کچھ کہنا لاحاصل ہے لیکن دنیا ٹی وی کے رپورٹر عیسیٰ نقوی نے اس بارے میں جو لطیفہ سنا یا وہ یہ ہے کہ ' وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وزیر دفاع میاں نواز شریف اوروزیر خارجہ میاں نواز شریف سے ایک ملاقات کی جس میں طے پایا کہ جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر کام چلتا رہے گا‘۔