''بادشاہ سلامت ! ہم آپ کی خدمت اقدس میں یہ بتانے کے لیے حاضرہوئے ہیں کہ آپ کو آپ کی بھوکی ننگی رعایا کے متعلق بتا سکیں۔ آپ کے مقرر کردہ سرکاری افسر آدم خور بھیڑیے بن چکے ہیں وہ آپ کی غریب پروری کے برعکس غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بے شک ملک و قوم کی فلاح کے لیے آپ کا ہر فیصلہ ہمیں دل و جان سے عزیز ہے لیکن ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ ہم پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنا ہم اٹھا سکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا سایہ تا قیامت ہمارے سروں پر رہے۔ آپ کی اور آپ کے اہل خاندان کی فرمانبرداری ہی ہمارا سب بڑا اعزاز ہے جو ہمیں جینے کا حوصلہ بخشتا ہے۔‘‘ یہ مضمون اُن عرضداشتوں کا ہے جو اٹھارویں صدی کے آخر میں عوام کی جانب سے فرانس کے فرمانروا کو اور سو سال بعد روس میں زار کے حضور ان کی رعایا نے پیش کیں۔ ان میں زبان اور زمانے کا فرق تو ہے لیکن ان دونوں کا انجام ایک ہی ہوا یعنی بادشاہوں نے انہیں ماننے سے انکارکردیا۔ انکاروں سے انقلاب نے جنم لیا ، پہلے فرانس میں عوام نے بادشاہ اور اس کے خاندان کو محل سے نکال کر ان کی گردنیں کاٹ ڈالیں اور پھر روس میں رعایا اپنے ظل الٰہی پر چڑھ دوڑی۔بر صغیر پاک و ہند کو آزاد کرانے والی سیاسی جماعتیں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ابتدا دیکھ لیں۔ یہ دونوں جماعتیں اس لیے وجود میں آئیں کہ 'انگریز
حکومت کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے عوام کو منظم کریں‘۔ ان دونوں جماعتوں نے انگریز حکمرانوں کو یاد داشتوں، سپاس ناموں حتیٰ کہ قصیدوں کے ذریعے ہندوستانی رعایا کی امور مملکت میں شمولیت پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ انگریز نے جب یہ سب کچھ نظر انداز کیا تو تقاضا بڑھ کر مکمل اندرونی خودمختاری کے مطالبے تک پہنچ گیا ۔ گورے حکمران نے اس مطالبہ پرلوگوں کو حکومت میں شریک کرنے کا جھوٹا سچا ڈرامہ رچایا تو اس کی کوکھ سے آزادی کے نعرے نے جنم لے لیا۔ آزادی کو روکنے کی خاطر اندرونی خود مختاری کے مطالبے پر غور شروع کیا، دستور بنایا لیکن اب وقت گزر چکا تھا اور وہی دو جماعتیں جو سات سمندر پار بیٹھے بادشاہ کی باجگزار ہونے پر فخر کرتی تھیں خم ٹھونک کے میدان میں آگئیں۔
مشرقی پاکستان کا معاملہ دیکھ لیں، بات چلی کہ بنگالی کو بھی قومی زبان بنا لیا جائے تو اسے نوجوانوں کی گرم مزاجی قراردے کر نظر انداز کردیا گیا۔ پھر درخواست ہوئی کہ کسٹم ہاؤس کی ایک شاخ مشرقی پاکستان میں بھی ہونی چاہیے۔ اسے بھی نہ مانا گیا تو تقاضا ہوا کہ اب شاخ نہیں ایک الگ کسٹم ہاؤس چاہیے۔ جب کسٹم ہاؤس کی ایک شاخ بن گئی تو تاخیر اتنی ہوچکی تھی کہ اسے بھی ایک سازش قرار دے کر رد کردیا گیا۔ کیونکہ اب چھ نکات کی بات ہورہی تھی جن کے مطابق مشرقی پاکستان کو شاخ نہیں پورا کسٹم ہاؤس چاہیے تھا، اپنی معیشت الگ کرنا تھی حتیٰ کہ فوج کا مطالبہ بھی ہورہا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں کہ معاملات ، حقوق، مطالبات اور مظاہروں سے ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں عوام کبھی اپنے حکمرانوں کے خلاف یک لخت نہیں اٹھتے، وہ پہلے درخواستیں کرتے ہیں ، پھر تقاضے کرتے ہیں اور آخرکار معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ تاریخ میں واقعات کی اسی ترتیب کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے واضح کیا ہے ۔
1973ء کے آئین کے آرٹیکل (A)140میں واضح لکھا گیا ہے کہ صوبے قانون سازی کے ذریعے با اختیاربلدیاتی ادارے بنائیں گے اور ان کے انتخابات الیکشن کمیشن کرائے گا۔ صوبوں پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا جو حال ہے وہ سب جانتے ہیں، سو اس معاملے میں صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ناکام ر ہیں۔ جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے پہلے تو ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے 2008ء میں بلدیاتی ادارے بغیر کسی وجہ کے برباد کیے اور اب گزشتہ چھ سال سے مسلسل بلدیاتی انتخابات کو ٹالتی چلی آرہی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ان دونوں پارٹیوں کا (اور اب پاکستان تحریک انصاف کا بھی) ریکارڈ اتنا خراب ہے کہ ان کے ذمہ دار افراد سے بھی سچ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان پارٹیوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جو قانون سازی کی ، اس میں جان بوجھ کر اتنے خلا چھوڑ دیے کہ یہ عدالت سے لے کر مخالف سیاسی جماعتوں تک کسی کے لیے بھی قابل قبول نہ رہے۔ قانو ن سازی اور حلقہ بندی کے نہ ختم ہونے والے اس کھیل کے پیچھے وہی سوچ ہے جو یہ برداشت نہیں کرتی کہ دیہات ، قصبوں اور شہروں میں عام لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوںاور اسی راستے سے نئی قیادت اقتدارکی دعویدار بن کر ابھرے۔ دستور کی حد تک پاکستان ایک ایسا وفاق ہے جس میں مختلف صوبائی اکائیاں شامل ہیں، لیکن اس کے ہر صوبے میں مختلف لسانی اور جغرافیائی اکائیاں اپنا توانا وجود رکھتی ہیں جن کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
سندھ میں یہ بے چینی سیاسی صورت اختیار کرچکی ہے۔ بدلے ہوئے زمانے میںبے چینی کا باعث وفاق اور صوبوں کی رسہ کشی نہیں بلکہ ہر صوبے کے اندرطاقت کا عدم توازن ہے۔لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بیٹھی ہوئی حکومتیں اس بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر پارہیں جو اٹھارویں ترمیم کی صورت میں اسلام آباد نے کیا تھا۔الطاف حسین نے بلدیاتی اداروں کے بغیر چلنے والی جمہوریت کے کھوکھلے پن سے آگاہ کردیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر صوبوں میں رہنے والوں کو وفاق سے کوئی شکایت ہو یا انہیں حقوق نہ مل رہے ہوں تو صوبے کی علیحدگی کا مطالبہ یا اعلان کردیاجائے۔البتہ ایسے مطالبات کی وجوہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ان مسائل کا تدارک ہونا چاہیے جو اس قسم کے مطالبات کی وجہ بنتے ہیں۔علیحدگی کی بجائے اتحاد و اتفاق میں ہی اس ملک کی بقا اور مسائل کا حل ہے۔