دریا کے کنارے مورچہ بند پاکستانی فوجی ہر آہٹ پر چوکنے ہوجاتے کہ شاید دوسرے کنارے پر موجود دشمن انہیں نشانہ بنانے کے لیے آگے آرہا ہے۔ دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے انہوں نے دریا پرموجود قریبی پُل تباہ کردیے تھے۔ اب اگر دشمن حملہ کرنا بھی چاہتا تو اسے پہلے دریاپار کرنے کا بندوبست کرنا پڑتا۔ دشمن کی غیر معمولی قوت کے پیش نظر پاکستانی فوجیوں کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اسے ہر صورت میں دریا پار کرنے سے روکتے۔گزشتہ دو دنوں میں انہوں نے مختلف چالوں سے دشمن کو بے فائدہ گولہ باری میں مصروف رکھا تھا لیکن یہ طے تھا کہ وہ دریا پار کرنے کی کوشش کرے گا اس لیے دریا کی سمت سے آنے والی ہوا کی بھی نگرانی کی جارہی تھی۔ تیسری رات کا پہلا پہر تھا کہ یوں محسوس ہوا‘ دریا میں کوئی تیر رہا ہے۔ مجبوری یہ تھی کہ روشنی نہیں کہ جاسکتی تھی مبادا اسے دیکھ کر دشمن کمین گاہ سے آگاہ نہ ہوجائے۔ تیرنے کی آواز سے یوں لگ رہا تھا کہ دریا کے ذریعے آنے والا کوئی بہت ہی مشاق ہے جو ہلکی سی حرکت سے خود کو سطح آب پر رکھے ہوئے ہے۔ ان فوجیوں کے نوجوان افسر کے اعصاب یہ سوچ سوچ کر کشیدہ تھے کہ نجانے یہ ایک شخص ہے یا پوری بٹالین، یہ دشمن کی کوئی چال بھی ہوسکتی تھی کہ سب لوگ اس طرف متوجہ ہوں اور وہ کسی اور طرف سے کارروائی کر گزرے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یہ محض کوئی آبی جانور ہو۔آخر کار ایک تیراک کو دریا میں اتارا گیا کہ وہ پانی میں اس آوازکا سراغ لگا کر آئے۔ نومبر کی سرد رات کو یہ سرفروش دریا میں اترا اور ابھی تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ
وہ پر اسرار آواز خاموش ہوگئی۔ سپاہی بھی اس خاموشی کا حصہ بن کر مزید کسی حرکت یا آواز کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ہی اسے اپنے قریب سے ایک سوالیہ سرگوشی سنائی دی 'پاکستان؟‘۔ اس نے آواز کی سمت کا تعین کرکے 'زندہ باد‘ کی جوابی سرگوشی کے ساتھ ہی 'پاکستان‘ کہنے والے کو جھپٹ لیا۔ پکڑا جانے والا ایک عمر رسیدہ بوڑھا تھا۔ جب اس کو نوجوان افسر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ پاک فوج کو آگاہ کرنے کے لیے آیا ہے کہ دریا کی دوسری طرف دشمن نے ایک عارضی پُل کا بندوبست کرلیا ہے اور کل رات وہ دریا پار کرلیں گے۔ یہ سن کر افسر کے خون کی گردش تیز ہوگئی۔ چند مزید سوالات کے بعد جب اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ شخص قابل اعتماد ہے تو اس نے دشمن کے مورچوں کی جگہ معلوم کرکے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ سپاہی فوری طور پر چھاپہ مار کارروائی کرکے ان مورچوں اور بالخصوص پُل کے سامان کو تباہ کردیں گے۔ اگلے ایک گھنٹے میں چھاپہ مار ٹیم تیار ہوگئی‘ جسے تیر کر دریا پار کرنا تھا اور اجالاہونے سے پہلے پہلے واپس لوٹنا تھا۔ احتیاط کے طور پرسپاہیوں کو بتا دیا گیا کہ اگر صورتحال بزرگ کی دی ہوئی معلومات کے مطابق نہ ہوں تو خاموشی سے واپس آجائیں اور اپنے ہاتھ سے اس نورانی صورت بزرگ کو گولی مار دیں جو ان کے آنے تک قید میں رہے گا۔ سپاہیوں کی مشن پر روانگی کے بعد
کنارے پر موجود ان کے ساتھیوں کے لیے ایک ایک لمحہ اعصاب شکن تھا۔ رات کے تیسرے پہر انہیں دشمن کی طرف سے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں، دشمن بغیر کسی نشانے کے گولہ باری کررہا تھا اور پھر انہوں نے دیکھا کہ آگ بھڑک اٹھی۔ رات کے وقت دشمن کے کیمپ میں آگ بھڑک اٹھے تو کوئی نادان ہی ہوگا جو اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ نوجوان افسر نے اپنے توپچی کو ہدایت کی کہ اسے اس بھڑکتی آگ کی روشنی میں جو کچھ نظر آرہا ہے اسے ملیا میٹ کردے۔ توپچی نے اگلے بیس منٹ حکم کی یوں تعمیل کی کہ دریا کے دوسرے کنارے پر سوائے آگ کے اور کچھ نہ تھا۔ صبح ہونے سے کچھ پہلے ہی وہ سرفروش بھی بحفاظت لوٹ آئے جنہیں شب خون کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان غازیوں نے بتایا کہ بزرگ کی دی ہوئی معلومات اتنی درست تھیں کہ انہیں اپنے ہدف ڈھونڈنے بھی نہیں پڑے۔ وہ تو اطمینان سے اپنا کام کرکے واپس چل پڑے تھے لیکن دشمن ان دھماکو ں سے اتنا بدحواس ہوا کہ اس کی اپنی توپیں ہی ایک دوسرے کو تباہ کرنے لگیں اور رہی سہی کسر اس کنارے سے پاکستانی فوج نے پوری کردی۔
مشرقی پاکستان میں برپا ہونے والے اس معرکے کو تینتالیس سال گزر چکے ہیں۔ اس میں فاتح رہنے والانوجوان افسر(اس وقت کپتان) میجر ریاض حسین آج بھی زندہ ہیں۔ انہوں نے جب یہ واقعہ سنایا تو ان سے پوچھا کہ جناب اگر دلیری کے یہ ناقابل فراموش مظاہرے مشرقی پاکستان میں ہورہے تھے تو پھر ہماری شکست کا باعث کیا تھا؟ 'مشرقی پاکستان کا عام آدمی اور پولیس‘، انہوں نے جواب دیا اور پھر وضاحت کی کہ' مشرقی پاکستان کا عام آدمی اور پولیس مکتی باہنی کے ہمدرد ہوچکے تھے یا اس سے خوفزدہ۔ اس ہمدردی اور خوف کی وجہ سے پاکستان کی زمین بھی اپنی فوج کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور اس واقعے میں بھی ہماری دلیری اپنی جگہ لیکن اصل فاتح ہم نہیں وہ عمر رسیدہ بوڑھا تھا جس نے ہماری درست رہنمائی کی تھی، ہمیں بھارتی فوج نے نہیں ہرایا بلکہ مکتی باہنی کی دہشت گردی نے شکست دی جسے روکنے کی ذمہ داری پولیس پر تھی۔ میجر ریاض حسین نے ایک معرکے سے جو نتیجہ اخذ کیا ، دنیا بھر کے تجربات کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ باقاعدہ فوج دوسری فوج سے تو لڑ سکتی ہے لیکن گوریلا کارروائیوں اور دہشت گردی کے مقابلے پر اس کے استعمال میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوج کی تباہی ،ویت نام میں امریکی فوج کی بربادی اور مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی شکست سے ملنے والا سبق یہی ہے کہ انفرادی دہشت گردوں کا مؤثر علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پولیس اور مقامی آبادی اس کے لیے متحرک نہ ہوں۔ باقاعدہ فوج مقامی آبادی اور پولیس کی متبادل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی حیثیت معاون کی سی ہے۔
کراچی پولیس کے ایس ایس پی چودھری اسلم شہیداور ہنگو کا اعتزاز حسن شہید بھی یہ راز پا گئے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف اصل جنگ انہیں ہی لڑنی ہے۔ چودھری اسلم نے اپنی شہادت کے دن تک کراچی میں دہشت گردوں کاجینا دوبھر کیے رکھا اور پچھلے چار مہینوں میں کراچی پولیس کے سپاہیوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ چھوڑی تھی۔ اس عرصے میں پولیس نے ایک سو چونتیس شہادتیں دیں اور شہر کے بیشتر بدمعاشوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ حکومتی دماغوں میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کی افادیت آشکار ہوئی تو خیبرپختونخوا میں بھی دہشت گردوں کو لگام پڑی، پنجاب کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کا اصل کارنامہ یہاں کی پولیس نے ہی انجام دیا ہے ۔ رہ گئی عوام کی حصے داری کی بات تو اعتزاز حسن اگر دلیری نہ دکھاتا تو آج ہم اس کی شہادت پر فخر کرنے کی بجائے اس کے سکول میں بچوں کے قتل عام پر ماتم کررہے ہوتے۔ اس کا اعزاز ہے کہ اس نے پاکستانیوں کے اس عزم پر شہادت تھی جو انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کررکھا ہے۔ اس کی پذیرائی جتنی بھی ہو کم ہی ہوگی۔