"HAC" (space) message & send to 7575

تمرین

''یہ ہاکی ہے؟ معاف کیجیے گا‘ یہ مذاق ہے جو آپ ہمارے ساتھ کررہے ہیں‘‘ ۔ نئی دلی کے دھیان چند سٹیڈیم میں مجھ سے اگلی نشست پر بیٹھا بھارتی نوجوان گردن موڑ کر مجھ سے مخاطب تھا۔ آپ بیرون ملک ہوں اور خاص طور پر بھارت میں ہوں تو آپ کے اوپر ایک ان چاہی سفارتی ذمہ داری آن پڑتی ہے۔ آپ کو بعض ایسے سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن کے جواب آپ کو معلوم ہوتے ہیں نہ آپ کا تعلق ان مسائل سے ہوتا ہے۔ سوال پوچھنے والا اگر بھارتی ہو تو بڑے آرام سے بھارتی سازش اور پروپیگنڈا کا الزام جواب میں پیش کرکے مشکل آسان کرلی جاتی ہے۔ میری مشکل یہ تھی کہ سوال پاکستان کی اس کارکردگی کے بارے میں تھا جو اس کی ہاکی ٹیم میدان میں دکھا چکی تھی، یعنی ہم میچ ہار چکے تھے؛ ہارے کیا تھے، بہت بری طرح ہارے تھے۔ 
میچ کی ابتداء میں تو لگا کہ پاکستان کی ٹیم جان توڑکر لڑے گی کہ اس میچ پر دنیا بھرکی نظریں لگی ہیںاوراس میں دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ تماشائیوں کا ہجوم دیکھ کر دھیان چند سٹیڈیم خاصا چھوٹا محسوس ہورہا تھا۔ میچ کے پہلے نصف کے بعد جب دوبارہ کھیل شروع ہوا تو پاکستانی کھلاڑی ہاکیوں اورگیند پراپناکنٹرول کھو چکے تھے۔ باقاعدہ ہانپتے ہوئے جب وہ ایک دوسرے کو پاس دینے کی کوشش کرتے توکوئی بھارتی کھلاڑی بڑی سہولت سے گیندکو راستے میں ہی اُچک لیتا۔ مخالف ٹیم پرکوئی حملہ تو درکنار میچ کے دوسرے نصف میں پاکستانی ٹیم حریف کو اپنے گول سے بھی دور نہیں رکھ پائی۔کھیل کے آخری حصے میں ہمارے کھلاڑیوں کی سانسیں پھول چکی تھیں اور ان کے لیے دوڑنا بھی مشکل تھا جبکہ بھارتی کھلاڑی پوری طرح چُست نظرآرہے تھے۔ میچ کے اختتام کے قریب تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہماری ٹیم گلی محلے کے نو آموز بچوں پر مشتمل ہے اور بھارت نے اپنے بہترین نوجوان میدان میں اتار رکھے ہیں۔کھیل کے خاتمے سے چند منٹ پہلے جب ہمارے ایک کھلاڑی نے ہانپتے کانپتے اپنے قریب ترین ساتھی کی طرف گیند پھینکنے کی کوشش کی تو تھکن کی وجہ سے اسے اپنی ہاکی پر بھی قابو نہ رہا اور اس کا زاویہ بدل گیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ گیند خاصی دور ایک بھارتی کھلاڑی کے پاس جا پہنچی۔یہ پاس اتنا غلط تھا کہ بھارتی تماشائی بھی بھنا اٹھے اوران میں سے ایک جو میری اگلی نشست پر بیٹھا تھا مجھ پر اپنے سوال کے ساتھ حملہ آور تھا ''یہ ہاکی ہے؟ معاف کیجیے گا یہ مذاق ہے جو آپ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں‘‘۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنی ٹیم پر پیچ وتاب کھا رہا تھا لیکن اپنی ''سفارتی ذمہ داریوں‘‘ کا لحاظ کرتے ہوئے میں نے اتنا ہی کہا: ''بات یہ نہیں کہ ہماری ٹیم برا کھیلی، سچ یہ ہے کہ تمہاری ٹیم بہت اچھا کھیلی اور پھر اسے ہوم کراؤڈ کا بھی فائدہ حاصل تھا‘‘۔ میں اپنی سفارتی ذمہ داریوں سے تو عہدہ برآ ہوگیا لیکن دل میں یہ ٹھان لی کہ لاہور پہنچ کر اپنی ہاکی ٹیم کی کمزوری کا سراغ لگاؤں گا۔ 
واپس آکر پہلا کام یہ کیا کہ ہاکی کے واقفانِ حال سے رابطہ کیا، جوکچھ معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ ہاکی کی تربیت دینے اور لینے والے سوائے اپنے کام کے، سارے کام کرتے ہیں جس کا انجام یہ ہوا کہ مشق نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی تھک جاتے ہیں اور جب بیرونِ ملک انہیں ایسے کھلاڑیوںسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں تو قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔ 
تربیت و مشق سے گریزکا یہ معاملہ ایک ہاکی تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان کا ایسا ہمہ گیر مسئلہ بن چکا ہے جس کے بطن سے پٹوارخانے کی نااہلی سے لے کر دہشت گردی تک کے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہماری پولیس جسے شہروں میں دہشت گردی پر قابو پا نا ہے اس کی پیشہ ورانہ تربیت کا ایک مظاہرہ مجھے خود اپنی آنکھوں سے اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب 3 مارچ 2009ء کو دہشت گردوں کے ایک گروپ نے لاہورکے لبرٹی چوک سے گزرتی ہوئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ جب یہ واقعہ ہوچکا، دہشت گرد موقعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تو پولیس کی ایک ازکار رفتہ گاڑی میں جو شیر جوان پہنچے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے ۔گاڑی سے اترتے ہی انہوں نے دہشت گردوں کو مغلظات بکنا شروع کردیں اورہاتھوں میں ڈنڈے گھماتے ہوئے سینہ تان کر لبرٹی چوک میں گھومنے لگے۔ انہیں یہ بھی نظر نہ آیا کہ میں ان سے بہت پہلے اپنے کیمرہ مین کے ساتھ وہاں موجود ہوں جبکہ جس تھانے سے وہ آئے تھے اس کا فاصلہ اس مقام سے محض چند قدموں کا ہے۔ اس واقعے کے بعداردگرد کی دکانوں کے باہر لگے کلوز سرکٹ کیمروں سے لی گئی فوٹیج نے جو کچھ دکھایا وہ اور بھی شرمنا ک تھا ۔ اس فوٹیج نے بتا دیا کہ کس طرح فائرنگ کی آواز سن کر پولیس کی ایک گاڑی راستہ بدل کر بھاگ گئی، کس طرح تھانے سے تین سو فٹ کے فاصلے پر ہونے والی اس واردات کے ذمہ دار آہستہ خرامی کرتے ہوئے رخصت ہوئے اورکس طرح سری لنکن کرکٹ ٹیم کے محافظوں کے اعلیٰ افسر نے فرار میں عافیت جانی۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی بدنامی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ یہاں آنے والی ایک کرکٹ ٹیم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی؛ بلکہ اس وجہ سے ہوئی کہ اس واردات کے بعد ہماری پولیس کا طرز عمل دیکھ کر دنیا جان گئی کہ ہمارے اندر وہ اہلیت ہی موجود نہیں کہ ہم کسی شخص، جگہ یہ چیز کی حفاظت سکیں ۔ 
ہاکی اور پولیس کی مثالوں سے خدانخواستہ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی کہ تربیت کا فقدان صرف انہی دو شعبوں میں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سوائے فوج کے کوئی ادارہ کاہلی، سستی اور بے عملی کے سرطان سے نہیں بچ سکا۔ دنیا بھر کا تجربہ ہے کہ مسلسل تربیت اور اپنے کام کی مشق اداروں اور انسانوں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔پاکستان کے ممتاز ستار نواز نفیس خان سے ایک بار پوچھا کہ روزانہ کتنی کتنی دیر ریاض کرتے ہیں توبتایا کہ عام طور پر پانچ چھ گھنٹے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا اور جس دن آپ نے کسی جگہ فن کا مظاہرہ کرنا ہوتو،کہنے لگے آٹھ دس گھنٹے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ سازکے تاروں پر رقص کرتی ہوئی انگلیوں میں روانی کتنا خونِ جگر جلانے کے بعد آتی ہے۔ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجیوں نے جو آپریشن ایبٹ آباد میں کیا اس کی ریہرسل کئی ماہ جاری رہی اور منتخب فوجی بار بار وہ سب کچھ دہراتے رہے جس کا مظاہرہ انہوں نے ایبٹ آباد میں کرکے دکھا دیا۔جہاں مشق و تمرین (ایک کام کو دہراتے رہنا) کا یہ سلسلہ رکے گا، تباہی شروع ہوجائے گی۔ پھر اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں چار یا پانچ دہشت گردوں کے مقابلے پر پینتالیس مسلح پولیس والے مقابلے کی بجائے جان بچانے کے لیے بھاگیں گے، پھربقول وفاقی وزیر داخلہ گارڈکے ہاتھ کانپ جائیں گے اور اس کی گولی اسی رفاقت اعوان کو جا لگے گی جس کی حفاظت اسے کرنا تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں