میزان چوک کو آپ کوئٹہ شہر کا مرکز سمجھ لیں، یہ شہر کی تین بڑی سڑکوں کا سنگم ہے۔اس چوک کے ایک طرف کتابوں کی دکانیں ہیںاورجو سڑک ان دکانوں سے شروع ہوتی ہے اس کا نام اقبال روڈ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال روڈ پر تھوڑا آگے چلیں تو اس کو قطع کرتی ہوئی سڑک جناح روڈ کہلاتی ہے۔ نجانے یہ محض اتفاق ہے یا سڑکوں کو نام دینے والے نے اقبال و جناح کی یگانگت کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی طور پر مد نظر رکھا ہے۔ میزان چوک کی ایک وجۂ شہرت یہ بھی ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اس چوک میں بنی یادگار پر آزاد بلوچستان کا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں آگ لگی ہوئی تھی۔کوئٹہ پر بھی راکٹ برس رہے تھے اور سوئی میں قدرتی گیس کی تنصیبات بھی راکٹوں کی زد میں تھیں۔ پاکستان سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس شہر میں ایک سو بیس سالوں سے آباد ڈیڑھ لاکھ پنجابی و مہاجر آباد کاروں کو ہجرت کرنا پڑی۔ خیال تھا کہ نفرت کے ان دنوں کی کچھ نہ کچھ نشانیاں آج بھی میزان چوک یا اس کے اردگردکہیں موجود ہوں گی۔ اس بار جب کوئٹہ جانا ہوا تو یہ سوچ کرسفر کا سامان باندھا کہ اس علاقے کی زیارت ضروری ہے۔
میزان چوک سے اقبال روڈ پر چند ہی قدم چلیں تو دائیں ہاتھ پر ایک بہت بڑا سائن بورڈ ہے جس کی سفید زمین پر سبز رنگ سے 'پاکستان ٹی سٹور‘ لکھا ہوا ہے۔ اس دکان پرمحمد ابراہیم چنگیزی چائے کی پتی بیچتا ہے۔ اس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جس کے لوگ اپنے مخصوص خدوخال کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ وہی ہزارے ہیں جن کا اس شہر میں کچھ عرصہ پہلے تک جینا حرام تھا، کبھی ان کی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا اور کبھی آبادیوں میں خود کش دھماکے کیے جاتے۔''اب کوئٹہ شہر زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے، میں ہزارہ ہوں اور مرکزِ شہر میں بیٹھا ہوں لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا یہ خوف کم ہورہا ہے کہ کوئی مجھے شیعہ ہونے کے جرم میں قتل کردے گا یا میری دکان پر بم پھینک کر مجھے معاشی طور پر تباہ کردے گا‘‘ ابراہیم چنگیزی مجھے بتا رہا تھا ۔ میں نے مزید وضاحت چاہی تو کہنے لگا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن یہ طے ہے کہ اپنے پیشرو اسلم رئیسانی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔کم یا زیادہ، مالک بلوچ کی حکومت کچھ نہ کچھ کررہی ہے اور کرتی نظر بھی آتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ جب شہر کے حالات بہت خراب تھے تو کیا کبھی کسی نے اسے دکان کا نام تبدیل کرنے کے لیے کہا؟ ''ایک بار ، صرف ایک بار ایک بندہ آیا تھا ، اس نے ایک کلو چائے کی پتی خریدی اور پیسے دیتے ہوئے کہا ، تم اپنی دکان کا نام پاکستان کی بجائے بلوچستان پر کیوں نہیں رکھتے تو میں نے کہا اگر بدلنا ہی ہے تو بلوچستان کیوں رکھوں ، ہزارہ کیوں نہ رکھوں ؟ یہ سن کر وہ بغیر کوئی اور بات کیے چلا گیا‘‘۔ میں نے کہا ہزارہ برادری نے تو بڑے منظم انداز میں دھرنے دیے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ، ان کی آبادیوں میں ایف سی بھی چوکس ہے اور پولیس بھی لیکن ان بے چارے پنجابیوں کے بارے میں کیا کہتے ہو جو بے گناہ مارے گئے یا انہیں جانیں بچا کر یہ شہر اور صوبہ چھوڑنا پڑا۔ اس نے جواب میں دکان کے باہر سڑک کے دوسری طرف کھڑے مزدوروں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کیا اورکہا: ''وہ دیکھو، پنجابی کھڑے ہیں، ان سے بات کرکے دیکھ لو‘‘۔ مجھے پہلے تو حیرت ہوئی کہ بھرے بازار میں پنجابیوں کو اس نے کیسے پہچان لیا، لیکن جب ذرا دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا موازنہ کیا تو پتا چلا کہ ہم پنجابیوں کی چال ڈھال ہی دوسرے صوبوں کے لوگوں سے الگ ہے۔
اقبال روڈ کے ایک طرف کھڑے ان مزدوروں میں سے کچھ تو خانیوال کے تھے اور کچھ مظفرگڑھ کے۔ محمد شریف ان میں سے معمر بھی تھا اور معتبر بھی معلوم ہوتا تھا۔ دوسرے مزدوروں کا اس کے ساتھ رویہ بھی یہی ثابت کررہا تھا کہ وہ اسے اپنا بڑا مانتے ہیں۔ محمد
شریف پہلے تو کچھ ہچکچایا لیکن جب مجھے پنجابی بولتے سنا تو کھل کر بولنے لگا۔ اس نے بتایا کہ اس جیسے مزدور دور سے پہچانے جاتے ہیں اورکچھ عرصہ پہلے تک دہشت گردوں کے لیے ترنوالہ ہوا کرتے تھے ، خاص طور پر سریاب روڈ پر وہ جانے سے گھبراتے تھے کیونکہ وہاں خود کو بلوچ کہنے والے دہشت گرداپنا جدید اسلحہ ان پر آزما کراپنی سورمائی کی داد لیتے تھے۔اب حالات بہتر ہوگئے ہیں، امن وامان بہتر ہونے سے جہاں ہماری جانیں کچھ محفوظ ہوئی ہیں وہاں کام دھندا بھی بڑھنے لگا ہے‘‘۔ محمد شریف، پاکستان ٹی سٹور والے ابراہیم چنگیزی کی تصدیق کررہا تھا اور انوارالحق کاکڑ کی بھی جس نے ایک رات مجھے یہ سمجھانے پر لگائی تھی کہ بلوچستان میں علیحدگی کوئی سیاسی تحریک نہیں بلکہ دہشت گرد اسے ایک آڑکے طور پر استعمال کرکے ہمارے بعض دوستوں اور دشمنوں کے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انوارالحق کاکڑکہنے کو پاکستان مسلم لیگ ن کے راہنما ہیں لیکن ان کی پہلی اور آخری محبت پاکستان ہے۔ بلوچستان کا کوئی سیاسی کارکن ایسا نہیں جوانوارکے کہنے سننے میں نہ ہو۔جوسیاستدان ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہیں ، وہ بھی ان کا نام سنتے ہی ایک جگہ بیٹھنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ انہی کابلاواتھا کہ لاہور اور اسلام آباد کے صحافی اپنے سارے کام چھوڑکرکوئٹہ میں ثناء اللہ زہری کے پاس بیٹھ کر بلوچستان کی وہ تصویر دیکھ رہے تھے جو خوشگوار ہے اورحقیقت بنتی نظر آرہی ہے۔ ثناء اللہ زہری بلوچوں کے تین بڑے سرداروں میں سے ایک ہیںا ور چیف آف جھالاوان کہلاتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سینئر صوبائی وزیر بھی ہیں، اگر نواز شریف تھوڑی سی توجہ فرماتے تو ثناء اللہ زہری وزیر اعلیٰ ہوتے ۔ اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں انہوں نے اتنا ہی کہا کہ کوئٹہ کے لوگوں سے بات کرکے دیکھ لیں، یقین نہ آئے تو میرے علاقے زہری چلے چلیں۔ بلوچستان کے نوجوان وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے گرہ لگائی اور اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو ڈیرہ بگٹی چلے جائیں اور وہاں کے لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ گزشتہ نو ماہ میں امن و امان کی صورت بہتر ہوئی ہے یا بگڑی ہے۔
صحافی اور سیاستدان ایک میز پر بیٹھے ہوں تو یہ ممکن نہیں کہ دنیا کا کوئی موضوع ان کی دستبُرد سے محفوظ رہ سکے۔ بات بلوچستان سے چلی اور تاریخ کا ایک لمبا چکر کاٹ کر واپس بلوچستان پر پہنچی تورات بھیگ چکی تھی۔ اچانک سرفراز بگٹی نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب میں ثبوتوں کے ساتھ کہتا ہوںکہ جلیل ریگی نے کئی استادوں اورکئی محنت کشوںکو اپنی گولیوںکو نشانہ بنایا تھا تو آپ لوگ مانتے نہیں، لیکن بلوچستان سے کوئی بھی یہ کہے کہ اس کا کوئی رشتہ دارغائب ہے تو آپ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہو؟ہم ابھی اس سوال کی چوٹ سہلا رہے تھے کہ اگلا وارسردار ثناء اللہ زہر ی نے کیا،انہوں نے سوال اٹھایا کہ جو شخص بندوق لے کر بے گناہو ں کا خون بہائے، ملک کو توڑنے کی بات کرے اورریاستی اداروں پر حملے کرے تو اسے کیاکہنا چاہیے، ناراض یا دہشت گرد؟ سوال کے جواب میں ہم اہلِ صحافت کیا کہتے، سو خاموش رہے۔