دنیا کے حالات بدل رہے ہیں اور بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے ریلے میں نظریات، تعصبات ، خیالات اور اقدارکے پتھر ایک دوسرے سے ٹکرا کر ریت ہوئے جاتے ہیں۔ معیشت نے تصورات کی صورت گری کچھ یوںکردی ہے کہ آزادی کا تصور اپنی اصل شکل میں باقی بچا ہے نہ انسان کی انفرادیت۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اگرکسی ملک کی معیشت ٹھیک نہیں تولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل وہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ عالمی برادری ان ملکوں کا مذاق اڑانے سے نہیں چوکتی جو تاریخ کی بھول بھلیوں میںگم ہوکر ایک دوسرے سے تجارت نہیںکرتے، قومی رقابتوںکے جو بت صدیوں میں بنے تھے معاشی حقائق کی پے درپے ضربوں سے خاک میں ملتے جاتے ہیں۔گراں خواب چینی اب معاشی میدان میں مغرب کے پرکترنے لگے ہیں،پیچھے رہ جانے والا جنوب مشرقی ایشیا چیتے کی طرح زقندیں بھرتاہوا دنیا بھر کی منڈیوں پر جھپٹ رہا ہے۔ اورتواورلاطینی امریکہ جیسا غربت و جہالت میں ڈوبا ہوا خطہ اب اپنی صنعت و تجارت کے زور پر دنیا بھرکے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ترین منڈیوں میں شامل ہونے لگا ہے۔ اس بدلتی ہوئی یا بدلی ہوئی دنیا کا ادراک برصغیر پاک وہندکے حکمرانوںکو بھی، دیر سے سہی، ہوتا نظر آرہا ہے۔ بھارت کے نامزد وزیراعظم کی طرف سے پاکستان کے وزیراعظم کو اپنی حلفِ داری کی تقریب میں شرکت کی دعوت اسی تبدیل شدہ دنیاکی عکاسی کررہی ہے۔ یہ معمولی بات نہیںکہ نریندرمودی پاکستان مخالف الیکشن مہم چلاکر بھارت کی وزارت عظمیٰ حاصل کرے اورایوان اقتدارکی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم کا منتظر ہو؛ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔
یہ تاریخی لمحہ یونہی نہیں آگیا، اس کے پیچھے گزشتہ پندرہ برسوںکے دوران بھارتی معیشت کی غیر معمولی کارکردگی ہے جس کا ثمر اسے ایسی کمپنیوں کی صورت میں ملا جواب اپنے پھیلاؤ کے لیے نئی منڈیوںکی تلاش میں ہیں۔ بھارت میں فولاد سازی کے کارخانے اپنی مصنوعات وسطی ایشیا تک پہنچانے کے لیے بے تاب ہیں، آٹو موبائل کی صنعت پوری طرح تیار ہے کہ بنگلہ دیش سے لے کر آذربائیجان تک کی ضروریات پوری کرے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی آبادی کو روزگارکی فراہمی کے لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت صنعتی پیداوار اپنی سرحد سے باہرکے خریداروں تک پہنچانے کے لیے راستے ہموارکرتی رہے۔انہی ضرورتوں کے پیش نظر بھارت وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں نئی منڈیوں تک رسائی کے لیے پاکستان کی رضا مندی کا محتاج ہے کیونکہ ان منڈیوں تک پہنچنے کا ہرراستہ پاکستان سے ہوکرگزرتا ہے۔ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کو دبانا تو ممکن نہیں البتہ معاشی ترقی کے نام پر لبھانا ممکن ہے۔ پاکستان کو تجارت کے ذریعے مسائل حل کرنے پرمائل کرنے کا جوکام ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دھیمے سروں میں شروع کیا تھا،نریندرمودی باقاعدہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اسے اگلے مرحلے تک پہنچا چکے ہیںکیونکہ مودی کواقتدار میں لانے والا کارپوریٹ طبقہ جلدازجلد پاکستان کا راستہ کھلوانا چاہتا ہے، منموہن سنگھ کی طرح ڈرڈرکرقدم اٹھانے کی رعایت مود ی کو حاصل نہیں ہے۔
پاکستان میں کاروباری طبقہ ابھی اتنا منظم تو نہیں ہواکہ وہ بھارتی کاروباری طبقے کی طرح سرکاری پالیسیوںکو اپنی پسندکے مطابق ڈھال سکے، لیکن بھارت کے ساتھ تجارت اور اسے دیگر منڈیوں تک رسائی دینے سے جڑے ہوئے فوائد سے خود پاکستان کے سرکاری معاشی منصوبہ سازاتنے متاثر ہیںکہ اگران کو ردعمل کا خوف نہ ہوتو وہ بھارت کو مطلوبہ سہولیات کل کی بجائے آج ہی دے ڈالیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے بہت سے پالیسی سازکیلکولیٹر پرحساب لگاکر بتاتے ہیںکہ اگر ترکمانستان کی گیس پاکستان سے ہوکر بھارت پہنچتی ہے تو ہمیںکیا ملتا ہے اوراگر لدھیانہ سے ملبوسات سے لدا ہوا ایک کنٹینر پاکستان ریلوے یا سڑک کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ تک پہنچتا ہے تو کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ بعض ماہرین تو پورے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ بھارت کو معاشی طور پر اپنے ساتھ منسلک کرکے پاکستان کو سالانہ تین ارب ڈالر سے زائدکے فوائد فوری طور پر ملنا شروع ہوجائیں گے۔
ہمارے وزیراعظم بھی بھارت کے معاملے میں پیش قدمی کی بجائے تیزقدمی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت سے دشمنی کی بجائے دوستی اوراحتیاط کی بجائے اعتماد کارشتہ ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم کی تیز روی اور بھارت میں بی جے پی کی واضح پالیسی دونوں مل کر بھی وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتیں جوگزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں بڑی محنت سے بگاڑا گیا ہے۔ البتہ ٹھیک کرنے کا با معنی آغاز ضرور ہوسکتا ہے اوراس کے لیے کسی اورکو نہیں نریندر مودی کو مشکلات ہٹانا پڑیں گی،کیونکہ اسی شخص نے ہی پاکستان دشمنی کا جذبہ ابھارکر بھارت میں ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا اخلاص اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے پاس اپنی مشکلات پر قابو پانے کی قوت ہے؟ پاکستان میں قائم حکومت کے بارے میں تو یہ بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ عالمی برادری میں اپنے کہے ہوئے کا پاس کر سکتی ہے لیکن بھارت میں سیاسی حکومتوں کے بارے میں پاکستان کا تاثر یہ ہے کہ جیسے ہی پاکستان کا معاملہ آتا ہے، بھارتی سیاستدان اپنی باگیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برس سے بھارت نے خاص طور پر پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کررکھا ہے وہ تعمیری نہیں تخریبی ہے، مسائل حل کرنے کا نہیں بلکہ ہٹ دھرمی کا ہے۔ تجارت ، تجارت کی رٹ لگا نے کے باوجود سر کریک سے لے کر کشمیر تک کوئی ایک مسئلہ نہیں جسے طے کرنے کے لیے بھارت کی طرف سے کوئی با معنی کوشش ہوئی ہو جبکہ پاکستان نے سیاچن اورکشمیر جیسے حساس موضوعات پر بھی اپنے موقف میں نرمی پیدا کرکے دیکھ لی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ ہم نے کشمیری مجاہدین کی مدد بندکرکے تلخی میں کمی کی تو بھارت نے طالبان اور بلوچستان کے ذریعے ایک بار پھر پراکسی جنگ شروع کردی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی اس بہکی ہوئی سوچ کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں، پھر خود نریندر مودی کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تنازعات واقعتاً حل کرنا چاہتے ہیں یا حلف اٹھانے کی تقریب میںپاکستانی وزیراعظم کو بلانے جیسے نمائشی اقدامات کے ذریعے اپنے دامن پر لگے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دھبے مٹانے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں۔
بھارت کا یہ دورہ خیرسگالی کے سواکچھ بھی نہیں۔ یہ مقصد ایک دو وزراء کو بھیج کر بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ایک امکان یہ ہوسکتا ہے بھارتی وزیراعظم جامع مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کردیں لیکن پھر وہی بات کہ جامع مذاکرات کا دوبارہ آغازتواس وقت بھارت کی اپنی ضرورت ہے، اور یہ مذاکرات زیادہ فائدہ مند ہوجاتے اگر ہمارے وزیراعظم بھارت کے اس دورے سے معذرت کرکے یہ پیغام دیتے کہ پاکستان اب بھارت کے ساتھ کسی بے فائدہ مشق کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ اور آخری بات یہ کہ اب ہمار ی وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کو وزیراعظم کوکسی دورے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ پاکستانی قوم اپنے وزیراعظم کو دوسرے ملکوں اور خاص طور پر بھارت کے رائیگاں سفر پر جاتے دیکھنا پسند نہیں کرتی۔