کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ برصغیرکی سیاسی تاریخ دراصل تحریکوں کی تاریخ ہے۔ اسے عوامی پسماندگی کہیے یا سیاسی مزاج کہ اولوالعزم اور طالع آزما سیاستدان چند دلکش نعروں کے زور پر بآسانی عوام کوا پنا الو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں تو خیر ابھی جمہوریت زچہ خانے سے ہی باہر نہیں نکلی، بھارت جیسی توانا جمہوریت میں بھی انا ہزارے جیسا سوشل ورکر اپنے دھرنے کی پیالی میں عام آدمی پارٹی جیسا طوفان کھڑا کردیتا ہے۔ پاکستان میں تو گویا ہر شخص تحریک چلانے کے لیے موقعے کی تلاش میں رہتا ہے۔ کبھی تاشقندکی نامعلوم بلی کے نام پر حکومت گرائی جاتی ہے اورکبھی نظام مصطفیٰ کے نام پر چلنے والی تحریک سے مارشل لاء برآمد کیا جاتا ہے۔کہیں تحریک نجات کی تھاپ پر خفیہ ہاتھ پتلی تماشا کرتے ہیں اورکبھی ٹرین مارچ کے ذریعے حکومت روندی جاتی رہی ہے۔اب تحریکوں کا رواج اتنا زورپکڑ گیا ہے کہ خالص قانونی و دستوری معاملات بھی سڑکو ں پر نمٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔کسی کو الیکشن ٹربیونل سے شکوہ ہے تو وہ تحریک چلانے نکل پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ ہم ایک چیف جسٹس کو بھی تحریک کے ذریعے بحال کرانے کا منفرد کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔افتخارمحمد چودھری کی بحالی کے بعد راوی جنوری 2013ء تک چین ہی چین لکھتا رہا حتیٰ کہ قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری 'سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کا ایجنڈا لے کرایک پر تعیش اور آرام دہ کنٹینر میںبیٹھ کر اپنے مریدوں کی رہنمائی کرتے ہوئے اسلام آباد کو فتح کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ آخرکار ان کے انقلاب کو میاں نوا زشریف نے لاہور میںتمام سیاسی قیادت (سوائے عمران خان) کو بلا کر جب قبلہ کے انقلاب کو انقلاب کے ذریعے ہی نمٹانے کی دھمکی دی تو کنٹینر مع مریدین لاہورکی طرف واپس ہوگیا۔
دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں بھی دستور یا نظام پر براہ راست حملہ کرنے والی تحریکوںکو سختی سے دبا دینے کو جمہوری طرزعمل ہی سمجھا جاتا ہے۔2011 ء میں برطانوی حکومت اور اپوزیشن نے جس بے رحمی سے مارک ڈگن نامی شخص کے قتل کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں کو دبایا اور امریکہ میں وال اسٹریٹ پر قبضے کی تحریک کوکچلا گیا، اس پرکسی نے ان دونوں ملکوں کی مذمت نہیں کی۔ ان تحریکوں سے بھی پہلے برطانیہ میں عراق پر حملے کے خلاف جو فقید المثال مظاہرے کیے گئے، وہ جمہوری احتجاج کی حدود میں رہنے کی وجہ سے ہی برداشت کیے گئے اور مظاہرہ کرنے والوں نے بھی اپنی اسٹریٹ پاورکو احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے استعمال کیا نہ کہ حکومت کو پالیسی کی تبدیلی کی ڈیڈلائن دے کر دھرنے پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اسی طرح کشمیر میں علیحدگی کی تحریک کو جس انداز میں بھارت نے قابو کررکھاہے وہ کم ازکم لفظوں میں درندگی اور ظلم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کی علیحدگی کو بھارتی ریاست اپنی توڑ پھوڑ کا نقطۂ آغاز سمجھتی ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار رہتی ہے ۔ سری لنکا نے خودکو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے تامل تحریک کے ساتھ جوکچھ کیا وہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ اپنے نظام کی حفاظت کے لیے خود امریکہ نے ایک طویل خانہ جنگی لڑی اور آخرکار نظام سے باہر نکلنے والوں کو طاقت کے زور پر اسے ماننے پر مجبور کردیا۔ ریاست اور ریاست کا نظام اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ اپنی شکستگی کو آسانی سے گوارا کرلے، خاص طورپر ایک جمہوری ریاست توکسی طور پر بھی گوارا نہیں کرتی کہ لوگوں کا کوئی گروہ کسی دھرنے یا انقلاب کے نام پر اپنی مرضی کرنے لگے۔ اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی پاکستان کے دستور و نظام کو تلپٹ کردے گا تو اس کی معصومیت کی داد ہی دی جاسکتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست نظام پرکسی حملے کی صورت میں طاقت کے استعمال سے باز نہیں رہے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قبلہ گاہی ، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ریاستی نظام کے لیے اتنا بڑا خطرہ پیدا کرچکے تھے کہ ان کے خلاف ریاست اس طرح حرکت میں آجائے جیسے چند دن پہلے ان کے ادارہ منہاج القرآن کے سامنے لگے بیریئر اکھاڑنے کے لیے حرکت میں آئی تھی اور اپنی نام نہاد رٹ بحال کرنے کے لیے درجنو ں کو زخمی اور ہلاک کر ڈالے؟ حق تو یہ ہے کہ قبلہ گاہی کے بلند آہنگ فرمودات اپنی جگہ لیکن ابھی تک آپ کی قوت اتنی نہیں کہ نظام کے لیے کوئی غیرمعمولی خطرہ بن سکیں۔ ان کی کمزوری کا سبب ایک توآپ قبلہ کی افتادِ طبع ہے اور دوسرے دہری شہریت کی وجہ سے اس کی اخلاقی پوزیشن بھی عوام کی نظروں میں زیادہ اچھی نہیں، تیسرے یہ کہ ان کی اپیل بنیادی طور پر ایک خاص مذہبی مکتب فکرکو ہی متاثر کررہی ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت کا مظاہرہ ابھی تک قبلہ گاہی نہیں فرما سکے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ چودھری برادران کی موجودگی چِلاچِلا کر بتا رہی ہے کہ انقلاب کا ڈول ڈالنے والے کون ہیں اور کس طرح ان کے ساتھ معاملات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں۔گویا قبلہ گاہی کے خلاف اس مرحلے پر ریاستی قوت کا حرکت میں آنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی پرندوں کے شکار پر توپ لے کر چلا جائے۔
ادارہ منہاج القرآن پر پولیس آپریشن جہاں پنجاب و وفاق کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کی ایک صریح سیاسی غلطی ہے وہاں اس افسوسناک واقعے سے ریاستی مشینری کی بے حکمتی، بے حمیتی اور نا اہلی بھی عیاں ہوگئی ہے۔ یہ قابل شرم بات ہے کہ صوبے کی پولیس اور انتظامیہ میں اس طرح کے بے وقوف بھرے ہیں جو دو بیرئیر بھی بغیرتشدد کے نہیں اکھاڑ سکتے۔ پولیس کی حالت دیکھیے کہ اپنے ساتھ غنڈوں کو لے کر جاتی ہے اور ان سے لوگوں کی قیمتی گاڑیاں تڑواتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بہتر پولیس فورس ہونے کی دعویدار پنجاب پولیس کے ڈسپلن کا حال بھی اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب اس کے شیر جوان، دکانوں کے تالے توڑکر ان پر ڈاکے ڈال رہے تھے اور ان کے اعلیٰ افسر لوٹ کے مال کی بوتلیں رزق حلال سمجھ کر اپنے حلق میں اتار رہے تھے۔ اس سے مکمل زوال اور کیا ہوگا کہ لوگوں کی جان ومال کے محافظ خود ہی اپنے افسروں کے سامنے لوٹ مار کرنے لگیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہ ہو۔ اس دن پنجاب پولیس نے جس رویے کا مظاہر ہ کیا اس نے سکھا شاہی کی یاد دلا دی جب پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت میں سکھ پولیس والے خوانچہ فروشوں سے لے کر لوگوں کی عزتوں تک پر ہاتھ ڈالنے سے نہیں چوکتے تھے۔ اس واقعے سے اب ہمارے ''خادم اعلیٰ ‘‘کہ آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں کہ ان سے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ان کی ماتحت پولیس فورس عملی طور پر بدمعاشوں اور ڈاکووں کے گروہ کا روپ دھار چکی ہے۔ اس پولیس فورس کے ذریعے پنجاب میں قانون کا نفاذ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
منہاج القرآن کے روح فرسا واقعے پرکسی بھی پہلوسے غورکیا جائے، ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے اور وہ ہے نااہلی۔ اتنی ہمہ گیر نااہلی جس کا تصور بھی اس واقعے سے پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسران نااہل جو حالات کے تجزیے میں سنگین غلطیاں کرتے ہیں، ہماری پولیس نا اہل جس کا پہلا اور آخری ہتھیار ہی بے رحمانہ تشدد ہے اور وہ حکمران بھی نا اہل جن کے نزدیک صرف اسی کا مشورہ اور اخلاص قابل قبول ہے جو ان کے تلوے چاٹنے میں فخر کرے۔ اس سے پہلے کہ نا اہلی کے بوجھ سے یہ نظام گر پڑے، اس کو درست کرنا ضروری ہے۔ شیخ الاسلام کی پریشانی چھوڑیں، آپ اپنا کام کریں اور کچھ زیادہ تیزی سے کریں۔ حالات ایسے ہی رہے تو شیخ الاسلام کا انقلاب آئے نہ آئے ملک میں لاقانونیت ضرور آجائے گی۔