"HAC" (space) message & send to 7575

ابھی اُمید باقی ہے!

لوگوں میں حکومت سے مایوسی یونہی نہیں پیدا ہورہی، اس کی وجوہ اپوزیشن کی حکمت عملی میں نہیں‘ خود پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتی کارکردگی میں پوشیدہ ہیں۔ بجلی کا مسئلہ ہی لے لیجیے، پاکستان میں یہ مسئلہ گزشتہ آٹھ سال سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اور پاکستان پیپلزپارٹی کی بے عملی کی وجہ سے یہ بحرانی کیفیت اختیارکرگیا لیکن یہ ایک ہزار فیصد سچ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے2013 ء کے الیکشن کی ہر تقریر میں عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر بجلی کا مسئلہ چٹکیوں میں نہ سہی، کچھ محنت کرکے حل کرلے گی۔ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس حکومت میں آنے سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی صفوں میں کتنا شدید تھا، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ میاں شہباز شریف کے فرزند سلمان شہباز شریف نے ایک بار بتایا تھا کہ بجلی کے متعلق وہ اپنا ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں اورحکومت ملتے ہی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کام شروع کردیں گے۔ الیکشن سے پہلے آج کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف کی وجہ شہرت ہی یہ تھی کہ موصوف اس معاملے پر پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے اور انہی کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کا خطاب ملا جسے مٹانے کے لیے وہ عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ اب خود خواجہ صاحب کا حال یہ ہے کہ ایک سال وزارت میں گزار نے کے بعد قوم سے معافی مانگ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ بجلی کی پیداوار تو الگ‘ ہمارے پاس تو اس کی ترسیل کا نظام بھی نہیں ہے! خواجہ صاحب کی حسنِ طلب پر دل میں جو خیالات موجزن ہیں ان کا اظہار تو ممکن نہیں لیکن یہ سوال تو اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی اور یہ ہے اس کا دھانسو وزیر؟ جب ملک کے اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کا ذمہ دار شخص معافی مانگ کر اپنی بے عملی و بے بسی کا اعلان کردے تو قوم اس پر شاباش تو نہیں دے سکتی؛البتہ اپنی قسمت پر آنسو ضروربہا سکتی ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو اتنے اہم عہدے پر فائز کردیا جو باتیں تو بنا سکتا ہے لیکن نتائج دینے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ 
بجلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم کا دوسرا اہم نکتہ اچھی حکمرانی یعنی گڈ گورننس تھا۔ اس کا ایک مظاہرہ تو پنجاب پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی صورت میں کیا ہے۔ اس کے بعد رمضان بازارکے نام پر صوبائی انتظامیہ میں مثالی افراتفری مچا کرصرف یہ ثابت کیا گیا ہے کہ 'مزاجِ یار ‘ میں اگر کوئی الٹی سیدھی بات آگئی تو سرکاری مشینری اسے پورا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کسی نظام کی بجائے فرد واحد کی تخلیق کردہ گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ جو کچھ وفاق میں ہورہا ہے وہ بھی قابلِ دید ہے۔ دارالحکومت میں کسی کومعلوم نہیں کہ بجلی کے معاملات کے ذمہ دار خواجہ آصف ہیں، عابد شیر علی ہیں یا نرگس سیٹھی ، کوئی یہ نہیں جانتا کہ وزارت خارجہ سرتاج عزیز چلا رہے ہیں یا طارق فاطمی، کئی سرکاری محکمے ایسے ہیں جن کے عارضی سربراہ کو یہ معلوم نہیں کہ اسے کام کرکے دکھانا ہے یا کسی نئے آنے والے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے۔ اس انتظامی دھند پر طرّہ یہ کہ وزیراعظم کے بارے میں یہ خیال پھیلتا چلا جارہا ہے کہ چار وزیروں اور تین افسروں کے سوا ان تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اسلام آباد کے کچھ لوگ مثال کے طور پر یہ واقعہ بھی سناتے ہیں کہ ایک وفاقی وزیر مسلسل چھ ماہ کی کوشش کے بعد بھی وزیراعظم سے نہیں مل سکا کیونکہ وہ ایوان وزیراعظم کی بیوروکریسی کو یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس کی ملاقات کا مقصد کیا ہے۔ وزیراعظم کے معتمد ہونے کی دعویدارافسروں کی ٹولی کے اس اہانت آمیز رویے سے تنگ آکر اس نے کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس میں بھی اس کی بدقسمتی آڑے آئی کہ اجلاس ختم ہوتے ہی وزیراعظم کا حلقہ خواص انہیں اتنی تیزی سے ہال سے نکال کر لے گیاکہ وہ بے چارہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ آخرکار اسے شرف باریابی ملا بھی تو اس وقت جب اس کی وزارت سے متعلق ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی اور خود وزیراعظم کو وزیرموصوف کی ضرورت پڑی۔ جب پوچھا گیا کہ کیا آپ اس صورت حال سے نمٹنے کے تیار ہیں 
توجواب ملا کہ بالکل نہیں۔ وجہ پوچھی گئی تو اس بے چارے نے بتایا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری سازو سامان کی فہرست پر آپ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے گزشتہ چھ ماہ سے خوار ہو رہا ہوں لیکن آپ کی مصروفیات آڑے آتی رہی ہیں۔ یہ عذر سن کر وزیراعظم نے مزید کوئی سوال کیے بغیر مطلوبہ منظوری دے دی۔ یاد رکھیے کہ گڈ گورننس کا فیصلہ حکمرانوں اور شہریوں کے درمیان موجود فاصلے کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔ اچھی حکمرانی کے لیے یہ فاصلہ کم سے کم ہونا ضروری ہے۔ اب اگر ایک وزیر اور وزیراعظم کا درمیانی فاصلہ ہی چھ مہینے کا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی سطحوں پر کیا ہورہا ہوگا۔ 
مسائل سے نمٹنے کی حکومتی صلاحیت پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی وجہ سے سیاسی طور پر بھی پاکستان مسلم لیگ ن کو یکے بعددیگرے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عمران خان 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا کمزور سا مؤقف لے کر اتنی طاقت پکڑ گئے ہیں کہ ان کے مقابلے میں نظام کو باقی رکھنے اور چلنے دینے کی افادیت پر بھی لوگوں کا اعتماد کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ بجلی اور اس طرح کے دیگر مسائل پر نظر آسکنے والی پیشرفت نہ ہونے کے باعث عوام میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس کا فائدہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، حتیٰ کہ ملک میں سیاسی نظام کے تسلسل کی قائل پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ 
آصف علی زرداری کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ' ہم عوام کو ان کی مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے‘ اور انہوں نے وزیراعظم کے طرزِ عمل کو یہ کہہ کر ہدف تنقید بنایا کہ 'نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں، بادشاہ نہیں‘۔ آصف علی زرداری کی طرف سے اس برسرِ عام یاددہانی نے حکومت کی مضبوطی کا تاثر اس حد تک زائل کردیا ہے کہ اب لوگ کھل کر حکومت کی تبدیلی کے امکانات پر بات کرنے لگے ہیں۔ سیاستدانوں کے علاوہ جنرل پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے اور ریاستی اداروں سے تعلقات کے نازک معاملات کو جس بھونڈے انداز میں طے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے بھی عام آدمی پریشان ہے کہ اس کے رہنما پھر اسی بے حکمتی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے پہلے بھی ملک آمریت کے چنگل میں چلا گیا تھا۔ 
بجلی،گڈگورننس اور ملک میں ایک ہموار سیاسی ماحول کی فراہمی کے تین اہم ترین امور میں حکومت کی یک سالہ کارکردگی کا دفاع صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو خود وزیر ہو،کوئی اور اس بھاری پتھرکو نہیں اٹھا سکتا۔ اس بڑھتی ہوئی مایوسی سے نکلنے کی راہ ضرور نظر آتی ہے اور اس کی نشاندہی خود وزیراعظم نے لاہور میں یہ کہہ کر کی ہے کہ اگرہم نے اپنے اقتصادی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنالیا تو نعرہ باز وں کے نعرے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ بے شک ایسا ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جس کاکوئی رکن اتنا بُودا نہ ہو جو ایک سال تک کام کرنے کے بجائے باتیں ہی بناتا رہے اور جب کارکردگی پوچھی جائے تو وہ منہ لٹکا کر معافی معافی پکارنے لگے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں