ارسلان وڑائچ کے دس سالہ بیٹے حسین کو مسجد سے اس لیے نکال دیا گیا کہ اس کے گھر سے مسجدمیں ہونے والی افطاری کے لیے سامان نہیں آیا تھا۔گھر آکرحسین اپنے باپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ اتنے غریب ہیں کہ مسجدمیں افطاری کے لیے سامان نہیں بھیج سکتے، اور کیا جو لوگ افطاری نہیں کرا سکتے تو ان کا داخلہ مسجد میں ممنوع ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارسلان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس مہینے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی خوشحالی میں حصے دار بنا لیتے ہیں۔ کہیں زکوٰۃ کی رقم بھیجی جارہی ہے تو کسی مقام پر لوگوں کے افطارو سحر کا بندوبست کیا جارہا ہے اور یہ سارے کام کسی کو بتانے کے لیے نہیں بس اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے خاموشی سے ہورہے ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کے بیٹے کو اگر مسجد سے اس لیے نکال دیا جائے کہ اس کے گھر سے افطاری کا سامان نہیں آیا تو دل پر لگنے والی چوٹ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اب اپنے بیٹے کوجواب میں کیا بتائے کہ اس نے لاہور کے پوش علاقے کی اس مسجد کی نسبت کئی غریب علاقوں کی مساجد میں ہونے والی افطاریوں میں اپنا حصہ ڈالنا زیادہ مناسب سمجھا تھا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ پوش علاقے کی اس مسجد کی انتظامیہ اتنی بے حکمت ہے کہ اس نے ارسلان سے بات کرنے کی بجائے اس کے بیٹے کو مسجد سے نکال کر اپنا تقاضا کس بھونڈے انداز میں اس تک پہنچایا ہے۔ وہ اپنے دس سالہ بیٹے کے اس تجربے کو غلط ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ مسجد انتظامیہ کے اختیار کا علاقہ نہیں بلکہ اللہ کا گھر ہے جہاں پر لوگوں کو بلایا جاتا ہے ،یہاں سے نکالا نہیں جاتا۔ یہی تو وہ
جگہ ہے جہاں امیر و غریب، عرب و عجم اور محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں، یہ بات ایک چھوٹا سا بچہ سمجھ بھی کیسے سکتا ہے کہ دنیا کے مذاہب میں سے صرف اسلام کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ لاکھ خرابی کے باوجود عالم اسلام کی لاکھوں مساجد دراصل وقف کے ایک ایسے نظام کے تحت چل رہی ہیں جس کی نظیر دنیا گزشتہ چودہ سو سال سے پیش نہیں کرسکی۔ ارسلان یہ سب کچھ اپنے بیٹے کو سمجھاناچاہتا تھا مگر کرنہیں پا رہا تھا۔ مناسب الفاظ کی تلاش میں اس نے مجھے فون کیا تھا، پورا واقعہ سننے کے بعد میں نے اس کی مدد سے معذرت کر لی البتہ یہ مشورہ ضرور دیا کہ بچے کے ذہن سے یہ سوال نکالنے کے لیے اسے کچھ نئے کھلونے دلانے کے لیے کسی بڑی دکان پر لے جائے کیونکہ دس سالہ بچہ تو درکناراب تو کسی اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کے لیے بھی یہ سمجھنا دشوار ہے کہ میری مسجد، تیری مسجد ، اُس کی مسجدیا اِس کی مسجد کا رواج دراصل اسلام کا نہیں مسلمانوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اسی ٹیڑھی فکر نے مسلمانوں میں ایسی ایسی ٹھیکیداریوں کو جنم دیا جن پر بات کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے اب یہ رواج اتنا جڑ پکڑ چکا ہے کہ جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں وہاں وہاں فرقے بھی موجود ہیں اوران کی الگ الگ مسجدیں بھی۔
ایک بچے کو افطاری نہ لانے پر مسجد سے اخراج کا حکم دینے سے کہیںزیادہ سنگین اور شرمناک واقعہ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ایک شہر مانچسٹر میں بھی پیش آیا جہاں ایک مسجد کے امام نے اس لیے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا کہ یہ مردہ جب زندہ تھا تو اس مسجد کی بجائے کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھتا تھا۔ مردے کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں بے شک مسلمانوں کی فلاح کے کئی منصوبوں میں اپنی بساط کے مطابق حصہ لیا تھا لیکن اس مسجد کو نامعلوم وجوہ کی بنا پر نظر انداز کردیا تھا حالانکہ مرحوم اسی فرقے سے تعلق رکھتا تھا جس فرقے کے زیرِانتظام یہ مسجد تھی۔ مسجد کے مولوی صاحب کی دلیل یہ بھی تھی کہ مسجد نے کفن دفن کا بندوبست بھی کررکھا ہے جس کے ذریعے کچھ آمدنی بھی ہوجاتی ہے ،اب اس معاملے میں بھی مرحوم کے ورثاء نے کسی دوسری کمپنی سے یہ خدمات لے لیں اور اس ذریعے سے بھی ممکنہ آمدنی نہیں ہوسکی۔ اس لیے ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے نماز جنازہ پڑھائی جائے تو کیوں؟ اس کیوں کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا ،لہٰذا میت وہاں سے اٹھا کر اسی مسجد میں لے جائی گئی جہاں مرحوم نماز پڑھا کرتے تھے اور مسجد کی 'خدمت‘ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس واقعے سے مانچسٹر کے مسلمان نوجوانوں اور بالخصوص ان نوجوانوں نے عبرت پکڑی جن کے بوڑھے والدین ان کے ساتھ ہی رہتے تھے کہ کل کلاں کو کوئی ان کے ماں باپ کے جنازوںکے ساتھ بھی یہی سلوک نہ کرگزرے۔
آخر مسلمانوں میں اس تنگ نظری کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا جواب محمد اسد نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب A Road to Mecca میں مسلمانوں میں مذہبی تعلیمی نظام کی ایک جھلک دکھا کردیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ 1920ء کی دہائی میں وہ بطور ایک نومسلم صحافی کے مصر کی شہرہ آفاق جامعہ الازہر گئے تو وہاںکے شیخ الجامعہ انہیں اس درسگاہ کے مختلف حصے دکھانے لے گئے۔ وہاں پر انہوں نے دیکھا کہ ایک پاکیزہ ماحول میں طلبہ اساتذہ کے سامنے سر جھکائے ہل ہل کر اپنا سبق یاد کررہے ہیں۔ وہاں پر چھائی ہوئی خاموشی اور تقدس کی فضا سے محمد اسد اتنے متاثر ہوئے کہ شیخ الجامعہ کومخاطب کرکے کہا 'آج یہ بچے جو یہاں اپنے اساتذہ کے سامنے بیٹھ کر اسلام کی لافانی تعلیمات ذہن نشین کررہے ہیں کل کو ایک بار پھر مسلمانوں کو دنیا کی ایک بڑی طاقت بنا دیں گے‘۔ یہ سن کر شیخ الجامعہ کا چہرہ مرجھا گیا اور کہنے لگے 'کاش آپ کی بات ٹھیک ہوتی، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر جو تعلیم دی جارہی ہے وہ اسلامی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ یہ بچے جب عملی زندگی میں آئیں گے تو اپنے تنگ نظر اساتذہ کی طرح ایک خاص مکتب فکر کو اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسی کو عین اسلام ثابت کرنے میں اپنی زندگیاں کھپاکردیں گے، محال ہے کہ کوئی مجتہد یا رہنما ان میں پیدا ہونے پائے‘۔
جامعہ الازہر کے سربراہ کی زبان سے نکلنے والے ان جملوں نے محمد اسد کی زندگی بدل کر رکھی دی اور انہوں نے اسلام کو روایات کے چنگل سے نکالنے کے لیے خود کو وقف کردینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس معاملے میں انہیں علامہ اقبال کی مشاورت بھی حاصل رہی جنہوں نے اس نومسلم نوجوان کو اسلامی فقہ کی تدوین نو کی طرف مائل کیا لیکن ان کی موت نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔ پھربانیانِ پاکستان نے انہیں اسلامی ثقافت کے خدوخال اجاگر کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن واقعات کا بہاؤ انہیں وزارت خارجہ میں لے گیا اور وہ دنیا میں مملکت پاکستان کو اجاگر کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اسلام کو اجارہ داروں کے پنجے سے چھڑانے کااقبال جیسا عزم پھر کبھی پیدا نہ ہوا اور یہ کام کہیں بہت پیچھے رہ گیا! لاہور کی مسجد سے افطاری نہ لانے پر حسین کو نکالا جانا یا مانچسٹر کی مسجدمیںایک مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی بھی اجازت نہ دیے جانا ہو سکتا ہے اپنی نوعیت میں بہت چھوٹے واقعات سمجھے جائیں لیکن ہم سب اپنی اپنی جگہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ انہونیاںبتا رہی ہیں کہ زوال اس حد تک آ پہنچا ہے کہ ہم اسلام کے وسیع دامن سے تنگ نظری کشید کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔