موہوم ہی سہی مگرامید باقی ہے کہ محمود خان اچکزئی ، سراج الحق اور خورشید شاہ مل جل کر عمران خان کو منا لیں گے کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جس سے دستور ی نظام کو کوئی خطرہ نہ لاحق ہونے پائے۔عمران خان کسی سیاسی حادثے کی پیداوار نہیں کہ وہ کوئی اٹل مؤقف اختیار کرکے اپنی اہمیت جتاناچاہیں۔اب عوام ان کو ایک ایسے قابل سیاستدان کے طور پر دیکھتے ہیں جو مستقبل میں پاکستان کا وزیر اعظم بن جانے کی اہلیت اور حمایت رکھتا ہے۔ صفر سے آغاز لے کر انہوں نے اب تک جو سفر کیا ہے اس کا بھی تقاضاہے کہ وہ ایک موقع شناس سیاستدان کے طور پر نہیں بلکہ ایک مدبر کے طور پر سوچیں۔یہ کوئی بے بنیاد امید نہیں کہ اگر انہیں دلیل کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ ان کا آزادی مارچ ملک میں جمہوری نظام کو ہی لپیٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر ملک بدامنی کی راہ سے ہوتا ہوا آمریت کی گود میں جا گرے گا اور وہ اپنی جمہوری جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہ جائیں گے، تو وہ نہ مانیں۔ اگر وہ اپنے آزادی مارچ سے ٹل جائیں تو پھریہ فرض حکومت کا ہوگا کہ وہ ان کے مطالبات مانے اور فوری طور پر ایک ایسا انتخابی نظام وضع کرے جس پر سب فریقوں کو اعتمادہو ۔ اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے تو وہ کی جائے اور اگر کسی نئی قانون سازی کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے کام کیا جائے۔ اگراس سیاسی بحران سے کوئی ایسا فارمولا نکل آئے جس پر عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی متفق ہوں تو یہ پاکستان کی اتنی بڑی جمہوری کامیابی ہوگی کہ کئی سالوں کے لیے آمریت کے خواب بُننے والوں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی ۔ پھر طاہر القادری تو کیا ان سے بڑا بھی کوئی انقلاب کا داعی آجائے تو وہ
جمہوری نظام کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں پیدا کرسکے گا۔ عمران خان نے اب تک بڑی دانشمندی سے اپنے مقاصد کے لیے تشدد آمیز طریقوں سے اجتناب کیا ہے لیکن خوب ہوتا اگر وہ خوداور ان کی جماعت کے دیگر عہدیدار رجز پڑھ پڑھ کر اپنے کارکنوں کا خون گرمانے کی بجائے اپنے سُر کچھ دھیمے کر لیتے۔ اس طرح حکومت پر ان کا دباؤ بھی رہتا اور ان کے بارے میں دستور کے دائرے سے باہر نکلنے کا گمان بھی نہ ہوتا۔ انتخابی دھاندلی پر ان کا مؤقف درست ہی سہی لیکن اس کی اصابت اسی وقت ثابت ہوگی جب وہ اسے عدالتوں میں ثابت کرلیں گے یا دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی اس کی افادیت واضح کردیں گے۔بہرحال تحریک انصاف میں موجود تجربہ کار سیاستدانوں کی موجودگی کے باعث اب بھی ایک کمزور سی امید باقی ہے کہ عمران خان شاید کسی کی بات مان لیں ۔
امید بہت طاقتور بھی ہوتو حقائق کو نہیں بدل سکتی۔ لمحۂ موجود میں پاکستان کے سیاسی حقائق یہ ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شعلہ بیانیوں اور سب کچھ برباد کردینے کی دھمکیوں نے ایک طرف حکومت کو بے چین کر رکھا ہے تو دوسری طرف عمران خان کو بھی بے قرار کردیا ہے کہ وہ ان کے تجویز کردہ انقلاب کے حملے سے اپناسیاسی اثاثہ بچانے کی کوشش کریں۔ یہ تقریباََ ویسی ہی صورتحال ہے جس کا 2013ء کے الیکشن سے پہلے نواز شریف کو سامنا تھا،جب انہیں عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا خوف بھی تھا ، جمہوری نظام تباہ ہوجانے کا دھڑکا بھی۔ وہ کبھی پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے اور گاہے اسے بچانے کے کوشاں ہوجاتے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان بھی اسی مخمصے میں گرفتار ہیں کہ وہ جمہوری طریقے سے 2018ء کا انتظار کریں یا اپنے حامیوں کو ڈاکٹر صاحب کی فسوں خیزی سے بچائیں۔ انہوں نے خاصی مہارت سے انتخابی دھاندلی کے ایک کمزور سے مؤقف پر اپنے کارکنوں کو متحرک کرکے عوام پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اصل کھلاڑی طاہر القادری نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔اس معاملے میں وہ اتنے کامیاب رہے ہیں کہ اس وقت عوام تو عوام خود حکومت بھی یہ تسلیم کرچکی ہے کہ طاہر القادری سے تو انتظامی طریقوں سے نمٹا جاسکتا ہے لیکن عمران خان اگر کسی مہم جوئی کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں تو ان سے نمٹنے کا راستہ صرف مذاکرا ت ہیں؛ وہ مذاکرات حکومتی کوششوںکے نتیجے میں 14 اگست سے پہلے ہوں یا پھر عمران خان کے بیان کے مطابق 14 اگست کے بعد ۔ اس وقت تک تو خیال یہ ہے کہ عمران خان نے بڑی سختی سے بات چیت کے تمام راستے بند کردیے ہیں اور وہ14 اگست کو اپنا آزادی مارچ لے کر اسلام آباد ضرور جائیں گے۔ اگر آزادی مارچ ہونا ہی ہے تو اس کی بہترین صورت یہ ہوگی کہ وہ دارالحکومت پہنچ کر ایک جلسے میں اپنے مطالبات پیش کرکے ایک علامتی دھرنا دے کر واپس آجائیں۔ اس کے بعد مذاکرات کے ذریعے انتخابی اصلاحات یا انتخابات کے آڈٹ کا مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ خان صاحب کے اس مارچ کے بعد وفاقی حکومت پر بھی دباؤ اتنا بڑھ جائے گا کہ وہ نہ صرف ان سے طے کیے گئے فارمولے پر عمل کرے بلکہ عوام کے اطمینان کے لیے گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ازخود تبدیلیاں بھی کرے۔ اگر عمران خان کے آزادی مارچ کا یہ نتیجہ نکلتا ہے تو ابھی تک یہ حقیقت کے قریب اور ملک کے لیے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس صورتحال سے ایک خدشہ بھی وابستہ ہے اور وہ ہے آمریت۔
جمہوری ملکوں میں تحریکیں چلتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کی طرح ان تحریکوں کے بطن سے آمریت کی پیدائش کا خطرہ نہیں ہوتا۔ 2011ء کے دوران بھارت میں انا ہزارے کی بدعنوانی اور الیکشن میںا صلاحات کی تحریک نے حکومت کو پریشان کردیا تھا۔لوک پال قانون اور انتخابی اصلاحات پر انا ہزارے کے غیر لچکدار رویے اور پے درپے برتوں نے بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چھ مہینے تک جاری رہنے والے دھرنوں، برتوں اور جلوسوں کو روکنے کے لیے ہر سیاستدان، خواہ وہ حکومت میں تھا یا اپوزیشن میں، کوشش کررہا تھا لیکن انا ہزارے اور اس کے ساتھی اروند کجریوال کے سخت رویے سے کوئی بات ہی نہیں بن کے دے رہی تھی۔ پھر یہ تحریک تو ختم ہو گئی لیکن اس کا تحرک باقی رہ گیا اور عام آدمی پارٹی
کی شکل میں سامنے آیا اور آخرکار اس پارٹی کی انتخابی شکست سے یہ سب کچھ ختم ہوا۔ یہی صورت 2011ء کے آخر میں امریکہ میں دیکھی گئی جہاں متوسط طبقے کے لوگوں نے دولت کی نامنصفانہ تقسیم سے تنگ آکرملک کے مالیاتی مرکز وال اسٹریٹ پر قبضہ کرنے کی مہم شروع کردی اور اپنے مقصد کے لیے دھرنوں اور سرکاری عمارتوں پر تسلط کا راستہ اپنایا۔ یہ تحریک بھی تین مہینے چلتی رہی اور نیویارک کے زکوٹی پارک میں مصر کے التحریراسکوائر جیسا دھرنا دیا گیا۔ حکومت اس سے سختی نرمی سے نمٹنے کی کوشش کرتی رہی اورا ٓخر میں صرف سختی سے زکوٹی پارک خالی کرالیا گیا۔ بھارت اور امریکہ دونوں جمہوری ملک ہیں، کہنے کو تو ہم بھی ایک جمہوری ملک ہیں لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کا دل آمریت کے خوف سے کانپتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں نے کبھی آمریت کا مزا نہیں چکھا جبکہ ہم نے جمہوریت کو مزا کبھی کبھی چکھاہے۔ ذرا تصور کریں کہ انا ہزار ے یا وال اسٹریٹ پر قبضے جیسی کوئی تحریک پاکستان میں چلتی تو کیا ہوتا؟ ہمارے ہاں ابھی ادارے اتنے مضبوط نہیں ہوئے کہ لمبی تو کیا چھوٹی تحریکوں کی گرمی بھی برداشت کرسکیں۔ اس لیے عمران خان کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اپنا مارچ، جلسہ یا دھرنا اتنا ہی رکھیں جتنی ہماری قوت برداشت ہے، کہیں ایسا نہ ہوکہ سیاسی سٹیج پر کھیلے جانے والے اس ڈرامے کے تماشائی تمام کرداروں کو باہر نکال کر خود اسٹیج پر قبضہ کرلیں۔
14 اگست کو امید یں بروئے کار آئیں گی، عمران خان اپنے خوابوں کی تعبیر پائیں گے یا خدشے سچ ہوں گے؟ اس کا جواب مجیب الرحمن شامی صاحب نے اپنے کالم میں دیا ہے اور خوب دیا ہے کہ '14 اگست کا جواب 14اگست ہی دے گا‘۔