''ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، مثال کے طور پر یہ اعلان کیا جاسکتا ہے کہ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں آزادی مارچ کے شرکاء پارلیمنٹ کی طرف بڑھیں گے، ظاہر ہے حکومت ہزاروں لوگوں پر گولیاں تو نہیں چلا سکتی ، اسے جھکنا ہوگاـ‘‘ ، فرمایا معروف قانون دان احمد اویس نے دنیا ٹی وی کی خصوصی نشریات کے ایک حصے میں۔ احمد اویس کی طرح یہ باتیں کئی لوگ کر چکے ہیں، سب سے بڑھ کر خود عمران خان اور قبلہ طاہرالقادری بھی دوڑیو ، پکڑیو، جانے نہ دیجیو کے نعرے لگاتے رہتے ہیں لیکن جب احمد اویس جیسا آئین پسند پارلیمنٹ پر حملے کی بات کرے تو سننے والے کا دنگ رہ جانا ایک فطری ردعمل ہے۔ اتفاق سے میں بھی اس پروگرام میں شریک تھا ، ان کی بات پرحیرت کے لمحاتی وقفے کے بعد عرض کیا کہ کیا احمد اویس یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کا ایک ایسا گروہ جس میں خیبر پختونخوا کا منتخب وزیراعلیٰ بھی موجود ہے، پارلیمنٹ پر حملہ کردے گا؟ احمد اویس کہنے لگے کہ انہوں نے یہ بات ایک امکان کے طور پر کہی ہے۔ امکان کے طور پر؟ ایک سوال ذہن میں ابھرا کہ یہ 'امکان‘ وہ شخص بیان کررہا ہے جس نے 2004ء میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت سنبھال کرجو پہلی بات کی وہ یہ تھی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ ایک برسراقتدار آمر کے خلاف اس کی آمریت کے دوران آواز اٹھانے والا احمد اویس اگر امکان کے طور پر ہی سہی جمہوری دور میں پارلیمنٹ پر حملے کی بات کرے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی وجود میں ایسا کوئی رخنہ پیدا ہوچکا ہے جس سے گزر
کر فاسد مواد ہمارے اچھے خاصے ذہنوں کو بربا د کیے جارہا ہے۔ احمد اویس کی تحریک انصاف سے وابستگی اپنی جگہ لیکن ان کا شمار دستور کے محافظوں میں ہوتا ہے۔ یہ تو اس ہراول دستے میں تھے جنہوں نے پاکستان میں عدلیہ بحال کرائی اور پھر اس کی ڈھال بنے رہے، اب ایسا کیا ہوا کہ انہیں اپنی زندگی بھر کے نظریات بھول گئے اور پارلیمنٹ پر حملے کے امکانات نظر آنے لگے؟ یہ سوال پروگرام کے دوران ہی ذہن میں آیا لیکن ٹی وی پر اور خاص طور پر خبروں کی بھرمار کے بیچ ہونے والے پروگرام میں اس طرح کی گفتگو نہیں ہوسکتی۔ نشریات کا یہ حصہ ختم ہوا تو میں احمد اویس کو روک کر کھڑا ہوگیا کہ ان کے خیالات کی تبدیلی کا سبب جان سکوں۔انہوں نے جو کچھ کہا‘ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ دستور کی حاکمیت کا اصول اگرخاندانی اور شخصی اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ہو تو پھرعوام سے آئین کی حفاظت کی توقع کرنا عبث ہے ۔
اصولی طور پر احمد اویس کی بات سے اختلاف کرنا بہت مشکل ہے لیکن اس مسئلے کا حل پارلیمنٹ پر حملہ نہیں‘ جمہوریت کا تسلسل ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں میں جمہوریت سے اس بے زاری کی وجہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہیں جواپنی موجودہ شکلوں میں ایک دھڑے یا ہم خیال افراد پر مشتمل کسی انتظامی وجود سے آگے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ پیپلزپارٹی صدر آصف علی زرداری کے ذہن رسا سے نکلی ہوئی تجویز کو مان لینے پر مجبور ہے، مسلم لیگ (ن) وزیراعظم محمد نواز شریف کے اشارۂ ابرو کی محتاج رہتی ہے، جماعت اسلامی اپنے شورائی نظام کے شکنجے میں اتنی کسی ہوئی ہے کہ اسے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق بھی بمشکل نصیب ہوتی ہے اور تحریک انصاف ایک ہنگامہ خیز اندرونی انتخاب کے باوجود اپنے چیئر مین عمران خان کے ہاتھ میں چھڑی کی طرف دافع بلیات کا فریضہ سرانجام دیتی رہتی ہے۔ قائد کی اپنی جماعت پر گرفت کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ کراچی کے ایک محترم ڈاکٹر صاحب نے صدر آصف علی زرداری کو کوئی مشورہ دینا چاہا تو جناب صدر نے ان کے منہ کھولنے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں‘ آپ اپنی ڈاکٹر ی کریں۔ حالیہ انقلابی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ان کے ایک رفیق نے پنجاب کے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کی تو انہوں نے ڈانٹ کر فرمایا، 'میں تہاڈے کو لوں پچھیا اے؟‘ (میں نے آپ سے کب پوچھا ہے؟) تحریک انصاف میں جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم سے استعفے اور نئے الیکشن کے مطالبے پرآزادی مارچ جیسے اہم ترین معاملے پر پارٹی میں سرے سے گفتگو ہی نہیں ہو پائی، محض کور کمیٹی کو بتا نے پر اکتفا کرکے احکامات جاری کردیے گئے۔ رہ گئی بات مسلم لیگ ن کی تو اس کے ہر منتخب و غیر منتخب ذمہ دار کی گردن میں اتنا مضبوط سریا ہے کہ الامان الحفیظ۔
یہ سیاسی جماعتیں جب جمہوری راستے سے گزرکر اقتدار میں آتی ہیں تو ان کی حکومت میں بھی یہی آمرانہ طرزِ عمل جاری رہتا ہے۔ 'میں سب کچھ کرسکتا ہوں‘ کا سودا جب راہنماؤں کے سر میں سما جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ وہ پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی فلاح صرف انہی کے ہاتھوں ممکن ہے۔ نظام کو بہتر بنانا، اختیارات کو پھیلانا، ذمہ داریوں کی تفویض جیسی اصطلاحیں انہیں دورازکار اور فضول معلوم ہوتی ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ بلدیاتی انتخابات کرا دیں تو یہ انہیں گوارا نہیں ہوتے کہ تیسرے درجے کے لوگ منتخب ہوکر منہ کو آنے لگتے ہیں۔ ان سے اگر کہا جائے کہ تعلیمی نظام میں کسی اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ پنجاب میں دانش سکول اور خیبر پختونخوا میں انگریزی کو لازمی کرنے کا نادر شاہی اقدام کہنے والے کے منہ پر مارتے ہیں۔ ان سے درخواست کی جائے کہ دستور کے مطابق اردو کو اولین سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے تو یہ باچھیں پھیلا کر ٹھٹھے لگاتے ہیں۔ جب ان کا یہ شاہانہ طرزِ عمل ان کے لیے مصیبت پیدا کردیتا ہے تو معصوم سا منہ بنا کرپوچھنے لگتے ہیں کہ 'ہم نے کیا کیا ہے؟‘ ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کی بنائی ہوئی حکومتوں میں اصلاح کی ضرورت ہے اور عوام میں اس حوالے سے بے چینی بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کا قطعاََ یہ مطلب نہیں کہ جتھے بنا کر پارلیمنٹ پرچڑھائی کردی جائے۔ سیاسی جماعتوں یا حکومتی نظام میں خرابیوں کی ذمہ داری جمہوریت یا دستور پر نہیں بلکہ آمریت پر آتی ہے جو معاشرے کے فطری ارتقاء پر بند باندھ کر اس میں سڑاند پیدا کردیتی ہے۔ جمہوریت کی خوبی ہی یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے اور ریاست کی اصلاح کرتی چلی جاتی ہے۔ دستور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا چلا جاتا ہے، اس کے الفاظ کو نئے نئے معنی میسر آتے رہتے ہیں اور سماج اپنے سوزِدروں سے خود نئے راستے نکال کر ان پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف جمہوریت اور دستور کی حاکمیت سے ہی ممکن ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ، انقلاب، قومی حکومت، انتخاب سے پہلے احتساب ، سزا جزا جیسی زبان ہم بہت سن چکے۔ جمہوریت ہوگی تو امکانات کی دنیا وسیع تر ہوتی رہے گی۔ باقی رہ گئی بات عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری قبلہ کے تقاضوں کی تو ان کے آزادی و انقلاب کا نشانہ وزیراعظم اور منزل وزارت عظمٰی ہے، اب ان خواہشات پر کیا لکھا جائے ۔ ہمارے سرگودھا کے شاعر قاسم شاہ نے کہا تھا؛
جو لیے پھرتا ہے ہاتھوں میں بغاوت کا علم
بادشاہ کو قتل کر کے، بادشاہ ہو جائے گا