وزیراعظم کا استعفیٰ، اسمبلیوں کی تحلیل،نظام ِ انتخاب کی اصلاح وغیرہ کے بارے میں عمران خان کے فرمودات پر مشتمل ایک دستاویز اگر ان کی خدمت میں پیش کی جائے تو عین ممکن ہے‘ وہ ان میں پائے جانے والے تضاد کی بنیاد پر اپنی کور کمیٹی کو برطرف کردیں‘ جس نے ان کے مؤقف کے الٹ پھیر پر انہیں بروقت متنبہ نہیں کیا۔ انہیں پہلے ان ساری تفصیلات سے آگاہ کردیا جاتا تو ہو سکتا ہے وہ اس دھرنے کی مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے جس سے نکلنے کا کوئی معقول راستہ انہیں سوجھ ہی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ایک طویل اوربارونق دھرنے کے باوجود اپنے مؤقف کی اصابت پر قوم کے بڑے حصے کو قائل نہیں کرسکے۔ حتیٰ کہ وہ یہ تاثر بھی قائم نہیں کر پائے کہ ان کا دھرنا صرف ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے بلکہ اس کے بارے میں یہ بدگمانی بڑھتی جارہی ہے کہ پردوں کے پیچھے چھپے بعض کھلاڑیوں نے کپتان کو الیکشن میں دھاندلی کی کچی پکی معلومات فراہم کرکے انہیں تصادم کی طرف مائل کیا ۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے مناسب حالات پیدا کیے گئے کہ وہ بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ حکومت پر حملہ آور ہو کر واقعات کو ایسا رخ دینے میں مدد کریں کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر ایک بار پھر ملک میں بندوبستی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا جاسکے۔ ان دونوں حضرات نے تصادم کا جو راستہ اختیار کیا اس کے مقابلے میں حکومت نے حالات کو سمجھتے ہوئے پسپائی اختیار کی اور عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو اس مقام تک لے آئی جہاں سے آگے پیش قدمی ممکن ہی نہیں۔ شاہراہ ِ دستور پرایک طویل دھرنا پُرامن سیاست کی آخری
حد ہے، اس لکیر سے آگے جو کچھ ہے وہ تباہی ہے ۔ ہمارے دونوں رہنماؤں کو جوش جذبات میں یہ اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ انہیں خواب دکھا کر یہاں تک لایا گیا ہے۔ انتہائی آسانی سے یہاں پہنچنے کے بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کی نسبت واپسی کا سفر کہیں زیادہ کٹھن ہے ۔اتنا کٹھن کہ تاج شاہی کے امیدوار اب اپنی دستار بچاتے پھر رہے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق عمران خان کے ساتھ موجود تجربہ کار سیاستدان پوری کوشش کررہے ہیں کہ کم سے کم نقصان کے ساتھ اس مصیبت سے نکلا جاسکے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے قومی اسمبلی میں جمع کرانے کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا جب اسپیکر موجود نہ ہوں کیونکہ اسپیکر کی موجودگی میں استعفے دیے جاتے تو خود شاہ محمود قریشی اور عارف علوی فوری طور پر مستعفی قرار پاجاتے۔اب بند لفافوں میں دیے گئے استعفے اس وقت تک منظور نہیں سمجھے جاسکتے جب تک سپیکر ان پر اپنا فیصلہ نہ دے دیں۔ اس کے علاوہ پرویز خٹک صاحب نے بڑی مہارت سے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرا لی کہ ان پر سے اسمبلی توڑنے کا دباؤ ہٹ جائے، یوں بھی پشاور میں خود تحریک انصاف کے اندر جو طوفان کروٹیں لے رہا ہے اس کا خوف بھی بہت سوں کو دہلائے دے رہا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی ہر پوچھنے والے کے سامنے جمہوریت کے لیے اپنی قربانیوں کا ذکر کرکے واضح کرتے ہیں کہ ان کا دھرنا جمہوریت اور دستور کی بالا دستی کو متاثر نہیں کرے گا۔ ایسا نہیں کہ عمران خان اپنے ساتھیوں کی ترجیحات سے واقف نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں مشکل پیش آرہی ہے، اور اسی کوشش میں وہ اپنی تقریروں میں کچھ نرمی برتنے لگے ہیں لیکن صرف اتنی ، جتنی وہ خود ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ شاہراہ دستور سے کچھ لیے بغیر اٹھے تو ان کی جماعت میں توڑ پھوڑ شروع ہوجائے گی جبکہ ان کے ساتھی سوچتے ہیں کہ انہیں نظام کی اصلاح کے نام پر جو کچھ ملتا ہے وہ لے کر واپس ہو جائیں تاکہ آئندہ الیکشن کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔ سوچ کا یہی فرق ہے جو حکومت اور عمران خان دونوں کے لیے اس صورت حال سے نکلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت تو اس موقعے سے فائدہ اٹھا رہی
ہے لیکن عمران خان ابھی تک اس کا ادراک نہیں کرپائے۔ان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ اپنی کور کمیٹی یا مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کرکے یہ فیصلہ کرا لیں کہ حکومت کی طرف سے 2013ء کے انتخابات کا آڈٹ، انتخابی نظام میں اصلاحات، پارلیمنٹ کی مدت میں کمی اور فوری بلدیاتی انتخابات کا اعلان دھرنے کے خاتمے کے لیے کافی ہوگا۔ اس صورت میں ان کے لیے یہ کہنے میں بڑی سہولت ہوجائے گی کہ اب وہ اپنی پارٹی کے فیصلے کے پابند ہیں اس لیے وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کے بجائے ہم انہیں بلدیاتی میدان میں شکست دیں گے۔ اگر وہ اپنے دھرنے کے ذریعے یہ سب کچھ کرا لیتے ہیں تو یہ پیکج وزیراعظم کے استعفے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اس کے ذریعے وہ اپنی پارٹی کو بغیر کسی نقصان کے میدان جنگ سے نکال لے جائیں گے بلکہ فوری طور پر اپنے کارکنوں کو بلدیاتی انتخابات کے لیے متحرک بھی کرسکیں گے۔
عمران خان کو ملک کی تقدیر بدلنے کا ایک موقع قدرت نے عطا کردیا ہے۔ یہ ان پر ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر عوام کی بہتری کے لیے انتخابی اصلاحات اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا ئیں یا اپنی ضد پر اڑ کر اس کو گنوا دیں۔ اگر وہ دونوں چیزیں لے کر شاہراہ دستور چھوڑ کر بنی گالہ چلے جاتے ہیں توقوم ان کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور عین ممکن ہے آئندہ انتخابات میں اقتدار کا ہما ان کے سر پر آبیٹھے۔ خدانخواستہ انہیں دھرنے سے اپنی پارٹی کے دباؤ کی وجہ سے اٹھنا پڑا تو پھر شاید انہیں وہ سب کچھ کھونا پڑے گا جس کی تلاش میں انہوں نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال لگا دیے ہیں۔ عمران سیاست کو ون ڈے میچ کی طرح کھیل رہے ہیں جہاں ایک کی ہار اور دوسرے کی شکست ہی سب کچھ ہے، انہیں اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے کہ ٹیسٹ میچ میں اپنے سے بڑے حریف کے ساتھ میچ کو غیر فیصلہ کن رکھنا ایک طرح کی فتح ہی ہوتی ہے۔ دھرنے کے دباؤ سے وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کی کوشش یو ں بھی اپنی نہاد میں ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ فرض کریں کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیتے ہیں اورعمران خان وزیراعظم کا منصب سنبھال لیتے ہیںتوکیا مولانا فضل الرحمن اپنے مدارس کے لاکھوں طلبہ کے ساتھ شاہراہ دستور پر نہ آبیٹھیں گے؟ یہ رسم ایک بار چل پڑی تو پھر کوئی اسے روک نہیں پائے گا، معاشرے کے تاروپود بکھر جانے کے اس خدشے کا ادراک ہوتے ہی خان صاحب کے غیبی خیرخواہ اس خیال سے تائب ہوچکے ہیں۔ وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اگر کوئی دھرنا منتخب وزیراعظم کے جانے کے لیے کافی ہے تو کسی اور کو باہر کی راہ دکھانے کے لیے ایک کنٹینر کا جلوہ ہی کافی رہے گا۔دھرنوں کے ذریعے حکومتوں کو ہٹانے کا یہ سلسلہ پھر کتنے عشروں تک چلے ، اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سیاست میں تصادم ایک راستہ ہوتا ہے منزل نہیں۔ اگر کبھی تصادم کو حربے کے طور پر استعمال کیا جائے تو اسے مؤثر اور مختصر ہونا چاہیے۔ مختصر جنگ دفاع کرنے والے کو نقصان پہنچاتی ہے اور طویل جنگ حملہ آور کو برباد کرڈالتی ہے۔ عمران خان اپنی جنگ کو جس قدر طویل کرتے جائیں گے ، وہ طاہرالقادری بنتے جائیں گے، جن کی سانس پھول رہی ہے اور اعصاب چٹخ رہے ہیں۔