''حبیب صاحب ،میں نواز شریف کا متوالا ہوں، شیر کے سوا کسی اور انتخابی نشان پر مہر لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہ مانتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کے کارکن یوسف رضا گیلانی کے گھر کے سامنے مظاہرہ نہ کرتے تو طاہر کا خون رائیگاں تھا، کسی نے ان غریبوں کی بات بھی نہیں سننی تھیــ‘‘، یہ الفاظ عابد بٹ کے ہیں جن کے بچوں کو طاہر گھر آکر ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ خبروں کی بھرمار میں آپ کو شاید یاد نہ رہا ہو کہ طاہر نامی یہ نوجوان چند دن قبل عبدالقادر گیلانی ولد یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم پاکستان کے ایک گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ جب بٹ صاحب نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے تعریف کی تو میں نے دیکھا کہ طاہر کے گھر پر تعزیت کے لیے آئے ہوئے بہت سے لوگوں کے سر تائید میں ہل رہے ہیں۔ مجھے لگا کہ عمران خان جو کہتے ہیں کہ ''تبدیلی آگئی ہے‘‘ وہ سچ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی رائے واقعی بدل رہی ہے۔ میں نے بٹ صاحب سے پوچھا کہ کیا عبدالقادر گیلانی کے خلاف قتل کے مقدمہ کا اندراج درست ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کے بیٹے کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے خلاف مقدمہ درج ہونے سے کم ازکم اتنا تو ہوگا کہ آئندہ امیر زادے سڑکوں پر چلتے ہوئے اپنے محافظوں کو احتیاط کا حکم بھی جاری کردیا کریں گے۔عابد بٹ نے اپنی بات ختم کی تو وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی اس حد تک عمران خان کی تحسین شروع کردی کہ ان کے دھرنے اور وی آئی پی کلچر کے خلاف تقریروں نے ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جس میں اب کسی بڑ ے سے بڑے شخص کا جرم کرکے بچ نکلنا تقریباََ ناممکن ہوگیا ہے۔ وہیں پر موجود
مقتول نوجوان کے ایک ہم عمر دوست کا کہنا تھا کہ ''ایف آئی آر سے کیا ہوتا ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ عبدالقادر گیلانی کو گرفتار کیا جائے‘‘۔ اس پر دیگر بڑی عمر کے لوگوں کا خیال تھا کہ عبدالقادر گیلانی خواہ کیسے بھی کردار کا مالک ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس قتل میں اس کا ہاتھ نہیںاس لیے اس کی گرفتار ی ایک طرح کی زیادتی ہوگی۔ یہ دلیل اس کی تسلی کے لیے کافی نہیں تھی۔ عبدالقادر گیلانی کی گرفتاری پر مصر یہ نوجوان تنہا نہیں تھابلکہ اس کے ساتھ وہاں موجود پانچ چھ نوجوان اور بھی تھے۔ جب دلیلوں پر دلیل آنے لگی اور یوں لگا کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نکلا جاتا ہے تو ایک بزرگ نوجوانوں سے مخاطب ہوئے اور پوچھا ''تمہیں پولیس پر اعتماد ہے کہ وہ درست تفتیش کرے گی؟‘‘ ۔ سب سے زیادہ بولنے والا نوجوان جوش سے بولاــ'' ہرگز نہیں‘‘۔'' تو پھر اس بات پر اصرار کیوں کررہے ہو کہ عبدالقادرکو گرفتار کیا جائے، بلکہ اس بات پر بھی خوش کیوں ہو کہ کسی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی ہے، اگر تمہارے خیال میں کوئی ادارہ اس قابل ہی نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے تو پھر یہ ساری بحث کیوں؟‘‘، ان بزرگ کے اس دلیل نما سوال نے نوجوان کو خاموش کرا دیا ،اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ قائل تو نہیں ہوا البتہ لاجواب ہوا ہے، بحث رک گئی لیکن ختم نہیں ہوئی ۔
پچھلے کئی ہفتوں سے پاکستان کی دو نسلیں اس بحث میں زوروشور سے الجھی ہوئی ہیں۔ نئی نسل کا ایک بڑا حصہ ملکی نظام پر بداعتمادی کا اظہار کررہا ہے تو بڑی عمر کے لوگ یہ سوال لیے پھر رہے ہیں کہ اگر یہ نظام کسی قابل نہیں تو متبادل کیا ہے؟ ملکی نظام سے بیزاری کا یہ رجحان بنیادی طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا پیدا کردہ ہے۔ اپنے دوماہی دھرنے سے حکومت تو گرا نہیں پائے لیکن انہوں نے اپنی سیاسی قوت کے زور پرپارلیمنٹ، انتظامیہ اورقومی اداروںکے بارے میں ایسے ایسے سوال اٹھا دیے ہیں جو حقائق سے زیادہ تاثر پر استوار ہیں۔ ان سوالات سے پیدا ہونے والی بے چینی کا علاج کسی دوسرے کے پاس تو کیا ہو، خود ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ ملک کو درپیش وہ سارے مسائل جن کا ذکر وہ ہر رات اپنے کنٹینر پر چڑھ کر فرماتے ہیں، بلا شبہ موجود ہیں لیکن ان کے حل کے بارے میں کوئی اشارہ تک ان کے فرمودات میں نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک اس کائنات کا ہر ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان میں پولیس ، اساتذہ، ریٹرننگ افسر، الیکشن کمیشن، سابق چیف جسٹس افتخار
محمد چودھری سمیت ہر ادارے اور ہر فرد نے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے انہیں ایوانِ وزیراعظم سے باہر رکھا، لیکن کوئی ایک ایسا ثبوت پیش نہیں کرتے جو دنیا کے کسی عدالتی معیار پر پورا اترتا ہو۔ان کا مفروضہ ہے کہ اس ملک میں چلنے والے ہر منصوبے میں کمیشن کھایا گیا ہے، نئے بننے والے ہر بجلی گھر نے کسی کو رشوت دی ہے، ہر کاروباری شخص ٹیکس چور ہے، پارلیمنٹ میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہونے والا اتحاد مفاد پرستوں کا گٹھ جوڑ ہے، ریاست میں کوئی افسر اتنا دلیر نہیں کہ سچ بول سکے اور اگر حق کا بول بالا کرنے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے تو صرف یہ کہ خان صاحب وزیراعظم بن جائیں یا شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب آجائے۔ یہ بلند بانگ دعوے خواہ کتنی ہی بلندی پر کھڑے ہوکر کیوں نہ کیے جائیں، دلائل کی جگہ نہیں لے سکتے۔ منطق کی کسی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کے باوجود اُن کے دعووں نے پاکستانی معاشرے کے ایک حصے میں ریاستی اداروں کے بارے بے اعتمادی کے ایسی فضا پیدا کردی ہے جسے وہ وزیراعظم بن کر بھی دور نہیں کرسکتے۔ نظام پر شک یا اس سے نفرت صرف خان صاحب کا ہی کارنامہ نہیں بلکہ اس میں جمہوری حکومت کی نااہلی، سیاسی جماعتوں کی حد سے بڑھی مفاد پرستی اور پے درپے آمریت کے ادوار کا بھی کردار ہے، لیکن خان صاحب نے ایک ایسے وقت میں اس نفرت کو ہوا دی ہے جب بہت کچھ درست ہونے کی آس لگ گئی تھی۔
امید کے اس پژمردہ پودے پر پہلی کونپل اس وقت پھوٹی تھی جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک چلی، اور پارلیمنٹ میں اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی۔ ایک تحریک اور ایک ترمیم کے نتیجے میں نظام کی بنیادیں درست ہوئیں تو خیال تھا کہ اب سیاست کا کھیل دستور کی بساط سے باہر نہیں جائے گا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ اب ریاستی نظام کو نئے عہد سے ہم آہنگ کرنے کی تفصیلات پرکام ہوگا اور اس میں عمران خان ایک تازہ دم حصہ دار کی صورت میں مددگار ہوں گے۔ اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا کچھ اور ، خان صاحب کچھ کرنے کی بجائے ایسی راہ پر ہو لیے جس کی کوئی منزل نہیں۔ اس نظام کے بارے میں نوجوانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج تو انہوں نے بو دیے لیکن کوئی متبادل نہ دے کر معاشرے میں ایک ایسا ہیجان پیدا کردیا ہے جو اب تک صرف اس لیے قابو میں ہے کہ سماجی سطح پر نوجوان گھر سے بندھے ہوئے ہیں جہاں باپ، بڑا بھائی یا کوئی اور بزرگ ان کی بے چینیوں کو نئی جہت دیتا رہتا ہے۔ ملکی پارلیمنٹ کا وقار تو خان صاحب اور ان کے برادرِ بزرگ شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری نے شاہراہ دستور کی خاک میں ملا دیا ہے، البتہ گھر کی پارلیمنٹ کا تقدس اب تک قائم ہے۔ اب یہ کام اسی چھوٹی سی پارلیمنٹ نے کرنا ہے کہ نوجوان نظام کی نفرت میں کسی غلط راستے کا انتخاب نہ کر بیٹھیں یا ان کی امیدوں کی ٹوٹی کرچیاں ان کے دلوں کا زخمی نہ کر ڈالیں۔ خان صاحب تو اتنے مصروف ہیں کہ ملتان میں لوگ ان کی مقبولیت کے پاؤں تلے روندے گئے لیکن وہ اس معاملے کی تحقیق سے بھی گریزاں ہیں۔ وہ تو یہ بھی نہیں بتا رہے کہ وہ کیانظریہ ہے جس کے فروغ کے لیے سات جانیں چلی گئیں۔بے اعتمادی اور الزام تراشی کا تو کوئی جواب نہیں، لیکن یہ بات خان صاحب کو سمجھائے کون!