"HAC" (space) message & send to 7575

الزامات کی سیاست

''مجھے بڑی پکی خبر ملی ہے کہ آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹ میں چالیس ارب ڈالر پڑے ہیں‘‘۔ ایک سیاسی رہنما اپنے ساتھی کو یہ بتاتے ہوئے کن اکھیوں سے میری طرف بھی دیکھ رہے تھے، ایک لمحے کے لیے ان کی اور میری نظریں ملیں ، انہوں نے نگاہ اپنے ساتھی پر منتقل کی اور بات جاری رکھی : ''میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ جب میں نے یہ خبر سنی تو میرا کیا حال ہوا، لندن میں رہنے والا ایک پاکستانی بینکر ہے جس نے مجھے پوری تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ میں جنگی طیاروں کی خریدار ی میں چار ارب ڈالر کمیشن لیا تھا اور یہ رقم سوئس اکاؤنٹ میں جمع کرا دی تھی۔ اس رقم پر سود بھی لگتا رہا اور اب یہ چالیس ارب ڈالر بنتے ہیں‘‘۔ اس رہنما کے ساتھی نے شاید یہ گفتگو پہلے بھی سن رکھی تھی اس لیے ان کا ردّعمل ہوں ہاں سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا جبکہ میں سوچ رہا تھا کہ آصف علی زرداری کے صدر بنتے ہی میرے سمیت یہ کہانی کئی دوسرے صحافیوں کو سنائی جا چکی تھی تاکہ ہم سے کوئی اسے اپنی خبرکے طور پر شائع کردے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہانی کہنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے کسی نے بھی یہ خبر چھاپنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ یکے بعد دیگرے ثبوت کی بات ہوئی تو انہوں نے کمپیوٹر پرنٹر سے ایک سادہ کاغذ پر کچھ اعدادوشمار دیے لیکن اس کاغذ پرکوئی دستخط تھے نہ کسی ادارے کا نام، اس لیے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اور یہ کہانی اپنی موت آپ مرگئی۔ اب کچھ عرصے بعد ان صاحب کے منہ سے یہ حکایت سن کر مجھے حیرت ہورہی تھی کہ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنی شخصیت کی زور پر ایک جھوٹ کو سچ کرنے پر
تلے ہیں ۔ ''اصل بات میں اب تمہیں بتاتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس پاکستانی نے مجھے اس کے سارے دستاویزی ثبوت بھی دے دیے ہیں‘‘۔ اگرچہ ان کا مخاطب براہ راست میں نہیں تھا لیکن آخری فقرہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھا۔ وہ چاہ رہے تھے کہ میں اب ان سے ثبوت کی بابت کچھ پوچھوں ، لیکن مجھے سو فیصد یقین تھا کہ جب میں ان سے ثبوت مانگوں گا تو وہ مجھے وہی 'دستاویزی ثبوت ‘ عنایت کریں گے جو میرے پاس پہلے سے موجود تھا، اس لیے میں ان کی اس بات پر بھی خاموش رہا تووہ کچھ جھلا سے گئے اور ایک بڑے صحافی کا نام لے کر کہنے لگے : ''اب میں اسے یہ ثبوت دوں گا اور پرسوں یہ خبر ہر ٹی وی پر نشر ہورہی ہوگی‘‘۔ ان کی جھلاہٹ کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی دانست مجھے ایک بڑی خبر دے رہے تھے اورمیں ایک صحافی ہونے کے باوجود اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہا تھا۔ میری لا تعلقی پر ان کا غصہ جائز بھی تھا لیکن میں مروت کے ہاتھوں مجبور، انہیں یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ ان کی گفتگو کے منبع و مصدر سے میں بخوبی واقف ہوں۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ میرے پاس سے اٹھ کر انہیں ایک لائیو پروگرام میں شرکت کرنی ہے، اس لیے اگر واقعی وہ اپنی کہی ہوئی بات پر یقین رکھتے ہیں تو اپنے منہ سے یہ سب کچھ پروگرام میں کہہ ڈالیں گے۔ پروگرام گزرگیا، رہنما سٹوڈیو سے باہر آگئے لیکن وہ خبر انہوں نے بریک نہیں کی۔ پھر میں دو دن بعد
آنے والی پرسوں کا انتظارکرنے لگا کہ شاید ان دستاویزی ثبوتوں کی مدد سے مذکورہ صحافی خبر دے ڈالے۔ میرا انتظار طویل ہوتا چلا گیا اور آج اس واقعے کو چھے سال گزر چکے ہیں لیکن یہ خبر شائع نہیں ہوسکی۔ اتنا ضرور ہوا کہ اس واقعے کے دو سال بعد سے اس رہنما نے نواز شریف کو صدر آصف علی زرداری کو قانون کے شکنجے سے بچانے کا طعنہ دینا شروع کردیا، لیکن اپنے پاس موجوددستاویزی ثبوت وہ کبھی منظر عام پر نہیں لائے۔ البتہ ان کے تندوتیز بیانات سے متاثر ہوکر اس وقت میاں شہبازشریف نے پیٹ پھاڑکر قومی دولت نکالنے،گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹنے جیسے نعرے لگائے لیکن وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ یہ سارا کھیل کسی اور مقصد کے لیے رچایا گیا ہے۔ اس نکتے کو میاں نواز شریف بہت پہلے سمجھ چکے تھے لہذا وہ خود خاموش بھی رہے اورکچھ دن بعد اپنے بھائی کو بھی خاموش رہنے کا حکم دے دیا۔ 
سوئس اکاؤنٹس، کرپشن کے مقدمات اور بڑے سودوں میں کمیشن کے الزامات اور ان کے دستاویزی ثبوت پاکستانی سیاست میں اب ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ان الزامات کی حقیقت ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوسکی لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ پہلی بار سیاستدانوں پر اس طرح کے الزامات جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد لگائے تھے۔ انہوں نے اپنے ہم عصرسیاستدانوں پر جو الزامات عائد کیے تھے وہ آج کے مقابلے میں بڑے حقیر نظر آتے ہیں مگر حکومت کی کاوشوں کے باوجود عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے۔ ویسے بھی ان کا مقصد قومی دولت لوٹنے والوں کوکیفرکردار تک پہنچانا نہیں تھا بلکہ ان کے ذریعے سیاستدانوں کو اقتدار کے کھیل سے باہر رکھنا تھا جو جزوی طور پر حاصل بھی ہو گیا تھا۔ فیلڈ مارشل کے بعد تشریف لانے والے آمر حضرات نے الزام لگانے کے فن کو نئی رفعتیں بخشیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس فن کو اتنا عروج ملا کہ ایک ایسی غیر ملکی کمپنی کو کئی ملین ڈالر اس کام کے لیے دیے گئے کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگا کر بتائے۔ اس کمپنی نے کام کا آغاز ہی کیا تھا کہ حکومت پاکستان نے اسے بند کرادیا تاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے معاملات طے کرنے میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ اس کمپنی کی ابتدائی تحقیق سے جس شخص کے بیرون ملک غیر قانونی اثاثے ملے تھے وہ سیاستدان نہیں تھا، اس لیے یہ معاملہ وہیں ختم کردیاگیا۔ 
بغیر ثبوت کے مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا کلچر سیاستدانوں کا پیدا کردہ ہے نہ اس کے ذریعے آج تک انہیں کچھ مل پایا ہے۔ اس کلچرکی تخلیق اور ترویج کے ذمہ داروں نے اس سے فوائد بھی اٹھائے ہیں اور اسے نئی جہتیں بھی عطا کی ہیں۔ اپنی نا تجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے اہل سیاست و صحافت ایک طویل عرصے تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ بے بنیاد باتوں کو پھیلا کر کس کا فائدہ ہوتا ہے۔ پہلی بار اس سارے کھیل کا بھانڈا محترمہ بے نظیر بھٹو نے پھوڑا تھا اور آخرکار میثاق جمہوریت میں دیگر نکات کے ساتھ یہ معاملہ بھی طے کرلیا تھا کہ آئندہ جھوٹے الزامات لگانے سے بھی گریزکیا جائے گا۔ یہ گریز جاری بھی رہا، آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں ان کے بارے بہت کچھ کہا گیا لیکن نواز شریف پہلو بچا جاتے۔ جیسے نواز شریف اقتدار میں آئے تو الزامات کا کھیل ایک بار پھر شروع ہوگیا، اگرچہ آصف علی زرداری اس کا حصہ نہیں لیکن عمران خان اور شیخ الاسلام قبلہ علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری اندھا دھند الزامات کی بوچھاڑ کیے جارہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جن لوگوںنے خضوع و خشوع سے یہ بے فائدہ کام چار عشروں تک کیا ہے وہ بھی اس سے تائب ہوچکے ہیں۔
بہت کچھ کھونے کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے اپنے ملک کے منتخب لوگوں پردھاندلی ، بدعنوانی، سازش اور حتٰی کے قتل کے الزامات لگاتے اور دہراتے چلے جانا پاکستان کی کوئی خدمت نہیں ۔ اگر واقعتاً خان صاحب یا قبلہ اس ملک کو ہر طرح کی کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو صرف اتنا کرلیں کہ اپنے لگائے ہوئے الزامات میں سے کسی ایک پر عدالت میں چلے جائیں۔ دودھ اور پانی الگ ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں