"HAC" (space) message & send to 7575

اجتماعِ عام

داتا دربار سے ہی مناسب فاصلوں پر لگے بورڈ آنے والوں کو بتا رہے تھے کہ لاہورمیں جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں جانے والوں کو کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔ مینار پاکستان جانے کے لیے آزادی چوک فلائی اوور پر بھی مناسب جگہوں پر اسی طرح کی تحریری ہدایات موجود تھیں‘ اس لیے اجتماع میں جانے والے بغیر کسی مدد کے وہاں پہنچ رہے تھے۔مینارِ پاکستان کے چارو ں طرف سڑکوں پر دوسری ٹریفک کے گزرنے کی گنجائش چھوڑ کر،قرینے سے پارک کی گئی بسوں اور گاڑیوں کی تعداد بتا رہی تھی کہ اجتماع عام میں حاضری توقعات سے زیاد ہ ہے۔اجتماع گاہ میں داخلے سے پہلے اگرچہ پولیس نے بھی جامہ تلاشی کا انتظام کررکھا تھا لیکن اگلے مرحلے پر کھڑے جماعت کے نوجوان زیادہ تندہی، تیزی اور مہارت سے اند رجانے والوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ داخلی دروازے کے ساتھ ہی ٹوائلٹ اور وضوکا ایسا انتظام تھا کہ جس سے کوئی بدبو اٹھ رہی تھی نہ کسی جگہ پانی کھڑا تھا۔ یہ بندوبست دیکھ کر مجھے اسلام آباد کے شاہراہِ دستور پر عوامی تحریک کا دھرنا یاد آیا جو بہت دور سے ہی ایک عجیب طرح کی بساند کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا تھا۔ خیر اندر جاکر اندازہ درست نکلاکہ ملک بھر سے بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے کارکن یہاں پہنچے تھے۔دوسرے شہروںسے آنے والوں نے شامیانوں کی طویل و عریض چھت کے نیچے بستر لگا رکھے تھے جبکہ اس کے گرد لگے چھوٹے چھوٹے کیمپوں پر ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں کے نام لکھے تھے جن کا مقصد یہ تھا کہ 
کسی علاقے یا شہر کے کسی بھی شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کی مدد کی جاسکے۔ اجتماع گاہ میں صفائی کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ کراچی سے آئے ہوئے ایک کارکن‘ جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں، خودراستے سے کیلے کے چھلکے اٹھا کر ایک لفافے میں جمع کررہے تھے مبادا کسی کا پاؤں پھسل جائے۔ اجتماع میں لوگوں کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنے لوگوں کی اس ایک جگہ موجودگی کے باوجود کہیں کوئی ٹریفک رکی تھی نہ کوئی اور بدنظمی نظر آرہی تھی۔ یہ اجتماع بے شک جماعت اسلامی کی تنظیمی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔لوگوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ بات سوفیصد یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جماعت کے سوا کسی دوسری سیاسی پارٹی میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ اتنا بڑا اجتماع تو دور کی بات اس سے آدھے لوگوں کو ایک رات ٹھہرانے کا بندوبست ہی ڈھنگ سے کرسکے۔ اس حسنِ انتظام کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہوگی لیکن سیاست کی تلخ سچائی یہ ہے کہ جلسوں کے نظم و ضبط اور ووٹ میں کوئی ربط نہیں۔ یہ کھیل وقت کی بساط پر حقیقت کی روشنی میں کھیلا جاتا ہے۔ حقائق کی کسوٹی پر پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اگر اندھیرے میں نہیں تو دھند میں ضرور ہے۔ 
اس اجتماع کے پہلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنی تقریر میں جو کچھ فرمایا‘ اس میں بظاہر تو کچھ غلط نہیں اور دوسری جماعت سے کچھ الگ بھی نہیں۔ مثلاً کسی کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے، تھوڑی بہت بحث کے ساتھ یکساں نظام تعلیم پر لوگوں کو راضی کیا جاسکتا ہے، اردو کو واحد ذریعہ تعلیم قرار دینے کا مطالبہ منوانے کے لیے بھی امیرِ جماعت کو ملک بھر سے حمایت مل سکتی ہے لیکن متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخابات کا مطالبہ اور اس کی افادیت سمجھنا ہر شخص کے لیے دشوار ہے۔ یہ تفہیم اس وقت ممکن ہے دشوار تر ہو اگر اپنے ذہنِ رسا سے ابھرنے والی اس تجویز کو سمجھانے کی ذمہ داری برادرِ بزرگ سراج الحق خودلے لیں۔ ایسے حالات میں‘ میں جبکہ عمران خان اپنی مقبولیت سے لیس ہوکر اس نظام ِ ناتواں پر یکے بعددیگرے حملے کررہے ہیں‘ جماعت اسلامی متناسب نمائندگی کی آواز لگا دے توجمہوریت پسندوں کے دل اس خوف سے دہل جاتے ہیں کہ ''کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘؟حاشا وکلا ّ،اس خوف کی وجہ کچھ لوگوں کی مومنانہ فراست نہیں بلکہ ہماری تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ متناسب نمائندگی کے مطالبے چشمِ آمرانہ کے اشاروں پر ہی اٹھتے رہے ہیں۔ 
کہنے کو متناسب نمائندگی انتخاب کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحی فہرستیں عوام کے سامنے رکھتی ہیں اور رائے دہندگان کسی ایک شخص کی بجائے اپنی پسندیدہ فہرست کی حامل پارٹی کو چن لیتے ہیں۔ علم سیاسیات کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس طریقے سے قانون ساز اداروں میں ایسے افراد کی آمد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو حلقہ جاتی سیاست کی گرما گرمی سے گریز کرتے ہیں۔ اس موہوم فائدے کے مقابلے میں اس نظام سے خطرہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی و نظریاتی آوارگی بڑھتی چلی جاتی ہے، کیونکہ پارلیمنٹ میں کسی کو فیصلہ کن اکثریت ہی حاصل نہیں ہوپاتی۔ اور پھر پر پاکستان میں ایسی پارلیمنٹ کا انجام کیا ہوگا، یہ جاننے کے لیے کسی بقراط کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ اس انتخابی طریق کار کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جس ملک میں اسے رائج کیا جائے وہ وحدانی ہو وفاقی نہ ہو۔ جہاں چار صوبے مل کر ایک وفاق تشکیل دیں، اس طرح کا نظام ملک کو مفلوج کرنے کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ قومی اسمبلی میں اپنی ایک دو نشستیں بڑھانے کے لیے سراج الحق صاحب اپنی یہ تجویز سامنے لانے سے پہلے ذرا توقف فرما لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ان کی جماعت کے اکابرین نے غوروخوض کے بعد ہی انیس سو تہتر کے دستور میں الیکشن کے موجود طریق کار پر صاد کیا تھا۔ البتہ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اگر جماعت اسلامی آج اپنے امیر اور شوریٰ کا انتخاب کرنا چاہے تو اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا، اسی طرح اگر وہ اپنے حلیف عمران خان کو بھی تحریک انصاف میں یہ طرزِ انتخاب رائج کرنے پر راضی کرلیں تو ہوسکتا ہے ملک و قوم کی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوجائے۔ 
جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میںاس کے سابق امیر سید منور حسن کی تقریر بھی خاصے کی چیز تھی۔ سید صاحب کی حالات فہمی پر آفرین ہے کہ انہوں نے اتنے بڑے اجتماع میں ببانگِ دہل جہاد وقتال کو سیاسی مسائل کے حل کے طور پر پیش کرکے ملک کی کیا اعلیٰ تصویر پیش کی ہے! ان کی تقریر سن کر محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی میں کسی نہ کسی سطح پر جمہوری نظام سے مایوسی ضرور پائی جاتی ہے ، ورنہ ایک سردوگرم چشیدہ سیاستدا ن اس طرح کی باتیں مجمعے میں کرنا تو درکنار، سوچنے سے بھی گریزکرتا ہے۔یہ مایوسی ایک حد تک درست بھی ہے کہ سات دہائیوں کی تگ و دو کے باوجود یہ جماعت عوام کو اپنے طرزِ فکر پر قائل نہ کرسکی، لیکن اس کے اکابرین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی حوالے سے چاہے وہ کامیاب نہ رہے ہوں لیکن ملک کی نظریاتی جہت درست رکھنے ،تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کے قریب لانے اور پاکستانی معاشرے کو اسلامی اقدار سے جوڑے رکھنے کا جو کام انہوں نے کیا ہے وہ معمولی نہیں۔ اس پیمانے سے دیکھیں تو جماعت اسلامی کوئی ناکام سیاسی جماعت نہیں بلکہ کامیاب ترین اصلاحی تحریک ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں