''دیکھیے جناب ، آپ مجھے حکم کریں کسی غریب کی مدد کرنی ہے تو میں حاضر ہوں، کسی ہسپتال کی کوئی ضرورت ہے تو میں آپ کی بات مان لوں گا، جیل سے کسی قیدی کا جرمانہ ادا کرکے اسے چھڑانا ہے تو آپ کا حکم سر آنکھوں پرلیکن یہ جو آپ دینی مدرسے کی مالی مدد کی بات کررہے ہیں تو میرا صاف انکار ہے۔ کسی کو پتا چل گیا کہ میں مدرسوں کی اعانت کرتا ہوں تو حکومت کے ادارے مجھ پر دہشت گردوں کو پیسے دینے کا الزام لگا کرمیرا جینا محال کردیں گے۔ بھائی صاحب مجھے معاف کردیں،میں اپنا، اپنے کاروبار کا اور اپنے بچوں کا مستقبل تباہ نہیں کرنا چاہتاــ‘‘، سیٹھ صاحب نے بات ختم کی اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے جانے کے لیے کہہ رہے ہوں۔ ماحول اتنا بوجھل ہوگیا تھا اور مجھے لگا کہ سیٹھ صاحب کے ساتھ دس برس کے تعلقات کسی بھی لمحے ہمیشہ کے لیے منقطع ہونے والے ہیں۔ شاید انہیں بھی یہی احساس ہوا تو خود پر قابوپاکر فرمایا، ''حبیب صاحب آپ کو پتا ہے اب حالات ایسے نہیں رہے ، آپ تو صحافی ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں ‘‘۔ میں نے ان کی تسلـّی کے لیے ان کی مجبوریوں کے ادراک کا تاثر دیا اور چلا آیا۔یہ سیٹھ صاحب ان قابل فخر پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی ہمت سے کاروبار جمایا اور پھر اس کے منافعے میں سے نہ صرف ایمانداری سے ٹیکس ادا کیے بلکہ اپنے ملک و قوم کی مقدور بھر مدد کرنے سے بھی کبھی نہیں چُوکے۔ ان کے دینی رجحانات کو جانتے ہوئے ہی میں نے انہیں ایک ایسے مدرسے کی مالی امداد کا مشورہ دیا تھا ، جس کے قائم کرنے والوں اور چلانے والوں کے بارے میں میرے پاس مکمل معلومات موجود تھیں۔مجھ سے یہ غلطی اس لیے
ہوئی کہ میں اس بارے میں کیے گیے پراپیگنڈے کی گہرائی اور اثرات کا اندازہ نہیں کرپایا۔سیٹھ صاحب سے ہونے والی شکر رنجی وقت کے ساتھ ختم ہوگئی لیکن اس کے بعد ہمت نہیں ہوئی کہ کسی صاحب ثروت دوست کو اس مقصد کے لیے کہہ سکوں۔ اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں اس بارے میں تاثر بہتر ہونے کی بجائے خراب ہی ہوا ہے اور سانحہء پشاور کے بعد خراب تر۔اس دو طرفہ دباؤ کی وجہ سے اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ قومی دھارے سے کٹے ہوئے ان تعلیمی اداروں کے انتظامات کو نہ صرف شفاف بنایا جائے بلکہ ان کے اند ر دور رس اصلاحات لا کر یہاں کے طلبہء و اساتذہ کا معاشرے کے ساتھ تعامل بڑھانے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
مدارس میں اصلاحات کا پہلا قدم یہ ہے کہ حکومت آگے بڑھے اور اعلیٰ ملازمتو ں کے لیے بنیادی شرائط میں تبدیلیاں کرکے مدارس کے درجہ عالیہ سے فارغ ہونے والے طلبہء کو بغیر کسی اضافی امتحان کے وہ حیثیت دے جو ایک عام بی اے پاس امیدوار کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے لیے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ مقابلے کے تمام امتحانات میں انگریزی کو بطور لازمی مضمون ختم کرکے اختیاری قرار دیا جائے اور امیدواروں کو سہولت دی جائے کہ وہ انگریزی یا عربی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکیں۔ بظاہر چھوٹے نظر آنے والے اس اقدام سے یہ ہوگا کہ مدارس سے پڑھ کر آنے والے نوجوانوں کے سامنے مسجد
کی امامت یا نئے مدرسے کے قیام کے علاوہ بیوروکریسی میں شمولیت کا ایک دلکش موقع موجود ہوگا۔ انگریزی زدہ بیورو کریٹ بابو ؤں کے مفادات پر اس تجویز سے زد تو پڑے گی لیکن اس اقدام سے نہ صرف مدارس کے دس لاکھ نوجوان مطمئن ہوں گے بلکہ ملکی انتظامیہ بھی اردو کو اپنا کر قومی امنگوں سے ہم آہنگ ہوجائے گی۔ اگر حکومت بیوروکریسی کے لا یعنی دلائل میں آکر یہ نہیں کرتی تو مدارس کو حکومت سے یہ بات منوانے کے لیے پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ عام آدمی کو بھی معلوم ہوکہ ہمارا ریاستی نظام انہیں راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
اصلاح ِ احوال کے لیے دوسرا قدم خود مدارس کو اٹھانا ہے اور وہ ہے اپنے اندرونی نظام کی درستی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالی شان عمارتوں کے مالک مدارس کے اندر اساتذہ کی حالت یہ ہے کہ انہیں ان کے وقت کا معاوضہ بھی یوں ادا کیا جاتا ہے جیسے کسی کو خیرات دی جارہی ہو۔ ان اساتذہ کو ملازمت کا تحفظ ہے نہ کسی قسم کی پنشن کی سہولت۔ یہ اسی وقت تک پڑھا سکتے ہیں جب تک انہیں مدرسے کیـ'مالک علماء‘ کی خوشنودی حاصل رہے۔ یہ درست ہے کہ اساتذہ کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام مدرسے کے اندر ہی کیا جاتا ہے لیکن ذاتی ضروریات کے لیے ان کی تنخواہیں اتنی قلیل ہیں کہ مجھ میں ہمت ہی نہیں کہ میں ملک کے ایک معروف مدرسے کے شیخ الحدیث کی ماہانہ تنخواہ لکھ سکوں ۔ یہ بتاتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ایک صاحب ِ مدرسہ کے زیر استعمال پانچ گاڑیوں کی قیمت تین کروڑ روپے سے زائد ہے لیکن ان کے پاس کام کرنے والے بہترین استاد کی ماہانہ تنخواہ اتنی ہے کہ ان کی پرانی سائیکل تین ماہ تک صرف اس لیے ناقابل استعمال رہی کہ اس کے ٹائر ڈلوانے کے لیے مولوی صاحب کے پاس پیسے نہیں تھے۔سوچنے کی بات ہے کہ جن ذرائع آمدن سے قیمتی گاڑیاں خریدی جاسکتی ہیں، ان میں سے اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ ان معاملات کے سدھار کے لیے اگر مدارس کوئی نظر آنے والا اقدام نہیں کرتے تو پھر حکومت حق بجانب ہوگی کہ تمام مدارس کا مکمل آڈٹ کروا کے استحصال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
مدارس میں بہتری کے لیے تیسرا اہم ترین نکتہ ان میں پڑھانے جانے والے نصاب تعلیم کے بارے میں ہے۔ نصاب کے معاملے میں ہمارے علماء ضرورت سے زیادہ حساس ہیں۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کے بزرگوں نے نصاب کے نام پر انہیں بتا دیا ہے اس سے باہر نکلنا گناہ ہے۔ جب بھی مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب پر ان سے بات کی جاتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس بارے میں فیصلہ کرنا ان کا حق ہے۔ ہوسکتا ہے انگریز راج کے زمانے میں علماء کا یہ رویہ قابل قبول ہو لیکن آج دنیا کی کوئی حکومت اتنی احمق نہیں ہوسکتی کہ بغیر کسی مناسب غوروفکر کے ہر کتاب پڑھانے کی اجازت دے دے۔ اس کے علاوہ تدریس میں اپنے مسلک کی تائید اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی روش بھی ایسی نہیں جسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جاسکے۔ اس حوالے سے علماء کی مشاورت سے ایک ایسا مرکزی بورڈ تشکیل دینا ہوگا جو ان مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لیتا رہے اور نئی تحقیقات کو بھی ان کا حصہ بناتا رہے۔اس کے علاوہ مدارس میں طلبہء کے لیے ٹیلیویژن، اخبارات بھی لازمی قرار دیے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ان کا ملک کن مصائب کا شکار ہے اور معاشرے میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ مجھے بلوچستان کے ایک مدرسے کے بارے میں علم ہے جہاں صاحب جامعہ نے خود با خبر رہنے کے لیے ڈش لگا رکھی ہے لیکن طلبہء پر ٹی وی کو حرام قرار دے رکھا ہے۔
عالمِ اسلام میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں بڑی تعداد میں مدارس ہماری نئی نسلوں کو اسلاف کے علمی ذخائر منتقل کرنے کا کام کررہے ہیں۔ ان کا وجود یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی اصل میں آج بھی قال اللہ وقال رسول ﷺ سے جڑا ہوا ہے۔ حالات کے پیش نظر ہم پریہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ اپنے اس قابل فخر اثاثے کے بارے میںدنیا کے تحفظات کو دور کریں اور جہاں جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔