اگر کوئی اپنی دکان، پٹرول پمپ، شادی ہال یا عبادت گاہ کو دہشت گردوں سے بچانا چاہتا ہے تو وہ انہیں حکومت کی تجویز کردہ زرہ بکتر پہنا کر کسی زیر زمین مورچے میں منتقل کر دے، ورنہ اسے چھ ماہ تک کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی قسمت کا مارا صاحب مکان یا ہوٹل چلانے والا اپنے کرائے دار یا مہمان کے خاندانی کوائف، اس کے پاس موجود اسلحے اور معاشقوں کے احوال سے حکومت کو بروقت آگاہ نہیں کرتا تو اس کے لیے بھی یہی سزا تجویز کی جائے گی۔ یہ خلاصہ ہے ان دو فرامین (آرڈیننسز) کا جو حکومت پنجاب نے ان 'حساس‘ مقامات کی حفاظت کے لیے جاری کیے ہیں۔ یہ دونوں فرامین دہشت گردی کے خلاف اس نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں‘ جو ہماری وفاقی حکومت نے بڑا سنجیدہ سا منہ بنا کر تیار کیا ہے۔ یعنی سترہ دسمبر سے لے کر آج تک کے مبلغ غور و خوض کا نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گرد سے بچنے کی ذمہ داری عام آدمی پر ڈال دی جائے تاکہ خدانخواستہ کچھ ہو جائے تو حکومتی کارندے ٹی وی سکرین پر آ کر بتا سکیں کہ دہشت گردی کا شکار ہو جانے والے بے گناہ اصل میں بے گناہ نہیں بلکہ مجرم تھے جنہوں نے 'معلومات برائے کرایہ داران آرڈیننس اور حساس تنصیبات کے تحفظ کے آرڈیننس کی دفعہ فلاں کی خلاف ورزی کی تھی‘ جس کی قرار واقعی سزا دہشت گرد آ کر دے گئے ہیں، لہٰذا حکومت کا ذمہ دوش پوش۔ یہ معاملہ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں بلکہ باقی تینوں صوبوں میں بھی یہی کچھ فرما کر سمجھا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی اور وہ بلبلاتے ہوئے حکومت کے پاؤں میں گر جائیں گے۔ یہ معاملات بتا رہے ہیں کہ پچاس ہزار بے گناہ لوگوں کی قربانی دے کر بھی ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ دہشت گردوں کی اصل طاقت ہماری انتظامی کمزوری اور سماجی تضادات میں پوشیدہ ہے، اس لیے اس کے خاتمے کے لیے ہمیں بیک وقت ان دونوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا اور اس کے لیے احکامات کے ساتھ اصلاحات پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
احکامات جاری کرنے کے بجائے ضرورت یہ کہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ روزانہ کی بنیاد پر انٹیلیجنس اداروں، فوج اور پولیس کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک میں قانون کے نفاذ کی صورت حال کا جائزہ لیں۔ ضلعے کی سطح پراعلیٰ ترین انتظامی افسر یہ اجلاس منعقد کرے تاکہ عملی سطح پرکوئی مشکل ہے تو اسے فوری طور پر دورکیا جا سکے۔ ہر صبح کا ایک گھنٹہ اس کام کے لیے وقف کر دیا جائے تو پوری انتظامی مشینری چند دن کے اندر اندر دہشت گردی کے خلاف مستعد ہو جائے گی۔ موجودہ حالات میں ایک اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ سرکاری سکولوںکے اساتذہ سے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد مانگی جائے۔ بچوں کے دل و دماغ انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے اساتذہ کی خصوصی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے ذمے یہ کام بھی لگایا جائے کہ وہ اپنے گرد و پیش میں ہونے والے غیر معمولی واقعات سے باخبر رہیں اور گلی محلے کی سطح پر لوگوں سے مؤثر رابطہ رکھیں۔ اس کے لیے انہیں قانونی اختیار بھی دیا جائے تاکہ وہ یہ کام پورے اطمینان سے کر سکیں۔ اگر حکومت کسی طریقے سے اساتذہ کا تعاون حاصل کر
لے تو اسے ملک بھر میں کئی لاکھ تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد حاصل ہو جائے گی اور یہ لوگ نہ صرف معاشرے کے بڑے حصے کو دہشت گردی کے خلاف متحرک کر دیں گے بلکہ حکومت کو بغیر کچھ خرچ کیے اطلاعات کی فراہمی کا نظام بھی میسر آ جائے گا۔ متوازی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مستقل اصلاحات کے لیے بھی کام کا آغاز کیا جائے۔ پولیس کو بہتر بنانے کے کئی منصوبے سرکاری فائلوں میں پڑے ہیں اگر حکومت از خود ان پر عمل کرنا چاہتی ہے تو ٹھیک ورنہ سابق پولیس افسران پر مشتمل کوئی کمیشن بنا کر یہ سب کچھ اس کے حوالے کر دیں تاکہ وہ کسی قابل عمل منصوبے کی نشاندہی کرکے اسے اسمبلیوں کے حوالے کریں۔ اسی طرح انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطے بہتر بنانے کے لیے میکینزم کی تیاری کا کام بھی کسی کمیٹی کے سپرد کرکے اس سے طے شدہ مدت کے اندر کام مکمل کرایا جائے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرہ فکری تضادات کا شکار ہوکر ایک ہمہ گیر تصادم میں الجھتا چلا جا رہا ہے اور یہ الجھاؤ بڑی حد تک دہشت گردی کے لیے بھی سازگار فضا فراہم کرتا ہے۔ اس طرح کے تضادات کا خاتمہ ایک دن میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے سماج میں مکالمے کے تہہ در تہہ فورم بنانے پڑتے ہیں، لوگوں کو حکومت میں شامل کرنا پڑتا ہے تاکہ انہیں یہ احساس رہے کہ ملکی نظام چلانے میں ان کے مشوروں پر کسی حد تک عمل ہورہا ہے۔ یہ مقصد بلدیاتی اداروں سے بڑی حد تک پورا ہو جاتا ہے‘ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے حکمران ان اداروں کے معاشرتی پہلو کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے محض اپنے جماعتی مفادات ہیں، ن لیگ تحریک انصاف کے خوف سے پنجاب میں یہ ادارے نہیں بناتی، پیپلز پارٹی سندھ میں ایم کیو ایم سے ڈرکر اس طرف نہیں آتی اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے اتحاد کے خطرے سے سہم جاتی ہے۔ بلوچستان میں اگرچہ ادھورے سے بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں لیکن ان سے بھی یہ فائدہ ہوا کہ صوبے میں آمادۂ فساد لوگ بھی نظام میں حصے کی امید میں خاموش ہوگئے ہیں۔ اگر باقی تینوں صوبے بھی بلدیاتی ادارے بنا لیتے ہیں تو معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا رسوخ بڑھانے کا ایک قابل قبول موقع مل جائے گا۔ ان اداروں کے بغیر نہ صرف حکومت ادھوری ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی وہ نتائج نہیں دے سکے گی جس کی ہم سب امید لگائے بیٹھے ہیں۔
ملک میں سرکاری سکولوں، مدرسوں اور نجی تعلیم اداروں میں چلتے ہوئے مختلف نظام ہائے تعلیم در حقیقت ہمارے سماج میں تصادم کے کارخانے ہیں جو برسرِ پیکار گروہ پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ان تینوں جگہوں سے نکلنے والے پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں نہ حکومت انہیں ایک مرکز کی طرف لانے کی کوئی کوشش کر رہی ہے۔ آج بھی اگر حکومت ان تینوں اقسام کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اعلیٰ سرکاری نوکریوں میں مساوی موقع دے تو تصاد م کی یہ کیفیت تعاون میں ڈھل سکتی ہے۔ فی الحال تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں اور مدارس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو سرکار ی نوکریوں سے دور رکھنے کے لے ہی ہر امتحان انگریزی میں لیا جاتا ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور اردو (ضرورت کے مطابق علاقائی زبانیں) بطور ذریعہ تعلیم کا نفاذ پہلے سے موجود نفرتوں کا ازالہ تو نہیں کر سکے گا لیکن یہ یقینی ہے کہ آنے والی نسلیں ان فکری مغالطوں سے آلودہ نہیں ہوں گی جن کے داغ ہمیں اپنے خون سے دھونے پڑ رہے ہیں۔
سولہ دسمبر جیسے اندوہناک واقعے نے اگر چہ ہمارے ریاستی اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف یکسوکر دیا ہے لیکن اب تک جوکچھ سامنے آیا‘ وہ دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک کے اعلی ترین عہدیداروں میں خلوص کی کمی تو بے شک نہیں لیکن اہلیت کا معاملہ ضرور مشکوک ہے۔ یہ سادہ دل بندے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کارِ دگر ہے جس میں تیر و تبر ہی نہیں عقل و فکر کی بھی ضرورت ہے۔ ریاستی مشینیری کو بدلے ہوئے حالات سے ہم آہنگ کرنا اور معاشرے میں ابھرتے ہوئے تضادات کا خاتمہ ہی اصل چیلنج ہے۔ ایک بار اس کام کا آغاز ہو گیا تو دہشت گردی ازخود ختم ہو جائے گی۔