1981ء میں رسل نذیراللہ ، جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو جھنگ اورگردو نواح میں زیرزمین معدنیات کا سراغ لگانے کے لیے بھیجی گئی تھی۔ اس ٹیم کے لوگ دو، دوکی ٹولیوں میں تقسیم ہوکر دن بھر اِدھر اُدھر اپنا کام کرتے رہتے اور رات کو جھنگ میں بیٹھ کر اپنی حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کرتے۔ ایک شام چنیوٹ میں کام کرنے والی ٹولی نے خبر دی کہ یہاں ایک چھوٹے سے علاقے میں زیر زمین لوہے کی نشاندہی ہوئی ہے۔ یہ مشینی اشارہ اس وقت زیادہ اہم نہیں سمجھا گیا لیکن رسل نذیراللہ کسی غیر اہم نکتے کو بھی نظر اندازکرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے چنیوٹ میںکام کرنے والوں کے ساتھ خود جانے کا فیصلہ کیاکیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس علاقے میں 1905ء سے معدنیات کی موجودگی کے امکانات ظاہرکیے جارہے ہیں۔ اگلی صبح وہ خود میدان میں اترے اور مسلسل کئی دن اسی علاقے میں کام کرنے کے بعد پہلی بار ایک ایسی رپورٹ مرتب کی جس کی بنیاد پر یہاں ڈرلنگ شروع کی جاسکتی تھی، ورنہ اس سے پہلے جو بھی رپورٹیں تھیں وہ محض امکانات پر مبنی تھیں۔ خیر یہ رپورٹ بن کر اوپر چلی توگئی لیکن سرخ فیتے میں الجھ گئی اور ڈرلنگ کا کام شروع نہ ہوسکا۔ وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور جہانگیر بدر وزیرِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل۔ اب بھی حکومت حرکت میں نہ آتی اگر حفیظ بٹ، رسل کے بچپن کا دوست نہ ہوتا۔ وہ پیپلز پارٹی کا جیالا تھا اور جہانگیر بدرکا پرانا محلے دار بھی۔ رسل نے حفیظ بٹ سے رابطہ کرکے اسے تیارکیاکہ وہ جہانگیر بدر سے چنیوٹ میں ڈرلنگ کے
احکامات دلوائے۔ ایک سائنسدان کی حیثیت سے رسل کا خواب تھا کہ ان کی رپورٹ پر زمین سے معدنیات نکالی جائیں۔ حفیظ بٹ نے بآسانی جہانگیر بدرکو احکامات جاری کرنے پر آمادہ کرلیا۔ ڈرلنگ ہوئی تو ابتدائی نتائج سے ہی معلوم ہوگیا کہ یہاں 'آئرن اور‘ ، سونا اور تانبا تو موجود ہیں لیکن بہت گہرائی میں۔ یہ نتائج حتمی نہیں تھے، ماہرین ارضیات کو نتیجے پر پہنچنے کے لیے بہت سے صبر آزما تجربات کرنا ہوتے ہیں۔ ابھی مزید ڈرلنگ کی ضرورت تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت چلی گئی۔ خوش قسمتی سے نئی آنے والی نواز شریف حکومت نے 1990ء سے 1993ء تک اس علاقے میں تجربات جاری رکھنے کی منظوری دے دی۔ زمین کے اندر ہزاروں فٹ گہرے سوراخ کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور حتمی طور پر یہ معلوم کرلیا گیا کہ یہاں لوہا، سونا اور تانبا موجود تو ہیں لیکن ان کی مقدار کا تعین نہیںکیا جاسکتا۔ رسل صاحب نے اپنی تحقیق سے جو نتائج اخذکیے وہ سرکاری فائلوں میں چلے گئے، جن میں تجویزکیاگیا تھاکہ ریسرچ کے علاقے کو پھیلانا ضروری ہے تاکہ مجموعی ذخائر اور ان کی اوسط گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے 1999ء میںیہاں کچھ کام کیا لیکن اسے فنڈزکی کمی کے باعث ادھورا چھوڑ دیا۔ پھر چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں
نے بغیر سوچے سمجھے اس علاقے میں لوہے کی تلاش کے لائسنس بانٹ دیے لیکن عملی طور پر ایک پائو 'آئرن اور‘ بھی نہ نکالی جاسکی۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 2008 ء میں اقتدار سنبھالا تو بہت جلد اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کسی بھی اخلاقی اتھارٹی سے محروم ہوگئی اور شفافیت کے نام پر وارداتیوں نے اپنے کام دکھانے شروع کردیے۔ اسی طرح کی واردات کا ایک نادر نمونہ ریکو ڈک بنا۔ پاکستان میں ریکو ڈک تانبے اور سونے کا واحد ثابت شدہ ذخیرہ ہے جس پر دنیا کی دو ممتاز ترین کمپنیاں کام کررہی تھیں۔ شفافیت کی آندھی چلنا شروع ہوئی تو ڈاکٹر ثمر مبارک مند سامنے آئے اورانہوں نے بغیرکسی علم، عملی تجربے اور مطالعے کے ایک فتویٰ جڑدیاکہ ریکو ڈک سے پاکستان خود تانبا اور سونا نکال کر دو ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جو ایک ماہر طبیعیات ہیں اور معدنیات کے بارے میں ضروری علم نہیں رکھتے، یک لخت خو دکو ہیرو بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے اس الل ٹپ فتوے کی لاج سپریم کورٹ نے بھی رکھی اور ریکو ڈک پرکام کرنے والے تجربہ کار اداروںکو ملک سے نکال دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ریکو ڈک سے تانبا، سونا تو دورکی بات ایک دھیلے کی مٹی بھی نہیں نکالی جاسکی۔ ریکوڈک کی بربادی کے بعد ڈاکٹر صاحب تھر تشریف لے گئے جہاں وہ کوئلے کو زمین کے اند ر جلا کرگیس بنانے کا کرتب دکھانا چاہتے تھے۔ ایک ہنر مند تماشاگر کی مانند انہوں نے اس غریب اور بے وقوف قوم کو یہ تاثر دیے رکھاکہ گیس بننے کا کام آج کل میں شروع ہونے والا ہے۔ اس چکر میں قوم کا کروڑوں روپیہ غرق ہوتا رہا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت اس لیے خاموش رہی کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی لیاقت ، مہارت اور دیانت پر عدالتی مہر لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جب ہر طرح سے ناکام و نامراد ہوگئے تو خاموشی سے تھر چھوڑکر لاہور آگئے جہاں ان کی قدردانی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت موجود تھی جو صدقِ دل سے یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں اس کے سواکسی نے کبھی کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں کیا۔ ان کی تواضع کے لیے صوبائی حکومت نے پہلے سے موجود اداروںکو بالائے طاق رکھ کر پنجاب منرل کمپنی بنائی، اس کا انہیں چیئرمین بنایا اور ان کے سپرد وہ کام کردیا جو سرکاری ادارے بیس برس پہلے ہی کرچکے تھے یعنی چنیوٹ میں 'آئرن اور‘ کی تلاش ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم کو باور کرا دیا کہ سونا نکل آیا ہے فوراً چنیوٹ پہنچ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ موجودکچے پکے چینی اور جرمن ماہرین جو پاکستانی ماہرین ارضیات سے چوری چھپے معلومات لے کر پاکستان کو دو ارب روپے کا چونا لگا رہے ہیں، وہ بھی وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کی آمدکا سن کر کانپ اٹھے، انہوں نے دست بستہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ خدا کا خوف کریں، ہم کوئی حتمی بات نہیں کرسکتے، لیکن ہوا کے گھوڑے پر سوار ماہرِ طبیعیات بھلا کسی کی کیوں سنے؟خیر، ڈاکٹر صاحب کی دعوت پر وزیر اعظم چنیوٹ پہنچ گئے۔ جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو وہی شہباز شریف جو پکار رہے تھے کہ''لوہا ڈھونڈنے نکلے تھے سونا مل گیا‘‘، اب دھیمی آواز میں کابینہ کو بتا رہے ہیں کہ ''امید ہے کہ چنیوٹ سے لوہا اور سونا مل جائے گا‘‘۔
معدنیا ت کی تلاش ایک طویل اور پیچیدہ کام ہے۔ اس کی طوالت اور پیچیدگی کا اندازہ یوں لگائیے کہ ریکوڈک میں نوہزار مربع کلو میٹر علاقے میں پانچ سو بار ڈرلنگ کرنے کے بعد فیصلہ ہواکہ یہاں کان کنی کی جاسکتی ہے لیکن چنیوٹ میں قبلہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند صاحب نے صرف اٹھائیس مربع کلو میٹر میں پہلے سے کیے ہوئے ادھورے کام کو دہرا کر اعلان کردیا کہ یہاں سونا نکل آیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ساری دنیا ہمارے حکمرانوں کی سادہ لوحی کا مذاق اڑا رہی ہے مگر اس گروہ کے سارے ارکان اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ دنیا کاکوئی اور ملک ہوتا تو وہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو غلط اطلاعات فراہم کرنے والی منرل کمپنی، محکمے کے سیکرٹری اور ان سے متعلقہ لوگوں کونشانِ عبرت بنا دیا جاتا لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں وارداتیوں کے لیے ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔