نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کام کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہ وہ جوہری تبدیلی ہے جو 16دسمبر کے سانحۂ پشاور کے بعد ملک بھر کے اداروں میں آئی اور سندھ رینجرز نے اس کا پہلا ثبوت پیش کردیا ہے۔ پاکستان کے گلے سڑے انتظامی ڈھانچے میں قانون کے بلا امتیاز نفاذ کے ارادے کی پیدائش اتنا شاذ واقعہ ہے کہ ہم رینجرز کے اس اقدام میں بھی وہ کچھ تلاش کرنے پر تلے ہیں‘ جو اس میں موجود ہی نہیں۔ کسی کے خیال میں نائن زیرو پر چھاپہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر پیدا ہونے والے سیاسی اتفاقِ رائے کا جواب تھا تو کسی کے مطابق پاک فوج کو کراچی کی دلدل میں مزید دھکیلنے کی سازش۔ کوئی اس چھاپے میں سے ایم کیو ایم کے لیے متبادل قیادت کی پیدائش پر زور لگا رہا ہے تو کوئی صرف اس لیے آگ اگل رہا ہے کہ اس جماعت کے برے وقت میں اس کے خلاف رجز پڑھ کر بہادری کی سنداپنے نام کرلے۔ اندیشوں، اٹکلوں اور حالات سے ناواقفیت کے اس شور شرابے میں کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے نے بغیر کسی کی دھونس میں آئے اپنا فرض ادا کیا ہے۔چونکہ یہ انتہائی سادہ سی بات ہے اور اس میں کوئی رنگ رنگیلی سازش کی حکایت نہیں ڈھونڈی جاسکتی اس لیے ہم نے ازخود حقائق کے نام پر حکایات کی نشرواشاعت کا کام سنبھال لیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے حافظے میں قانون کے نفاذ کی مثالیں اتنی کم ہیں کہ ہمیں سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کی جانے والی یہ شفاف کارروائی بھی کسی نئی سیاست کا نقطۂ آغاز معلوم ہوتی ہے۔
رینجرز کے چھاپے سے اخذ کیا جانے والا ایک امکان یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے اب کراچی میں ایم کیو ایم کی کانٹ چھانٹ کرکے اسے قابل قبول سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرنے میں کسی حد تک خود ایم کیو ایم بھی قصور وار محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس واقعے کے فوری بعد جماعت کی قیادت نے امتیازی سلوک وغیرہ کے روایتی سیاسی بیانات سے کام چلانے کی کوشش کی اور یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ روایتی راگ کا الاپ ان متعین سوالوں کا جواب نہیں جو لوگ اس کے دفتر میں جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کے حوالے سے اٹھا رہے ہیں۔ اس واقعے کے چوبیس گھنٹے بعد برافروختہ حواس قابو میں آئے تو رابطہ کمیٹی خاموش ہوئی اور الطاف حسین صاحب نے میڈیا کا محاذخود سنبھال کر ہونے والے نقصان کی کچھ تلافی
کرنے کی کوشش کی۔حیرت کی بات ہے کہ ایک تجربہ کار سیاسی جماعت کو یہ سادہ سی بات سمجھنے میں چوبیس گھنٹے لگ گئے کہ اگر اس نے اپنی مظلومیت کا رونا زیادہ رویا تو اسے کمزور جانتے ہوئے اس کے دوست بھی اس سے دور چلے جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ایک دو دن کے اندر سارے واقعات پرغور کرکے وہ اپنے دفتر میں دہشت گردوں کی موجودگی کا کیا جواز پیش کرتی ہے۔ اس جماعت کی شامت آنے کے تاثر کی دوسری وجہ رینجرز کی وہ پریس ریلیز ہے جو نائن زیرو (یا اردگرد)سے گرفتار ہونے والے عمیر صدیقی نامی شخص کے اعترافات پر مشتمل ہے۔ اس پریس ریلیز میں اختیار کیا گیا انداز بیان عجیب و غریب ہے ۔اصولی طور پر یہ پریس ریلیز کمشنر کراچی کی طرف سے ایک روایتی پریس نوٹ کی صورت میں سامنے آتی تو زیادہ مناسب ہوتا ۔
اس چھاپے سے جنم لینے والا دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ ایم کیو ایم کا نیا قائد کون ہوگا؟ یہ سوال اور اس کے جواب میں ہونے والی قیاس آرائیاں اتنی لذیذ ہیں کہ سیاست کے رسیا لوگ اس پر گھنٹوں گفتگو کرتے رہیں تو بے مزہ نہیں ہوتے ۔ اس معاملے میں خامہ فرسائی اور زبان کشائی کرتے ہوئے یہ حقیقت نظروں سے نجانے کیوں اوجھل ہوگئی کہ سیاسی راہنماؤں کی پنیری کسی کے لگانے سے نہیں لگتی بلکہ یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں کہ ان کا لیڈر کون ہے۔ اگر یہ حیلے کامیاب ہوسکتے تو آج شوکت عزیز، چودھری شجاعت حسین، ظفراللہ جمالی اور پرویز الٰہی ہمارے دلوں پر حکومت کررہے ہوتے۔ الطاف حسین کے قائدانہ کردار پر ہمیں کتنے ہی اعتراض کیوں نہ ہوں لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کا ایک قابل لحاظ حصہ پچھلے تیس سال سے انہی کی اقتدا میں کھڑا ہے ۔ یہ درست ہے کہ کراچی کے الیکشن میں بے قاعدگیاں ایک معمول کی بات ہے لیکن غیرجانبدارنہ سروے بھی کراچی اور حیدرآباد میں ان کی مقبولیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی مضبوطی میں اس کی بے اعتدالیوں کا بھی کوئی دخل ہوسکتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اصل بنیاد الطاف حسین کی مقبولیت ہے۔ ان کی مقبولیت کو کم کرنے یا ختم کرنے کی کوئی انتظامی کوشش بارآور ثابت ہوسکتی تو یہ کام 1992ء یا 1996ء کے دو آپریشنوں میں ہوچکا ہوتا۔ رینجرز کے چھاپے نے بیشک متحدہ قومی موومنٹ کو کمزور کیا ہے لیکن یہ اتنا بڑ اواقعہ نہیں کہ اس کے ضمنی اثرات کے طور پر الطاف حسین کے حامی انہیں چھوڑ کر عمران خان کا دامن تھام لیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نائن زیرو پر رینجرز کی کارروائی سے ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ اس کامیابی کے بعد حکومت کے پاس یہ جواز نہیں رہا کہ کسی کی گرفتاری یا رہائی سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے لوگوں نے اس واقعے پر خاموش رہ کر ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اپنا کام دھیان سے کریں اور ناپسندیدہ عناصر پر مضبوط ہاتھ ڈالیں تو لوگ ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بلکہ ان کے مددگار ہوں گے۔ یہ نکتہ حکومت کے ساتھ ساتھ باقی تمام لوگوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے اور خاص طور ایم کیو ایم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسے اپنے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے بہت تیزی سے بہت کچھ ایسا کرنا ہوگا جو کراچی سے لے کر گلگت تک سب کو نظر آئے۔