محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دن لاہور کی ہر زندہ آنکھ آنسو بہا رہی تھی۔ فضا ایسی تھی کہ کسی سے بات کرو تو وہ رونے لگتا تھا، پھر جب رات کو سندھ سے خبریں آنے لگیں تو ہر شخص بلکنے لگا۔ گھوٹکی سے لے کر کراچی تک آگ لگ چکی تھی، سندھ کے لوگوں نے عملی طور پر باقی پاکستان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ ٹرین چل نہیں سکتی تھی کہ لوگوں نے پٹڑی اکھاڑ پھینکی تھی، تیس ریلوے اسٹیشن جلا ڈالے تھے، روہڑی پہنچنے والی شالیمار ایکسپریس کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ سڑک کی حالت یہ تھی کہ گھوٹکی سے کراچی تک قومی شاہراہ ایک قبرستان کا منظر پیش کر رہی تھی۔ پنجاب سے جانے اور سندھ سے یہاں آنے والی ٹریفک سہم کر کونوں کھدروں میں گھس گئی تھی۔ پولیس تو ایک طرف لوگ رینجرزکو بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ جگہ جگہ سے اطلاعات آرہی تھیں ، لوگوں نے گولیوں سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ کراچی کے ساتھ ایک ہوائی رابطہ باقی تھا لیکن وہ بھی ایئرپورٹ کی حد تک۔ کراچی میں کوئی ایئرپورٹ تک پہنچ سکتا تھا نہ یہاں سے باہر نکل سکتا تھا کیونکہ سڑکوں پر ایسے ڈنڈا برداروں اور بندوق برداروں کا راج تھا جو پنجاب کو گالی دے رہے تھے۔ سندھ میں حکومتی نظام پیپلزپارٹی کے جیالوں کی ٹھوکروں پر تھا،کراچی سٹاک ایکسچینج کریش کرگئی تھی اور بینکنگ کا نظام ٹھٹھر کر رہ گیا۔ ریاستی نظام مکمل طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے وارثوں کے ہاتھ میں چلا گیا، وہ چاہتے تو یہ چلتا ، نہ چاہتے تو رک کر ٹوٹ جاتا۔ سیاسی طور پر صورت حال یہ تھی کہ چند دن بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ مسلم لیگ ق جو پانچ سال
حکومت کرنے کے بعد ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کی حمایت سے الیکشن کے میدان میں اتری تھی، محترمہ کی شہادت کے بعد اپنے پائوں پر بھی کھڑی ہونے سے قاصر تھی۔ اس کے دفتر جل رہے تھے، جلسے الٹے جارہے تھے اور امیدوار عوام کے گھیرے میں تھے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف قومی سطح کے واحدرہنما بن کر ابھرے تھے لیکن الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے بتا چکے تھے کہ ان کے پاس ملک کو اس مصیبت سے نکالنے کا کوئی حل موجودہ نہیں ۔ اس وقت چند سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد بھی اے پی ڈی ایم کی صورت میں موجود تھا جس میں قاضی حسین احمد، محمود خان اچکزئی اور عمران خان شامل تھے۔ یہ اتحاد بھی انتخابات سے باہر رہنے کا اعلان کرچکا تھا۔ پیپلز پارٹی اپنی لیڈر کے قتل کے صدمے سے باہر نہیں آئی تھی ، اس لیے کچھ کہنا مشکل تھا کہ اب اس کی حکمتِ عملی کیا ہوگی۔ سیاسی اعتبار سے ملک ایک ایسی بند گلی میں گھس گیا تھا جہاں سے نکلنے کا راستہ کسی کو نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر شخص سہما ہوا تھا، ایک مہیب سناٹا تھا اور اس میںسندھ میں بھڑکی ہوئی آگ کی مخصوص آواز۔ ملک ہاتھ سے نکل رہا تھا اور کوئی کچھ نہیں کرپا رہا تھا۔ ایسے میں لاڑکانہ سے ایک آواز ابھری''پاکستان کھپے، پاکستان کھپے‘‘۔ اس آواز نے سندھ میں علیحدگی کے طوفان کے سامنے بند
باندھ دیا۔ یہ آواز اٹھی تو پاکستان ریلوے کی گاڑی چھک چھک کرتی ہوئی صادق آباد اسٹیشن سے کراچی کی طرف چل پڑی، مردہ پڑی قومی شاہراہ میں زندگی دوڑنے لگی اور کراچی ایک جھٹکے سے اٹھ کر اپنی پوری رفتار سے دوڑنے لگا۔ پاکستان کھپے (پاکستان چاہیے) کا یہ نعرہ آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر پر کھڑے ہوکر اس ہجوم کے سامنے لگایا تھا جو ''نہ کھپے ، نہ کھپے، پاکستان نہ کھپے ‘‘ کا شور مچا رہا تھا۔ زرداری کے دو لفظوں نے پاکستان کو جوڑنے کا وہ کام کردکھایا جو اس ملک میں کوئی شخص، جماعت یا ادارہ کرنے کے قابل نہ تھا۔ اگلا اعلان انہوں نے یہ کیا کہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کردیا۔ میاں نواز شریف کو بھی اس میں شرکت کے لیے راضی کرکے انہوں نے ملک کو آمریت کی بند گلی سے نکال کر جمہوریت کی کشادہ راہ پر ڈال دیا۔ اے پی ڈی ایم مسلسل لاتعلق رہا لیکن اس کی لاتعلقی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ الیکشن ہوئے اور اس طرح ہوئے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان فرق ہی ختم ہوگیا ، پھر بھی نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز مشرف کو شکست ہوگئی۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومت بنا لی اور آصف علی زرداری وفاق میں اپنی پارٹی کی حکومت بنا کر خود ایوان صدر میں جا بیٹھے۔ پھر جو کچھ ہوا، تاریخ ہے۔
آصف علی زرداری کی زندگی الزام اور دشنام سے عبارت ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی تہمت نہیں جو ان پر نہیں لگی اور تعزیرات ِ پاکستان کی کوئی دفعہ ایسی نہیں جس کے تحت ان پر مقدمہ نہیں بنا۔ یہ دس سال جیل میں رہے لیکن بدنامی کا خوف یا جیل کی سختی ان کے اعصاب نہیں توڑ سکی۔ جب سارا ملک اوسان خطا کرچکا تھا، زرداری پورے ہوش میں رہ کر فیصلے کر رہے تھے ۔ ان کے دور صدارت میں بھی ان پر الزامات کا سلسلہ چلتا رہا، ہرروز عدالتوں میں ان کے کیس چلتے ، ہر شام ٹی وی سکرین سے ان پر تبرا ہوتا لیکن وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ ممبئی حملوں کے الزامات سے لے کر اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں دریافت تک کی ہر مشکل سے وہ پاکستان کو نکالتے رہے۔ انہوں نے بہت کچھ غلط بھی کیا، وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی میں رکاوٹ بنے رہے، انہوں نے جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے گریزکیا ، اس کے علاوہ بہت کچھ ایسا بھی کیا جو نہ کرتے تو بہتر ہوتا، لیکن یہ طے ہے کہ ہر معاملے پر ان کے دلائل ایسے نہیں تھے جنہیں آسانی سے نظر انداز کیا جاسکتا۔ ان کے خلاف سازشیں ہوئیں اور اتنی ہوئیں کہ شاید ہی کسی کے خلاف ہوئی ہوںگی، حتیٰ کہ ان کی میعاد کے آخر میں تو ڈاکٹر طاہرالقادری بھی ان پر پل پڑے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ آخرکار انہوں نے 2013 ء میں محمد نواز شریف سے بطور وزیراعظم حلف لیا اور پہلی بار اقتدار ایک سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل کرکے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا۔
یہ درست ہے کہ زرداری ملک میں گڈ گورننس نہیں لاسکے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ ان کی پارٹی کے سرکردہ لوگ مالی بدعنوانیوں میں ملوث رہے، یہ بھی غلط نہیں کہ ان کی حکومت نے بجلی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف مناسب توجہ نہیں دی لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے کا کام اس گڈ گورننس سے تو نہیں ہوسکا جو جنرل مشرف کی سیادت میں شوکت عزیز نے متعارف کرائی تھی۔ زرداری بہت برا سہی مگر اس کے سوا کون تھا جس نے 2008ء کے بحران سے ملک کو نکالنے میں کردار ادا کیا تھا؟ جب عمران خان اور طاہرالقادری نادیدہ کندھوں پر سوار ہوکر دستور کا جنازہ نکالنے اسلام آباد میں دھرنے دیے ہوئے تھے تو کون تھا جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے حکومت کو بچانے کے لیے اس کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوگیا تھا؟
آج پاکستان میں کسی کو یہ خدمات یاد نہیں، یاد ہے توبس ایک تقریر !کیا زرداری کو شکوے کا بھی حق نہیں رہا؟
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں ، اے غمزدگاں
مرگِ مجنوں پہ کڑھو، ماتمِ فرہاد کرو