متحدہ قومی موومنٹ پر بھارت سے تعلقات کا الزام کوئی نئی بات نہیں۔ تنہا بھارت ہی کیوں، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے، برطانوی ایم آئی سکس، اسرائیلی موساد اور نہ جانے کون کون سے خفیہ اداروں کے ساتھ اس کے معاملات گزشتہ پچیس برسوں کے دوران اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور بوقتِ ضرورت بھلائے جاتے رہے۔ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے حکومت سازی کے لیے ان الزامات کو نظر اندازکیا تو کبھی نواز شریف نے اقتدار کے نام پر انہیں درخورِ اعتنا نہیں جانا، حتّٰی کہ جنرل پرویز مشرف نے تو اپنی حمایت کے عوض اس جماعت کو وہ آزادی بخشی جو آج اس کے خلاف فرد ِجرم کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ دوسروں کی طرح ایم کیو ایم نے بھی ان الزامات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور لغوکہہ کر خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی۔ بہت ہوا تواس کے قائد الطاف حسین نے سندھ کے اردو بولنے والوں میں اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِدھر اُدھر کے رجز پڑھے،کسی کو للکارا، کسی کو چمکارا اور بات ختم کردی۔کبھی ایم کیو ایم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی نہ کسی دوسرے نے اس کے خلاف قابلِ قبول ثبوت پیش کرنے کی زحمت گوارا کی، اس لیے یہ انتہائی خطرناک الزام ایک پست درجے کی پھبتی بن کر رہ گیا جو ایم کیو ایم کے مخالفین اس پر کستے رہے۔ پچیس سالہ پرانا الزام آج پھر ایک سوال کی صورت میں متحدہ کے صدر دفتر نائن زیرو کے دروازے
پر جواب کے لیے دستک دے رہا ہے اور اس کے قائدین آج پھر اسے لغو کہہ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، لیکن اب شاید ایسا نہ ہوپائے، کیونکہ پاکستان بدل چکا ہے اور اتنا بدل چکا ہے کہ لندن میں بیٹھے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی اس کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ دہشت گردی اور بدامنی سے عاجز آئے ہوئے پاکستانی عوام اپنے امن و سکون کے لیے سب کچھ داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔ صورتِ حال ایسی ہے کہ کسی پر امن دشمنی کا جھوٹا الزام بھی لگتا ہے تو معاشرہ ملزم سے ہی معصومیت کا ثبوت مانگتا ہے۔ ضربِ عضب، کراچی آپریشن، فوجی عدالتیں اور اندرونی سلامتی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر بے پناہ وسائل فراہم کرنے کے بعد پاکستانی ٹیکس دہندگان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ مشکوک اشخاص یا جماعتوں کو اپنے درمیان برداشت کریںگے۔ اس لیے ایک ذمہ دار سیاسی جماعت کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے کردار و گفتار سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی صفوں میں بیرونی خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں نہ کراچی کی بدامنی میں اس کا کوئی کردار ہے۔ اگر ایم کیو ایم ایسا نہیں کرتی تو پھر ملک کے دوسرے حصوں کو تو چھوڑیں، کراچی میں بھی اس کا مستقبل مخدوش ہوجائے گا۔
بھارت سے تخریبی نوعیت کے تعلق کا الزام محض متحدہ قومی موومنٹ کے لیے ہی بے عزتی کا سامان لیے ہوئے نہیں بلکہ اس کی وجہ سے پاکستان کا وقار بھی داؤ پر لگا ہے۔ اس کرہ ارض پر موجود کسی ملک کو بھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہوگا کہ اس کی ایک ایسی سیاسی جماعت پر دوسرے ملکوں کے خفیہ اداروں سے ساز باز کرنے کے الزامات لگے ہوں ، جو پارلیمنٹ میں ایک بڑی قوت کے طور پر موجود ہے۔ عالمی میڈیا پر متحدہ قومی موومنٹ پر لگنے والے الزامات اب محض ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں رہے بلکہ یہ ریاست کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے برطانیہ کو لکھا جانے والا خط کافی نہیں بلکہ ہمارے اپنے اداروں کو ایم کیو ایم کے خلاف ایسی تفتیش کرنی چاہیے جس میں ایم کیو ایم بے قصور ثابت ہو یا اس کے خلاف ناقابل تردید شواہد مل جائیں۔ لگے ہاتھوں بیرونِ ملک سے آنے والے ''سیاسی‘‘ سرمائے کوبنیادی سوال قرار دے کر تفتیش کا دائرہ تھوڑا پھیلا لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس صورت میں ہم اس مذہبی رہنما اور اس کی آل اولاد کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر سکیں گے جس کے بارے میں لیبیا کے معمر قذافی مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا تھا کہ ''وہ ہم سے پیسہ لیتا ہے، اگر تمہیں تنگ کرے تو مجھے بتانا‘‘۔ لیبیا سے آنے والا پیسہ اس مذہبی رہنما کی رحلت کے بعد ان کے بچوں کو اس وقت تک ملتا رہا جب تک خود معمر قذافی عرب بہار کا شکار نہ ہوگئے۔ پھر امریکہ سے صوفی اسلام کے فروغ کے نام پر آنے والے ڈالروں کی تفہیمِ حساب کے لیے ملک میں موجود ایک سابق وزیراعظم سے بھی اس بہانے پوچھ لیا جائے گا کہ حضور اس کاروبار میں آپ نے کس کس کو نوازا اور خود راہِ سلوک کی کتنی منازل طے کیں۔ بلوچستان کے ایک نامور سے بھی دریافت کیا جاسکے گا کہ زیادہ نہیں تو افغانستان سے آنے والی نقد رقوم سے بھرے ہوئے بکسوں کی تعداد ہی بتا دیں۔ یہ تفتیش اس راز سے بھی پردہ اٹھائے گی کہ آخر وہ کونسی خدمات ہیں جن کے عوض اعلیٰ سرکاری افسروں کی بیگمات اور بچوں کو مختلف این جی اوز ڈالروں سے لاد دیتی ہیں۔ جب تفتیش و تحقیق کا دائرہ وسیع ہوگا تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ بیرونِ ملک سے پیسے لے کر اس ملک میں کون کیا کرتارہا ہے۔
ایم کیو ایم اور بھارت کے معاملے کو اب ہاتھ سے جانے دینا پاکستان اور خود ایم کیو ایم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اگر یہ جماعت بے قصور ثابت ہوجائے تو خوب ورنہ ہمیں برطانیہ سے ثبوت نہیں بندوں کا تقاضا کرنا چاہیے تاکہ انہیں یہاں لاکر قرار واقعی سزا دی جاسکے اور پاکستانی سیاست کو اس قسم کے عناصر سے پاک کیا جاسکے۔ جس طرح ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپے نے کراچی اور ملک میں قانون کے نفاذ کی نئی راہیں کھول دی ہیں اسی طرح اس معاملے میں بھی ایم کیو ایم کو بنیاد بنا کر بہت سے دوسرے بہروپیوں کی قلعی کھولی جاسکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جرم، بیرونی پیسے اور سیاست کے درمیان ہر تعلق ختم کردیں۔ یہ معاملہ یونہی چھوڑ دیا گیا تو پھر نجانے وہ وقت کب آئے کہ پوری قوم اپنے داخلی امن کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کا ہر نخرہ برداشت کرنے کے لیے تیار ہو۔ اگر یہ ساری فلم صرف ایم کیوایم کو پسپا کرنے کے لیے چلائی گئی ہے تو یاد رکھیںکہ نوے کی دہائی میں بھی اسی طرح کے ایک آپریشن میں اسی طرح کے الزامات لگے تھے، وہ تصویریں بھی چھپی تھیں جن میں لوگوں کوالطاف حسین کے پوسٹر سرِ بازار پھاڑتے دکھایا گیا تھا لیکن کراچی میں انتخابات کے نتائج نہیں بدلے تھے۔